ایم اسلم اوڈ
محفلین
قلم کمان …حامد میر
یہ بوکھلاہٹ قطعاً نہیں ہے ۔ پرویز مشرف نے بہت سوچ سمجھ کر ایک جرمن جریدے ”سپیگل Spiegel" “کے سامنے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے خلاف عسکریت پسند گروپ بنا رکھے ہیں تاکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔ پرویز مشرف کے اس دعوے پر بھارتی حکومت اور میڈیا خوشی سے جھوم اٹھے ہیں کیونکہ بھارت ایک عرصے سے پاکستان پر ”کراس بارڈر ٹیررازم“ کا الزام لگا رہا تھا لیکن پاکستان نے کبھی اس الزام کو قبول نہیں کیا تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاتا تھا کہ جموں و کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے اور کشمیری سیز فائر لائن کو نہیں مانتے ۔ دراصل پرویز مشرف نے کشمیریوں کی پیٹھ میں تیسری مرتبہ خنجر گھونپا ہے۔ ماضی میں اگر کبھی مشرف سے کہا جاتا تھا کہ پاکستان کی طرف سے جموں و کشمیر میں عسکریت پسند کیوں بھیجے جاتے ہیں تو موصوف نے ہمیشہ اس الزام کی تردید کی تھی لیکن اب لندن میں بیٹھ کر انہوں نے یہ اعتراف جرم اس انداز میں کیا ہے کہ تاثر ملے وہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کے مخالف نہیں لیکن ان کا اصل مقصد مغرب کی نظروں میں ایک ”معتبر“ لیڈر بننا ہے جو ہمیشہ سچ بولتا ہے۔
ذرا سوچئے! اگر اس قسم کا انٹرویو کسی سیاستدان نے دیا ہوتا تو اب تک خفیہ اداروں کے فنڈز سے چلنے والے تمام کے تمام ”تھنک ٹینکوں“ کی طرف سے اس سیاستدان پر خوفناک گولہ باری شروع ہوچکی ہوتی اور اسے غدار وطن قرار دے کر گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہوتا
لیکن مشرف کا معاملہ مختلف ہے۔
مشرف اپنی کتاب میں سینکڑوں افراد کو سی آئی اے کے ہاتھوں فروخت کرنے کا اعتراف کرلیں تو کوئی بات نہیں، سی آئی اے کے ایجنٹ وہ نہیں بلکہ سیاستدان اور صحافی ٹھہرائے جائیں گے۔
مشرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر پاکستان کے ایٹمی راز چرانے کا الزام لگا کر امریکا کو خوش کردیں تو بھی کوئی بات نہیں، ان کا مقام و مرتبہ پھر بھی بلند رہے گا کیونکہ وہ سابقہ آرمی چیف ہیں۔
مشرف دو مرتبہ آئین پاکستان توڑیں کوئی بات نہیں،
فوجی وردی پہن کر سیاست کریں کوئی بات نہیں،
اکبر بگٹی کو مروا دیں کوئی بات نہیں،
قوم سے یا کور کمانڈروں سے پوچھے بغیر امریکا کو فوجی اڈے دیدیں کوئی بات نہیں،
ججوں کو گرفتار کرا دیں، میڈیا پر پابندی لگا دیں کوئی بات نہیں
کیونکہ وہ امریکا کے منظور نظر ہیں لہٰذا انہیں گارڈ آف آنر دے کر عزت و احترام سے رخصت کیا جائے گا۔
اب سنایئے کیا حال ہے آپکا؟
ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ پرویز مشرف کے حامی بدستور ان کے دفاع میں مصروف ہیں اور کہتے ہیں کہ مشرف صاحب نے ایک تاریخی حقیقت بیان کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب مشرف آرمی چیف تھے تو اس وقت اس ”تاریخی حقیقت“ سے انکار کیوں کرتے تھے؟ انہوں نے اس ”تاریخی حقیقت“ سے پردہ اٹھانے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیوں کیا جب مقبوضہ کشمیر میں عسکری تحریک نہیں بلکہ ایک سیاسی تحریک اپنے عروج پر ہے؟ مقبوضہ کشمیر میں پچھلے چار ماہ سے عسکریت پسندوں کی طرف سے نہیں بلکہ عام کشمیری نوجوانوں کی طرف سے مظاہرے کئے جا رہے ہیں اور بھارتی میڈیا بھی یہ کہہ رہا تھا کہ پہلی دفعہ کشمیریوں کو کنٹرول کرنا مشکل نظر آتا ہے اور پاکستان کا اس تحریک میں کوئی کردار نظر نہیں آرہا۔ پرویز مشرف کے حالیہ انٹرویو نے بھارت کا کام آسان کردیا اور اب بھارتی میڈیا کشمیریوں کی تحریک آزادی کو بدنام کرنے کے لئے مشرف کے ”اعتراف جرم“ کو بطور ثبوت پیش کررہا ہے۔ پرویز مشرف نے کشمیریوں کی پیٹھ میں تیسری مرتبہ خنجر گھونپا ہے۔
پہلا خنجر کارگل آپریشن تھا۔ پرویز مشرف نے 1998ء میں آرمی چیف بننے کے بعد سویلین حکومت، ائر فورس اور نیوی کو اعتماد میں لئے بغیر کارگل میں فوج تو بھیج دی لیکن اپنے جوانوں کو راشن اور ایمونیشن بھجوانے کا انتظام نہ کیا۔ بھارتی فوج نے اپنے زیر کنٹرول علاقے میں پاکستانی فوج کی موجودگی پر پوری دنیا میں شور مچایا اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے جوانوں کے خلاف فضائی طاقت کا استعمال شروع کردیا۔ اس موقع پر پرویز مشرف نے پاکستانی فوج کو کشمیری مجاہدین قرار دے کر نہ صرف مجاہدین کو بدنام کیا بلکہ پوری دنیا میں کشمیر کی تحریک آزادی کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا۔
کارگل آپریشن کے تنازع پر مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا اور اقتدار پر قبضہ کرکے کشمیریوں کی پیٹھ میں دوسرا خنجر گھونپا۔ یہ خنجر گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد مشرف کی نئی کشمیر پالیسی تھی جس کے روح رواں مشرف کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر طارق عزیز تھے جنہوں نے بیک ڈور چینل سے لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد بنانے کے منصوبے پر کام شروع کیا۔ فوج کے ایک سینئر افسر جنرل احسان الحق نے مشرف کو طارق عزیز کی سرگرمیوں کے بارے میں خبر دار کیا تو مشرف اپنی فوج کے سینئر افسر سے ناراض ہو گئے۔ مشرف نے کشمیریوں کے قابل احترام بزرگ رہنما سید علی گیلانی کو ”پاگل بڈھا“ قرار دیا، میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک کو اسلام آباد بلا کر کہا کہ وہ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے ساتھ مل کر ایک ایسا فارمولا بنائیں جو کشمیریوں کی آزادی کا نہیں بلکہ ان کی قربانیوں کو ضائع کرنے کا منصوبہ تھا لیکن کشمیری قیادت نے مشرف سے آنکھیں بند کرکے ڈکٹیشن نہیں لی اور اپنی تحریک آزادی کو مشرف کی سازشوں سے بچائے رکھا۔
اور اب تیسرا خنجر پرویز مشرف کی طرف سے جرمن جریدے کو دیا جانے والا انٹرویو ہے جس کے بعد بھارت کشمیریوں کی حالیہ سیاسی تحریک کو ”کراس بارڈر ٹیررازم“ کا رنگ دینے کی کوشش میں مصروف ہے۔ یورپ میں بیٹھ کر کشمیریوں کی پیٹھ میں تیسرا خنجر گھونپنے والا سابق ڈکٹیٹر یورپ میں جلسے کررہا ہے کشمیریوں کو چاہئے کہ یہ جہاں جائے وہیں اس کے خلاف پر امن مظاہرے کریں۔
