اصل سوال تو پروین شاکر کی غزل اور اس حوالے سے میر کی ہندی بحر کے بارے میں تھا اور تابش بھائی نے ٹیگ کیا کہ میں اس سوال پر رائے زنی کروں ۔ لیکن درمیان میں ایک اور نئی بحث اسقاطِ حروف کے بارے میں شروع ہوگئی ہے اور مسئلہ مذکور الجھ ساگیا ہے ۔ بہتر ہوگا کہ پہلے اسقاطِ حرف کے مسئلے کو سلجھالیا جائے ۔ اس کے بعد غزل کی بحر پر بات کرنا آسان ہوگا ۔ چونکہ اسقاطِ حروف کا مسئلہ بزم میں اکثر اٹھتا رہتا ہے اس لئے میں اپنی سی کوشش کرتا ہوں کہ اس پر مفصل کچھ لکھ دوں ۔
(۱) عروضی اصول کے مطابق صرف دو ہی قسم کے حروف تقطیع کرتے وقت ساقط کئے جاسکتے ہیں ۔ اول وہ حروف جو مکتوبی تو ہیں لیکن ملفوظی نہیں یعنی لکھے تو جاتے ہیں لیکن پڑھے نہیں جاتے ۔ جیسے بالکل کا الف ، عظیم ا لشان کا الف لام ، خوش کا واؤ ، نون غنہ ، وغیرہ وغیرہ وغیرہ ۔ ( یاد رہے کہ مرکب حروف بھ، پھ ، تھ کو ایک ہی حرف شمار کیا جاتا ہے ) ۔ دوئم وہ حروفِ علت (الف، واؤ ، ی، ے) کہ جو الفاظ کے آخر میں آتے ہیں اور مصرع کو روانی سے پڑھتے وقت دب جاتے ہیں اور بالترتیب زبر، پیش اور زیر کی آواز دیتے ہیں ۔ ان کا اسقاط عموماً صرف ہندی الفاظ میں ہوتا ہے ۔ عربی اور فارسی الفاظ کے آخر سے حرفِ علت نہیں گرایا جاتا ۔ مثلاً چلتاچلتا کو بروزن فاعلاتن تقطیع کیا جاسکتا ہے کیونکہ اسےچل تچلتا پڑھا جاسکتا ہے (ت پر ہلکی سی زبر کے ساتھ) ۔ اس کے برعکس دعا دعا کو (عین پر ہلکی سی زبر کے ساتھ) دعدعا نہیں پڑھاجاسکتا ۔ البتہ فارسی الفاظ کے آخر سے ہائے مختفی کو ( کہ یہ بمنزلہ زبر کے ہوتی ہے ) گرایا جاسکتا ہے ۔ گویا عمومی قاعدہ یہ ہو ا کہ حروف علت کو اسی صورت میں گرایا جاتا ہے کہ ان کے اسقاط سے مصرع میں لفظ کی مجموعی صوتی ہیئت برقرار رہے ، اس طرح مسخ نہ ہوجائے کہ لفظ کی پہچان دشوار ہو ۔ اسقاط کے ان مستند اور مسلمہ اصولوں کی تفصیل عروض کی کسی بھی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے ۔
(۲) ہندی، فارسی اور عربی الفاظ کے شروع میں سے الف گرایا جاسکتا ہے اور وہ اس صورت میں کہ الف کی حرکت ماقبل لفظ کےآخری ساکن حرف کو دے کر الف کو ساقط کیا جاتا ہے ۔ مثلاًً ’’آج امتحان ہے‘‘ کو یوں پڑھا جائے گا ’’ آجمتحان ہے‘‘ (جیم پر زیر کے ساتھ ) ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ نیز یہ بھی نوٹ کیجئے کہ کسی بھی لفظ (خواہ ہندی ، فارسی یا عربی) کے صحیح حروف ( کانسو نینٹ) کا اسقاط کسی بھی صورت میں نہیں ہوتا ۔ صرف اور صرف حروفِ علت ہی تقطیع سے گرائے جاتے ہیں ۔ یہ بھی یاد رہے کہ کسی بھی متحرک حرف کو کسی بھی صورت میں کبھی بھی ساکن نہیں کیا جاسکتا ۔
