لال مسجد میں ان گنت بچے اور بچیوں کا بیہمانہ اور انتہائی سفاک قتل اکا دکا واقعات میں سے ہوگا۔ مہوش کچھ اللہ کا خوف کریں جان کل اللہ کو دینی ہے مشرف کو نہیں۔
جتنے لوگ جتنی بیدردی اور وحشیانہ تشدد سے ہلاک کیے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی پاکستان کی تاریخ میں اور اس سفاک قتل نے قاتل لیگ کو بری طرح سے ہرایا ہے۔
جاوید ہاشمی نے مسلسل یہی بات کی تھی
لال حویلی یا لال مسجد
اور اہل پنڈی اسلام آباد اور پنجاب نے اپنا فیصلہ سب کو سنا بھی دیا اور دکھا بھی دیا۔
مشرف جیسا شخص اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا کرے گا جس کے منہ کو انسانوں کا خون اور اقتدار کی ہوس لگ گئی ہو وہ کب مانے گا کہ وہ غلط ہے۔
پوری عدلیہ اپنے اقتدار کے لیے لپیٹ کر افتخار چوہدری کو برا بھلا کہنے کے لیے پورے یورپ کا دورہ کیا اور ذلیل و رسوا ہو کر اب بھی بضد ہے کہ میں اقتدار عزت سے نہیں چھوڑوں گا ذلت سے تو چھوٹ ہی جائے گا۔
چاروں صوبوں میں خون کی ہولی کھیل کر بھی اس کی ہوس اقتدار ٹھنڈی نہیں پڑی اور جو اب بھی اسے جائز سمجھتے ہیں ان سے اور کیا کہا جائے۔
دیکھئیے محب، آپ مجھے قصوروار ٹہرا رہے ہیں اپنے اُس موقف کا جو میں تسلیم ہی نہیں کرتی۔
لوگوں کی بات آپ کریں اور نہ میں کروں۔ کیونکہ اگر مشرف صاحب واقعی Mass Murder کے مرتکب ہوتے تو پاکستانی عدالت میں ان پر مقدمہ قائم ہو سکتا۔ اور اسکے بعد عالمی عدالت میں ان پر مقدمہ قائم ہو سکتا۔ لیکن اگر کوئی تین ماہ کی وارننگ کے بعد بھی قانون کے سامنے بندوق لے کر کھڑا ہے اور قانون کی دھجیاں اڑا رہا ہے اور خود کش حملوں کی دھمکیاں اور ترغیب دے رہا ہے تو پھر ان لوگوں کے قتل کے کسی حد تک ذمہ دار میرے نزدیک آپ جیسے لوگ ہیں جو ابھی تک قانون کے مقابلے میں انکی حمایت کر رہے ہیں۔
اور جو اصطلاح استعمال کی گئی "حکومت کی رٹ" تو یہ ایک غلط اصطلاح تھی بلکہ اس کو اس معاملے میں ہونا چاہیے "قانون کی رٹ" کیونکہ جامعہ حفصہ والے جو اسلحہ جمع کر رہے تھے، اور باقی جو کام کر رہے تھے، وہ پہلے درجے میں "قانون کے خلاف" کہلائیں گے۔ لیکن جب ان حضرات سے قانون کی بات کرتے ہیں تو انکا جواب ہوتا ہے کہ "پاکستان میں پہلے کون سا قانون نافذ ہے" ۔ تو میں اس جواب سے مطمئین نہیں۔
ہم پہلے بھی جامعہ حفصہ کے معاملے میں گفتگو کر چکے ہیں۔ کیا اسکا کوئی نتیجہ نکلا تھا جو اب دوبارہ ہم اس موضوع کو چھیڑیں؟
////////////////
آپ اسکو اس زاویے سے بھی دیکھیں کہ مشرف صاحب گواہی دیتے ہیں کہ اُنکی نیت کبھی ان لوگوں کو مارنے کی نہیں رہی۔ بلکہ انہیں کئی ہفتوں تک وارننگ دی جاتی رہی کہ باز آ جاو باز آ جاو۔ مگر بقیہ قوم نے یک آواز ہو کر انکے اس کام کی مذمت نہ کی بلکہ حکومت مخالف بہت سے دھڑے انکی حمایت کرتے رہے اور انہیں ہیرو بنا کر پیش کرتے رہے، اور اسی بنیاد پر یہ پھیلتے چلے گئے، حتی کہ وقت آیا جب انکی اس حماقت کی وجہ سے کچھ جانیں تک ضائع ہو گئیں۔ اس وقت تک پھر انکے پاس موقع تھا کہ ہتھیار رکھ دیں۔
تو اصول بالکل واضح ہے، اگر ہزاروں لوگوں کی حماقت کی وجہ سے ایک معصوم کی بھی جان جاتی ہے تو لازمی ہے کہ ان ہزار لوگوں کو ہر قیمت پر روکو۔ انہی لوگوں کی حماقت کی وجہ سے سب سے پہلی جان اُس کرنل کی گئی جو انہی کے حمایتیوں کی جان بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔
تو یہ تو ہونا ہی تھا۔ اور اگر انہیں انکی اسی حماقت پر قائم رہنے دیا جاتا تو پتا نہیں اور کتنی معصوم جانیں جاتیں۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ ظاہری گواہی کو اپنے گمانوں کے بنا پر رد نہیں کیا جا سکتا اور جب مشرف صاحب کہتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کو مارنا نہیں چاہتے تھے تو آپکے گمانوں کے بجائے میں مشرف صاحب کی گواہی کو قبول کروں گی۔