پروین شاکر کی ایک غزل سے متعلق ایک عروضی سوال

شوکت پرویز

محفلین
پروین شاکر سے منسوب یہ غزل انٹرنیٹ (ریختہ وغیرہ) پر موجود ہے۔
میر کی ہندی بحر والی پروین شاکر کی اس غزل کے کئی مصارعِ اول میں ایک دو حرفی رکن زائد ہے۔

اساتذہ و احباب رہنمائی فرمائیں کہ کیا واقعی یہ پروین شاکر کی غزل ہے؟

پورا دکھ اور آدھا چاند
ہجر کی شب اور ایسا چاند

دن میں وحشت بہل گئی
رات ہوئی اور نکلا چاند

کس مقتل سے گزرا ہوگا
اتنا سہما سہما چاند

یادوں کی آباد گلی میں
گھوم رہا ہے تنہا چاند

میری کروٹ پر جاگ اٹھے
نیند کا کتنا کچا چاند

میرے منہ کو کس حیرت سے
دیکھ رہا ہے بھولا چاند

اتنے گھنے بادل کے پیچھے
کتنا تنہا ہوگا چاند

آنسو روکے نور نہائے
دل دریا تن صحرا چاند

اتنے روشن چہرے پر بھی
سورج کا ہے سایا چاند

جب پانی میں چہرہ دیکھا
تو نے کس کو سوچا چاند

برگد کی اک شاخ ہٹا کر
جانے کس کو جھانکا چاند

بادل کے ریشم جھولے میں
بھور سمے تک سویا چاند

رات کے شانے پر سر رکھے
دیکھ رہا ہے سپنا چاند

سوکھے پتوں کے جھرمٹ پر
شبنم تھی یا ننھا چاند

ہاتھ ہلا کر رخصت ہو گا
اس کی صورت ہجر کا چاند

صحرا صحرا بھٹک رہا ہے
اپنے عشق میں سچا چاند

رات کے شاید ایک بجے ہیں
سوتا ہوگا میرا چاند
 

شوکت پرویز

محفلین
یا پھرشاید چاند کو فعلن باندھ دیا گیا ہو :)
پروین شاکر صاحبہ سے اس کا صدور بعید از قیاس ہے۔
اور پھر اگر آنسو والے شعر میں ء کی رعایت کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے بھی خارج از بحر مان لیں تو بھی دوسرے شعر کی کیا توضیح ہوگی؟؟

آنسو والا شعر:
آنسو روکے نور نہائے
دل دریا تن صحرا چاند

دوسرا شعر جس کا وزن درست ہے۔
دن میں وحشت بہل گئی
رات ہوئی اور نکلا چاند
 

فرقان احمد

محفلین
پروین شاکر صاحبہ سے اس کا صدور بعید از قیاس ہے۔
اور پھر اگر آنسو والے شعر میں ء کی رعایت کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے بھی خارج از بحر مان لیں تو بھی دوسرے شعر کی کیا توضیح ہوگی؟؟

آنسو والا شعر:
آنسو روکے نور نہائے
دل دریا تن صحرا چاند

دوسرا شعر جس کا وزن درست ہے۔
دن میں وحشت بہل گئی
رات ہوئی اور نکلا چاند

محفل کے معزز رکن مزمل شیخ بسمل کے اس مضمون کا مطالعہ کریں۔ شکریہ!
 

فاتح

لائبریرین
مصرع کے آخر میں الف، ی، وغیرہ کا اسقاط ہو رہا ہے اور تسبیغ کے ساتھ فعو کو فعول اور فع کو فعل کیا جا رہا ہے۔ اور عروض میں اس کی اجازت ہے۔
مثلاً
کس مقتل سے گزرا ہوگا
فعلن ۔ فعلن ۔ فعلن ۔ فعل
کس مق ۔ تل سے ۔ گزرا ۔ ہو گ

اتنا سہما سہما چاند
فعلن ۔ فعلن ۔ فعلن ۔ فعل
اتنا ۔ سہما ۔ سہما ۔ چاد

یادوں کی آباد گلی میں
فعلن ۔ فعلن ۔ فعل ۔ فعول
یادوں ۔ کی آ ۔ باد ۔ گلی مِ

گھوم رہا ہے تنہا چاند
فعل ۔ فعولن ۔ فعلن ۔ فعل
گھوم ۔ رہا ہے ۔ تنہا ۔ چاد

ذیل کے مصرعوں کے آخر میں کر کی جگہ کے اور پر کی جگہ پہ ہو گا۔
برگد کی اک شاخ ہٹا کے
سوکھے پتوں کے جھرمٹ پہ

