یاسر حسنین
محفلین
پروف ریڈنگ کتاب کی اشاعت میں اہم کردار رکھتی ہے ۔ لیکن کئی بار اس پر لطیفے بھی بن جاتے ہیں۔ ایک دوست م ص ایمن صاحب کی ایک پوسٹ کا موضوع ”پروف ریڈر“ تھا۔ جس میں انہوں نے لکھا کہ
”پروف ریڈر ایسا قاری ہے جو کتاب پوری پڑھتا ہے اور مفت پڑھتا ہے اور مزہ یہ کہ کتاب پڑھنے کی اجرت بھی لیتا ہے ۔“
ایک صاحب سید فریدی رضوی صاحب (واللہ اعلم یہی نام ہے یا ابن صفی کے کردار فریدی سے متاثر ہیں۔)نے ابن صفی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ
”بعض پروف ریڈر بغیر مشورہ کے تصحیح بھی کر دیتے ہیں، ابن صفی نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس لیے مصنف کو چاہیے کہ پروف ریڈر کے دستخط شدہ مسودہ کو ایک بار پھر پڑھ لے، پرنٹنگ سے پہلے۔“
ظاہر ہے اس کے بعد میں بھی نہ رہ سکا تو تلاش شروع کر دی۔ جو باتیں ملیں آپ کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔لیجئے تو پھر ابن صفی ہی کی زبانی پڑھیے کچھ باتیں۔
(ناول عمران سیریز نمبر ۳۶ ،چیختی روحیں ۔٢٤ اپریل ١٩٥٩ء)
بھائی- آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ”خبیث“ میک اپ میں بھی ہو سکتا ہے- آخر ایک پراسرار کہانی کا اشتہار تھا- آپ نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ ”خبیث“ یہ چاہتا ہے کہ اس پر ”جینئیس“ کا دھوکا ہو- آپ یہ سمجھیں کہ ”خبیث“ کو بس سے لکھ دیا گیا ہے بلکہ یہ گمان گزرے کہ کہیں ”جینیئس“ کے نکتے اور شوشے بے ترتیب نہ ہو گئے ہوں- بعض خبیث یہی چاہتے کہ انہیں جینئیس سمجھا جائے-(خدا کرے آپ راقم الحروف کو جینئس نہ سمجھتے ہوں)
(عمران سیریز نمبر ۹۰، فرشتے کا دشمن، ۲۰ مارچ ۱۹۷۶ء)
لہٰذا انھوں نے ازراہِ چشم پوشی ایڈیٹر سے بھی کچھ نہ کہا اور سرخی جما دی "پکاسور".....
پھر پورے مضمون میں جہاں بھی "پکاسو" کا نام آیا "ر" کا اضافہ کرتے چلے گئے .....!
پروف ریڈر عموماً فرض کر لیتے ہیں کہ کاتب نے سب ٹھیک ہی لکھا ہو گا۔ بھلا نقل کے لئے عقل کی کیا ضرورت...... لہٰذا رسالے میں "پکاسور" پر ایک مبسوط مقالہ شائع ہو گیا!..... اور ایڈیٹر صاحب اپنی میز پر سر کے بل کھڑے یہ سوچتے رہ گئے کہ آئندہ پڑھے لکھے لوگوں کو کیسے منہ دکھائیں گے....
اکثر کتابت کی غلطیاں لطیفہ بھی بن جاتی ہیں! ایک مشہور ماہنامے کے غلط نامے میں ایک جگہ یہ تحریر نظر ائی " صفحہ فلاں کی سطر میں بھینس کی بجائے جینیس (GENIUS ) پڑھا جائے....!
ملاحظہ فرمایا آپ نے جینیس کی جگہ بھینس لکھ گئے تھے قبلہ کاتب صاحب! ۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی جینیس صوری اعتبار سے بھینس سے بھی بدتر ہو لیکن اس کے افعال و اقوال پر " بھینسانہ پن" کا شبہ بھی نہیں کیا جا سکتا..... پھر بھلا بتائیے کاتب صاحب کو جینیس پر بھینس کا دھوکا کیونکر ہوا... ....
بس جناب یہ حضرت صرف ہاتھ سے لکھیں تب بھی مصیبت اور خدانخواستہ دماغ لڑا بیٹھیں تو پکاسو جیسے مصور کی بھی مٹی پلید کر دیں۔ لہٰذا اکثر سوچتا ہوں کہ کہیں کاتب کا دماغ اللہ میاں کا کوئی تجریدی کارنامہ تو نہیں....!