بشکریہ جنگ ادرتی صفحہ
یہ بوکھلاہٹ قطعاً نہیں ہے ۔ پرویز مشرف نے بہت سوچ سمجھ کر ایک جرمن جریدے ”سپیگل Spiegel" “کے سامنے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے خلاف عسکریت پسند گروپ بنا رکھے ہیں تاکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔ پرویز مشرف کے اس دعوے پر بھارتی حکومت اور میڈیا خوشی سے جھوم اٹھے ہیں کیونکہ بھارت ایک عرصے سے پاکستان پر ”کراس بارڈر ٹیررازم“ کا الزام لگا رہا تھا لیکن پاکستان نے کبھی اس الزام کو قبول نہیں کیا تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاتا تھا کہ جموں و کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے اور کشمیری سیز فائر لائن کو نہیں مانتے ۔ دراصل پرویز مشرف نے کشمیریوں کی پیٹھ میں تیسری مرتبہ خنجر گھونپا ہے۔ ماضی میں اگر کبھی مشرف سے کہا جاتا تھا کہ پاکستان کی طرف سے جموں و کشمیر میں عسکریت پسند کیوں بھیجے جاتے ہیں تو موصوف نے ہمیشہ اس الزام کی تردید کی تھی لیکن اب لندن میں بیٹھ کر انہوں نے یہ اعتراف جرم اس انداز میں کیا ہے کہ تاثر ملے وہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کے مخالف نہیں لیکن ان کا اصل مقصد مغرب کی نظروں میں ایک ”معتبر“ لیڈر بننا ہے جو ہمیشہ سچ بولتا ہے۔
ذرا سوچئے! اگر اس قسم کا انٹرویو کسی سیاستدان نے دیا ہوتا تو اب تک خفیہ اداروں کے فنڈز سے چلنے والے تمام کے تمام ”تھنک ٹینکوں“ کی طرف سے اس سیاستدان پر خوفناک گولہ باری شروع ہوچکی ہوتی اور اسے غدار وطن قرار دے کر گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہوتا
لیکن مشرف کا معاملہ مختلف ہے۔
مشرف اپنی کتاب میں سینکڑوں افراد کو سی آئی اے کے ہاتھوں فروخت کرنے کا اعتراف کرلیں تو کوئی بات نہیں، سی آئی اے کے ایجنٹ وہ نہیں بلکہ سیاستدان اور صحافی ٹھہرائے جائیں گے۔
مشرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر پاکستان کے ایٹمی راز چرانے کا الزام لگا کر امریکا کو خوش کردیں تو بھی کوئی بات نہیں، ان کا مقام و مرتبہ پھر بھی بلند رہے گا کیونکہ وہ سابقہ آرمی چیف ہیں۔
مشرف دو مرتبہ آئین پاکستان توڑیں کوئی بات نہیں،
فوجی وردی پہن کر سیاست کریں کوئی بات نہیں،
اکبر بگٹی کو مروا دیں کوئی بات نہیں،
قوم سے یا کور کمانڈروں سے پوچھے بغیر امریکا کو فوجی اڈے دیدیں کوئی بات نہیں،
ججوں کو گرفتار کرا دیں، میڈیا پر پابندی لگا دیں کوئی بات نہیں
کیونکہ وہ امریکا کے منظور نظر ہیں لہٰذا انہیں گارڈ آف آنر دے کر عزت و احترام سے رخصت کیا جائے گا۔
اب سنایئے کیا حال ہے آپکا؟
ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ پرویز مشرف کے حامی بدستور ان کے دفاع میں مصروف ہیں اور کہتے ہیں کہ مشرف صاحب نے ایک تاریخی حقیقت بیان کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب مشرف آرمی چیف تھے تو اس وقت اس ”تاریخی حقیقت“ سے انکار کیوں کرتے تھے؟ انہوں نے اس ”تاریخی حقیقت“ سے پردہ اٹھانے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیوں کیا جب مقبوضہ کشمیر میں عسکری تحریک نہیں بلکہ ایک سیاسی تحریک اپنے عروج پر ہے؟ مقبوضہ کشمیر میں پچھلے چار ماہ سے عسکریت پسندوں کی طرف سے نہیں بلکہ عام کشمیری نوجوانوں کی طرف سے مظاہرے کئے جا رہے ہیں اور بھارتی میڈیا بھی یہ کہہ رہا تھا کہ پہلی دفعہ کشمیریوں کو کنٹرول کرنا مشکل نظر آتا ہے اور پاکستان کا اس تحریک میں کوئی کردار نظر نہیں آرہا۔ پرویز مشرف کے حالیہ انٹرویو نے بھارت کا کام آسان کردیا اور اب بھارتی میڈیا کشمیریوں کی تحریک آزادی کو بدنام کرنے کے لئے مشرف کے ”اعتراف جرم“ کو بطور ثبوت پیش کررہا ہے۔ پرویز مشرف نے کشمیریوں کی پیٹھ میں تیسری مرتبہ خنجر گھونپا ہے۔
پہلا خنجر کارگل آپریشن تھا۔ پرویز مشرف نے 1998ء میں آرمی چیف بننے کے بعد سویلین حکومت، ائر فورس اور نیوی کو اعتماد میں لئے بغیر کارگل میں فوج تو بھیج دی لیکن اپنے جوانوں کو راشن اور ایمونیشن بھجوانے کا انتظام نہ کیا۔ بھارتی فوج نے اپنے زیر کنٹرول علاقے میں پاکستانی فوج کی موجودگی پر پوری دنیا میں شور مچایا اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے جوانوں کے خلاف فضائی طاقت کا استعمال شروع کردیا۔ اس موقع پر پرویز مشرف نے پاکستانی فوج کو کشمیری مجاہدین قرار دے کر نہ صرف مجاہدین کو بدنام کیا بلکہ پوری دنیا میں کشمیر کی تحریک آزادی کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا۔
کارگل آپریشن کے تنازع پر مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا اور اقتدار پر قبضہ کرکے کشمیریوں کی پیٹھ میں دوسرا خنجر گھونپا۔ یہ خنجر گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد مشرف کی نئی کشمیر پالیسی تھی جس کے روح رواں مشرف کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر طارق عزیز تھے جنہوں نے بیک ڈور چینل سے لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد بنانے کے منصوبے پر کام شروع کیا۔ فوج کے ایک سینئر افسر جنرل احسان الحق نے مشرف کو طارق عزیز کی سرگرمیوں کے بارے میں خبر دار کیا تو مشرف اپنی فوج کے سینئر افسر سے ناراض ہو گئے۔ مشرف نے کشمیریوں کے قابل احترام بزرگ رہنما سید علی گیلانی کو ”پاگل بڈھا“ قرار دیا، میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک کو اسلام آباد بلا کر کہا کہ وہ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے ساتھ مل کر ایک ایسا فارمولا بنائیں جو کشمیریوں کی آزادی کا نہیں بلکہ ان کی قربانیوں کو ضائع کرنے کا منصوبہ تھا لیکن کشمیری قیادت نے مشرف سے آنکھیں بند کرکے ڈکٹیشن نہیں لی اور اپنی تحریک آزادی کو مشرف کی سازشوں سے بچائے رکھا۔
اور اب تیسرا خنجر پرویز مشرف کی طرف سے جرمن جریدے کو دیا جانے والا انٹرویو ہے جس کے بعد بھارت کشمیریوں کی حالیہ سیاسی تحریک کو ”کراس بارڈر ٹیررازم“ کا رنگ دینے کی کوشش میں مصروف ہے۔ یورپ میں بیٹھ کر کشمیریوں کی پیٹھ میں تیسرا خنجر گھونپنے والا سابق ڈکٹیٹر یورپ میں جلسے کررہا ہے کشمیریوں کو چاہئے کہ یہ جہاں جائے وہیں اس کے خلاف پر امن مظاہرے کریں۔
بشکریہ جنگ ادرتی صفحہ