فعلن ۔ فعلن ۔ فعل ۔ فعول
برگد ۔ کی اک ۔ شاخ ۔ ہٹا ک

فعلن ۔ فعلن ۔ فعلن ۔ فعل
سوکھے ۔ پتوں ۔ کے جھر ۔ مٹ پ

اس کے مطابق باقی مصرعوں کی بھی تقطیع کر کے دیکھ لیجیے۔
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
مصرع کے آخر میں الف، ی، وغیرہ کا اسقاط ہو رہا ہے اور تسبیغ کے ساتھ فعو کو فعول اور فع کو فعل کیا جا رہا ہے۔ اور عروض میں اس کی اجازت ہے۔
مثلاً
کس مقتل سے گزرا ہوگا
فعلن ۔ فعلن ۔ فعلن ۔ فعل
کس مق ۔ تل سے ۔ گزرا ۔ ہو گ

اتنا سہما سہما چاند
فعلن ۔ فعلن ۔ فعلن ۔ فعل
اتنا ۔ سہما ۔ سہما ۔ چاد

یادوں کی آباد گلی میں
فعلن ۔ فعلن ۔ فعل ۔ فعول
یادوں ۔ کی آ ۔ باد ۔ گلی مِ

گھوم رہا ہے تنہا چاند
فعل ۔ فعولن ۔ فعلن ۔ فعل
گھوم ۔ رہا ہے ۔ تنہا ۔ چاد

ذیل کے مصرعوں کے آخر میں کر کی جگہ کے اور پر کی جگہ پہ ہو گا۔
برگد کی اک شاخ ہٹا کے
سوکھے پتوں کے جھرمٹ پہ

فعلن ۔ فعلن ۔ فعل ۔ فعول
برگد ۔ کی اک ۔ شاخ ۔ ہٹا ک

فعلن ۔ فعلن ۔ فعلن ۔ فعل
سوکھے ۔ پتوں ۔ کے جھر ۔ مٹ پ

اس کے مطابق باقی مصرعوں کی بھی تقطیع کر کے دیکھ لیجیے۔

برگد کی اک شاخ ہٹا کر

سوکھے پتوں کے جھرمٹ پر

ان دو مصرعوں کو کیسے تقطیع کریں گے؟

کیا ایسا نہیں کہ آخری ہجہ یک حرفی ہونا چاہئے اور حرف گرا کر اس اصول کو لاگو نہیں کیا جا سکتا؟ اس میں ئے کی استثنا ہے. ایک دو جگہ ایسا پڑھا ہے.
 

فاتح

لائبریرین
برگد کی اک شاخ ہٹا کر

سوکھے پتوں کے جھرمٹ پر

ان دو مصرعوں کو کیسے تقطیع کریں گے؟

کیا ایسا نہیں کہ آخری ہجہ یک حرفی ہونا چاہئے اور حرف گرا کر اس اصول کو لاگو نہیں کیا جا سکتا؟ اس میں ئے کی استثنا ہے. ایک دو جگہ ایسا پڑھا ہے.
آپ نے شاید میرے مراسلے کا آخری حصہ نہیں پڑھا۔۔۔ کہ میرے خیال میں "پر" کی جگہ "پہ" اور "کر" کی جگہ "کے" ہو گا۔
ذیل کے مصرعوں کے آخر میں کر کی جگہ کے اور پر کی جگہ پہ ہو گا۔
برگد کی اک شاخ ہٹا کے
سوکھے پتوں کے جھرمٹ پہ

فعلن ۔ فعلن ۔ فعل ۔ فعول
برگد ۔ کی اک ۔ شاخ ۔ ہٹا ک

فعلن ۔ فعلن ۔ فعلن ۔ فعل
سوکھے ۔ پتوں ۔ کے جھر ۔ مٹ پ

اس کے مطابق باقی مصرعوں کی بھی تقطیع کر کے دیکھ لیجیے۔
 

فاتح

لائبریرین
اور پھر اگر آنسو والے شعر میں ء کی رعایت کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے بھی خارج از بحر مان لیں تو بھی دوسرے شعر کی کیا توضیح ہوگی؟؟

آنسو والا شعر:
آنسو روکے نور نہائے
دل دریا تن صحرا چاند

دوسرا شعر جس کا وزن درست ہے۔
دن میں وحشت بہل گئی
رات ہوئی اور نکلا چاند
فعلن ۔ فعلن ۔ فعل ۔ فعول
آنسو ۔ روکے ۔ نور ۔ نہاء