آپ بھی غور فرمائیے.... اور اس کتاب میں بھی کہیں کتابت کی کوئی غلطی نظر آئے تو اس کے علاوہ اور کچھ نہ سوچیے گا کہ ہمارے کاتب صاحب بھی نالائق دہ.... یعنی کہ وہی خیر ہٹائیے....
(عمران سیریز نمبر ۱۱۹، زہریلی تصویر، ۲۹ اکتوبر ۱۹۶۴ء)
کانٹا کسی یاد کا لگا ہے
کاتب صاحب شاید سمجھے تھے کہ میں کسی کے ساتھ ”کی“ لکھنا بھول گیا ہوں اور پروف ریڈر صاحب دو غزل سامنے آتے ہی پروف ریڈنگ کی بجائے ہیڈ بیٹنگ سر دھننا شروع کر دیتے ہیں لہٰذا ایسی فروگذاشتوں کا احتمال رہتا ہے۔
(ابن صفی میگزین،ستمبر ۱۹۷۷ء (غالباً)
”پروف ریڈر ایسا قاری ہے جو کتاب پوری پڑھتا ہے اور مفت پڑھتا ہے اور مزہ یہ کہ کتاب پڑھنے کی اجرت بھی لیتا ہے ۔“
ایک صاحب سید فریدی رضوی صاحب (واللہ اعلم یہی نام ہے یا ابن صفی کے کردار فریدی سے متاثر ہیں۔)نے ابن صفی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ
”بعض پروف ریڈر بغیر مشورہ کے تصحیح بھی کر دیتے ہیں، ابن صفی نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس لیے مصنف کو چاہیے کہ پروف ریڈر کے دستخط شدہ مسودہ کو ایک بار پھر پڑھ لے، پرنٹنگ سے پہلے۔“
ظاہر ہے اس کے بعد میں بھی نہ رہ سکا تو تلاش شروع کر دی۔ جو باتیں ملیں آپ کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔لیجئے تو پھر ابن صفی ہی کی زبانی پڑھیے کچھ باتیں۔
(۱)
” کتابت کے لطیفے ایسے ہی دلچسپ ہوتے ہیں.....! کبھی ”بیدل“ کو ”پیدل“ پڑھیے۔ کبھی نشتر الہ آبادی ”ن“ سے محروم گردن اٹھائے چلے آرہے ہیں۔ کبھی اسرار ناروی کا ”و“ غائب اور پروف ریڈر صاحب ہر حال میں کاتب صاحب سے زیادہ قابل ہوتے ہیں لہذا انہوں نے ”س“ پر تین عدد نقطے بھی ٹھونک مارے۔ چلیے بن گیا ”اشرار ناری“ یعنی غزل اور صاحب غزل دونوں بھسم ہوئے۔“(ناول عمران سیریز نمبر ۳۶ ،چیختی روحیں ۔٢٤ اپریل ١٩٥٩ء)
________________________________________
(۲)
ہاں تو اشتہار کی اس غلطی کی طرف بہتوں نے توجہ دلائی ہے کہ خبیث کا املا درست نہیں ہے- پروف ریڈر نے اسے ”خبیس“ ہی رہنے دیا ہے! غلط کتابت کی اصلاح نہیں فرمائی-(۲)
بھائی- آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ”خبیث“ میک اپ میں بھی ہو سکتا ہے- آخر ایک پراسرار کہانی کا اشتہار تھا- آپ نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ ”خبیث“ یہ چاہتا ہے کہ اس پر ”جینئیس“ کا دھوکا ہو- آپ یہ سمجھیں کہ ”خبیث“ کو بس سے لکھ دیا گیا ہے بلکہ یہ گمان گزرے کہ کہیں ”جینیئس“ کے نکتے اور شوشے بے ترتیب نہ ہو گئے ہوں- بعض خبیث یہی چاہتے کہ انہیں جینئیس سمجھا جائے-(خدا کرے آپ راقم الحروف کو جینئس نہ سمجھتے ہوں)
(عمران سیریز نمبر ۹۰، فرشتے کا دشمن، ۲۰ مارچ ۱۹۷۶ء)
_________________________________________
(۳)
اِدھر کچھ خطوط کے ذریعے شکایت موصول ہوئی ہے کہ میری کتابوں میں کتابت کی غلطیوں کی طرف دھیان نہیں دیا جاتا۔ عرض ہے کہ عطف و اضافت کی غلطیاں اکثر بغور دیکھنے کے باوجود بھی رہ جاتی ہیں ۔ ویسے پوری پوری کوشش کی جاتی ہے کہ ایسا نہ ہونے پائے.... پھر جناب کاتب حضرات تو ہاتھ سے لکھتے ہیں دماغ سے نہیں.... اور یہ بھی اچھا ہی ہے کہ دماغ نہیں استعمال کرتے.... اگر کبھی دماغ بھی استعمال کر جاتے ہیں تو پھر مصنف کے لئے ملک الموت ہی ثابت ہوتے ہیں!۔ مثال کے طور پر ایک واقعہ عرض ہے.... کسی اچھے لکھنے والے نے شہرہ آفاق مصور پکاسو پر ایک مضمون لکھا اور مضمون کی سرخی بھی "پکاسو" ہی رکھی.... کاتب صاحب لکھتے وقت چونکے سرخی کو آنکھیں پھاڑ کر گھورا.... پھر مسکرائے اور سر ہلا کر زیر لب بولے"اچھا "ر لکھنا بھول گئے!... "(۳)
لہٰذا انھوں نے ازراہِ چشم پوشی ایڈیٹر سے بھی کچھ نہ کہا اور سرخی جما دی "پکاسور".....