فعلن ۔ فعلن ۔ فعلن ۔ فعل
دل در ۔ یا تن ۔ صحرا ۔ چاد

فعلن ۔ فعلن ۔ فعل ۔ فعو
دن میں ۔ وحشت ۔ بہل ۔ گئی

فعل ۔ فعولن ۔ فعلن ۔ فعل
رات ۔ ہُئی ار ۔ نکلا ۔ چاد
 

سید ذیشان

محفلین
یہاں میں آپ کی بات سمجھ نہیں پایا۔

یہ پریچٹ کی کتاب سے لیا گیا اقتباس:

At the end of a line of poetry in any of these meters, an extra word-final short syllable may be present if the poet so chooses. This word-final short syllable is not scanned. Such a syllable almost always consists of a true one-letter short syllable, or of a syllable of the form { ʾ [hamzah] + vowel}. This short "cheat syllable" is permitted in all the meters except #26.

ربط

یعنی پریچٹ کے مطابق ہر بحر کے آخر میں ایک ہجۂ کوتاہ کا اضافہ کیا جا سکتا ہے،سوائےبحرِ ہزج مثمن سالم کے۔ اور یہ ہجۂ کوتاہ ہمیشہ یک حرفی ہوتا ہے، مثلاً او-ر، فرا-ز ، وغیرہ۔ یا پھر دو حرفی میں اس کی شکل یوں ہوتی ہے: ء+ (ا،ی،ے)۔ مثلاً جا-ئے، آ-ئے، وغیرہ ۔

تو اس کے مطابق سرخ کئے گئے مصرعوں کا وزن فعلن فعلن فعلن فعلن ہی تصور ہوگا۔
 

سید ذیشان

محفلین
سرور عالم راز صاحب کی تحریر بھی مل گئی:

یاران انجمن: تسلیمات
یہ سلسلہ اتنا دلچسپ ہو گیا ہے کہ بے اختیار اس میں حصہ لینے کو جی کرتا ہے۔ علم عروض ریاضی کی طرح نہیں ہے کہ ہر قانون اٹل ہو۔ عروض ایک فن (آرٹ) ہے اور اس میں فطری لچک اور نرمی ہے۔ ایک مسئلہ پر دو رائے ہو سکتی ہیں اور ہوتی بھی ہیں۔ دور کیا جائیں، یہیں دیکھ لیں کہ خاک زنبیلی صاحب اور یاسر صاحب میں اختلاف رائے نظر آتا ہے۔ یاسر صاحب نے علامہ اقبال کا شعر بطور سند لکھا ہے اور یہ ایسی سند ہے کہ اس کا اعتبار لازم ہے۔ چنانچہ میں نے سوچا کہ میں بھی اللہ کا نام لے کر انگلی کٹوائوں اور اپنا نام شہیدوں میں لکھوا لوں! کسی نے شاید میرے ہی لئے کہا ہے کہ "بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟"۔
ﭼﻨﺪ ﺻﯿﺎﺩ ﺍﮔﺮ ﺍﺏ ﮐﮯ ﭨﮭﮑﺎﻧﮯ ﻟﮓ ﺟﺎﺋﯿﮟ
ﮨﻢ ﭘﺮﻧﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﮔﺎﻧﮯ ﻟﮓ ﺟﺎﺋﯿﮟ
تقطیع ہمیشہ ملفوظی ہوتی ہے یعنی کوئی لفظ جس طرح زبان سے ادا ہوتا ہے اسی طرح تقطیع میں محسوب بھی ہوتا ہے۔ شعر میں "جائے" کو "جا۔۔ئے" بر وزن "دامے" ادا نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ "جاء" ہمزہ پر ہلکے سے زیر کے ساتھ ادا کیا جا رہا ہے۔ گویا "جائے" کا ے گرا دیا گیا ہے اور ء کو مکسور کردیا گیا ہے۔ اس طرح مصرع کا آخری حرف ء متحرک ہو جاتا ہے۔ اردو میں مصرع کا آخری حرف متحرک نہیں ہو سکتا ہے اس لئے اس کو ساکن کر کے "جاء" کرنا ہوگا۔ اب تقطیع یوں ہو گی :
چن د صی یا (فاعلاتن)۔ د ا گر اب (فعلاتن)۔ ک ٹ کا نے(فعلاتن)۔ لگ جاء (فعلن)
ہم پ رن دو (فاعلاتن)۔ ک ط رح با (فعلاتن)۔ غ م گا نے (فعلاتن)۔ لگ جاء (فعلن)
ڈاکٹر جمال الدین جمال نے اس موضوع پر اپنی کتاب تفہیم العروض میں بحر رمل کے تحت صفحہ ۴۸۲ پر گفتگو کی ہے۔ بطور وضاحت و سند یہ کتاب دیکھی جا سکتی ہے۔
یہاں ایک بات ذہن میں آئی جو قابل ذکر ہے۔ علم عروض سے ایک لمحے کے لئے قطع نظر کیجئے تو یہ بات ظاہر ہے کہ افاعیل کا ہر نمونہ یا مجموعہ دراصل ایک بحر ہے خواہ معروف ہو یا غیر مستعمل۔ علمائے عروض نے زحافات کے حوالے سے افاعیل کے اجتماع پر پابندیاں لگائی ہیں اور اس طرح بحریں مشخص ہوگئی ہیں۔ البتہ اس حقیقت سے تو مفر نہیں کہ افاعیل کا ہر مجموعہ ایک بحر کو شکل دیتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس مجموعہ کا کوئی رکن کسی عروض کی روشنی میں اس وزن کا حصہ نہ ہو۔ مثال کے طور پر درج ذیل وزن دیکھئے :
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن مفعول
یہ بحر رمل ہے جس کا بنیادی رکن فاعلاتن ہے۔ مفعول، فاعلاتن کا زحاف نہیں ہے اور اسی لئے بحر رمل کی روایتی شکل میں استعمال نہیں ہو سکتا۔ لیکن درج بالا وزن (فاعلاتن فعلاتن فعلاتن مفعول) افاعیل سےمرکب ہے اور رواں بھی ہے۔ چنانچہ یہ ایک وزن تو ہے جس پر غزل کہی جا سکتی ہے۔ کیا ضروری ہے کہ اس کو کوئی نام بھی دیا جائے اور اس کو علم عروض کے روایتی ڈھانچے میں باندھا جائے۔ اگر عروض میں یہ لچک یا اجازت تسلیم کر لی جائے تو بحریں اپنے روایتی ناموں سے تو غائب ہوجائیں گی لیکن شعر گوئی میں وسعت اور آسانی پیداہو جائے گی۔ آج کل میں اس نہج پر سوچ رہا ہوں۔ کام بن گیا تو ایک مقالہ لکھ کر شائع کرنے کی کوشش کروں گا۔ دیکھئے کیا بنتا ہے۔
باقی اب رہ گیا راوی تو وہ چین ہی چین بولتا ہے۔

سرور عالم راز"سرور"
 

فاتح

لائبریرین
ہر بحر کے آخر میں ایک ہجۂ کوتاہ کا اضافہ کیا جا سکتا ہے
اسی عمل کو "تسبیغ" کہا جاتا ہے جس کا ذکر میں نے اوپر کے اپنے مراسلے میں کیا۔
اور یہ ہجۂ کوتاہ ہمیشہ یک حرفی ہوتا ہے، مثلاً او-ر، فرا-ز ، وغیرہ۔ یا پھر دو حرفی میں اس کی شکل یوں ہوتی ہے: ء+ (ا،ی،ے)۔ مثلاً جا-ئے، آ-ئے، وغیرہ ۔
ایک حرفی ہی لیا ہے۔ الف، و، ی اور ے کا اسقاط ہو گیا تو باقی ایک حرف ہی بچتا ہے۔

جسے ہندی بحر کہا جا رہا ہے اس میں کہیں بھی "فعلن فعلن" یا "فعل فعولن" لا یا جا سکتا ہے۔ یا آخر میں "فعلن فع" یا "فعل فعو" لایا جا سکتا ہے جس پر تسبیغ لاگو ہو تو "فع" بدل جائے گا "فعل" سے اور "فعو" بدل جائے گا "فعول" سے۔
جیسا کہ سرور عالم راز صاحب نے فرمایا:
تقطیع ہمیشہ ملفوظی ہوتی ہے یعنی کوئی لفظ جس طرح زبان سے ادا ہوتا ہے اسی طرح تقطیع میں محسوب بھی ہوتا ہے۔
اور جیسے اس مثال میں راز صاحب نے لکھا کہ
شعر میں "جائے" کو "جا۔۔ئے" بر وزن "دامے" ادا نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ "جاء" ہمزہ پر ہلکے سے زیر کے ساتھ ادا کیا جا رہا ہے۔ گویا "جائے" کا ے گرا دیا گیا ہے اور ء کو مکسور کردیا گیا ہے۔
اسی طرح پروین شاکر نے گا کو گَ، میں کو مِ، اٹھّے کو اٹھِّ، سے کو سِ، پیچھے کو پیچھِ، بھی کو بھِ، دیکھا کو دیکھَ، کے کو کِ"رکھّے کو رکھِّ، پہ کو پِ، ہے کو ہَ، وغیرہ کیا ہے۔
یوں میری رائے میں تو پروین شاکر کی غزل بالکل درست وزن میں ہے۔
 
Top