پھر پورے مضمون میں جہاں بھی "پکاسو" کا نام آیا "ر" کا اضافہ کرتے چلے گئے .....!
پروف ریڈر عموماً فرض کر لیتے ہیں کہ کاتب نے سب ٹھیک ہی لکھا ہو گا۔ بھلا نقل کے لئے عقل کی کیا ضرورت...... لہٰذا رسالے میں "پکاسور" پر ایک مبسوط مقالہ شائع ہو گیا!..... اور ایڈیٹر صاحب اپنی میز پر سر کے بل کھڑے یہ سوچتے رہ گئے کہ آئندہ پڑھے لکھے لوگوں کو کیسے منہ دکھائیں گے....
اکثر کتابت کی غلطیاں لطیفہ بھی بن جاتی ہیں! ایک مشہور ماہنامے کے غلط نامے میں ایک جگہ یہ تحریر نظر ائی " صفحہ فلاں کی سطر میں بھینس کی بجائے جینیس (GENIUS ) پڑھا جائے....!
ملاحظہ فرمایا آپ نے جینیس کی جگہ بھینس لکھ گئے تھے قبلہ کاتب صاحب! ۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی جینیس صوری اعتبار سے بھینس سے بھی بدتر ہو لیکن اس کے افعال و اقوال پر " بھینسانہ پن" کا شبہ بھی نہیں کیا جا سکتا..... پھر بھلا بتائیے کاتب صاحب کو جینیس پر بھینس کا دھوکا کیونکر ہوا... ....
بس جناب یہ حضرت صرف ہاتھ سے لکھیں تب بھی مصیبت اور خدانخواستہ دماغ لڑا بیٹھیں تو پکاسو جیسے مصور کی بھی مٹی پلید کر دیں۔ لہٰذا اکثر سوچتا ہوں کہ کہیں کاتب کا دماغ اللہ میاں کا کوئی تجریدی کارنامہ تو نہیں....!
آپ بھی غور فرمائیے.... اور اس کتاب میں بھی کہیں کتابت کی کوئی غلطی نظر آئے تو اس کے علاوہ اور کچھ نہ سوچیے گا کہ ہمارے کاتب صاحب بھی نالائق دہ.... یعنی کہ وہی خیر ہٹائیے....
(عمران سیریز نمبر ۱۱۹، زہریلی تصویر، ۲۹ اکتوبر ۱۹۶۴ء)
_________________________________________
(۴)
میری پچھلی غزل میں کاتب بھی عنایت سے اور پروف ریڈ صاحب کی بےخودی کی بنا پر پانچویں شعر کا دوسرا مصرعہ واقعی بے وزن ہو گیا تھا لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی حتیٰ کہ وہ میانوالی والے بینا پتہ کہ وہ میانوالی والے بینا چونکہ نے میری ایک پوری غزل بے وزن نظر آئی تھی بہرحال اس مصرعے کو یوں پڑھئے(۴)
کانٹا کسی یاد کا لگا ہے
کاتب صاحب شاید سمجھے تھے کہ میں کسی کے ساتھ ”کی“ لکھنا بھول گیا ہوں اور پروف ریڈر صاحب دو غزل سامنے آتے ہی پروف ریڈنگ کی بجائے ہیڈ بیٹنگ سر دھننا شروع کر دیتے ہیں لہٰذا ایسی فروگذاشتوں کا احتمال رہتا ہے۔
(ابن صفی میگزین،ستمبر ۱۹۷۷ء (غالباً)
_________________________________________