(۳) حرفِ علت کا اسقاط صرف اور صرف درمیانِ مصرع میں ہی ہوسکتا ہے ۔ مصرع کے اول اور آخر سے کبھی بھی نہیں ہوسکتا ۔ کسی بھی صورت میں نہیں ! اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کا جواب اردو الفاظ کی ساخت میں پوشیدہ ہے ۔ ہر اردو لفظ کا پہلا حرف ہمیشہ متحرک اور آخری حرف ہمیشہ ساکن ہوتا ہے ۔ لامحالہ ہر جملے اور ہر مصرع کا پہلا حرف متحرک اور آخری حرف ساکن ہوگا ۔( اسی لئے اردو میں مروجہ ہر بحر کا آخری رکن بھی ساکن پر ختم ہوتا ہے ۔ متحرک الآخر ارکان صرف مصرع کے درمیان میں ہی آ سکتے ہیں) ۔ سو اب اگر مصرع کے آخر سے حرف ِ علت گرادیا جائے تو مصرع ایک متحرک حرف پر ختم ہوگا جسے پڑھنا ہی ممکن نہیں اور لفظ کی شکل بالکل مسخ ہوجائے گی ۔ اس اصول کا صرف اور صرف ایک ہی استثناء ہے اور وہ یہ کہ جب مصرع کے آخری تین حروف ’’ ائے ‘‘ ہوں (مثلاً کھائے ، جائے ، لائے ) تو یہاں ایک حرف گرایا جاسکتا ہے ۔( کچھ کہتے ہیں کہ ہمزہ گراکر ’’ے‘‘ کو برقرار رکھا جاتا ہے اور کچھ لوگوں کی رائے میں ’’ے‘‘ کو گرا کر ہمزہ برقرار رکھا جاتا ہے ۔ بہرحال اس سے عملی طور پر کوئی فرق نہیں پڑتا )۔ اس کی مثالیں اردو شاعر ی مین عام موجود ہیں ۔ یہاں ایک مثال پر اکتفا کرتا ہوں ۔
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
ا س موضوع پر میں مفصل پہلے بھی لکھ چکا ہوں ۔ تفصیل اور بہت امثال
کے لئے یہ لڑی دیکھ لیجئے ۔
اب زیرِ بحث غزل کے بارے میں اپنی ناقص رائے پیش کرنا چاہوں گا ۔ لیکن اس سے پہلے ملا نصیرالدین کا یہ لطیفہ سن لیجئے ۔ ایک دفعہ دو آدمی اپنا ایک قضیہ لے کر ملا کے پاس پہنچے۔ پہلے ایک فریق نے اپنی روداد سنائی ۔ مُلا نے سن کر کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو ۔ پھر دوسرے نے اپنا موقف بیان کیا ۔ مُلا نے اسے بھی سن کر کہا کہ تم بھی ٹھیک کہتے ہو ۔ ایک تیسرا شخص جو یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا وہ نہ رہ سکا اور بولا: مُلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دونوں ہی ٹھیک کہتے ہوں ۔ مُلا نے جواب دیا کہ بھائی کہتے تو تم بھی ٹھیک ہو ۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب بات میر کی ہندی بحر کی ہورہی ہو تو یہ لطیفہ صادق آتا ہے ۔
شوکت پرویز صاحب کا اعتراض معقول ہے ۔ غزل کا وزن اس کے مطلع میں ہی متعین ہوجاتا ہے۔ اس غزل کے مطلع کا وزن فعلن فعلن فعلن فاع ہے ۔ جبکہ غزل کے اکثراشعار کا مصرع اول فعلن فعلن فعلن فعلن کے وزن پر آرہا ہے ۔ اس لئے وزن پر اعتراض معقول ہے ۔ (نوٹ: اس غزل کی اصل بحر یہ ہے : فعل فعول فعول فعَل (متقارب مثمن اثرم مقبوض محذوف) ۔ تسکینِ اوسط سے یہ وزن بنا: فعلف عولف عولف عل ۔ اور ان افاعیل کو معروف افاعیل سے بدلیں تو حاصل ہوا : فعلن فعلن فعلن فع ۔ اب اس وزن کے آخر میں حسبِ دستور ایک ساکن حرف کا ا ضافہ کیا جائے تو فعلن فعلن فعلن فاع حاصل ہوتا ہے جو کہ غزل مذکور کے مطلع کا اصل وزن ہے) ۔ یہاں
فاتح بھائی توجہ فرمائیں ۔ چونکہ اردو کے ہر مصرع کا آخری حرف ساکن ہوتا ہے اسی لئے ایک اور ساکن کے اضافہ سے آخر میں دو ساکن جمع ہوجائیں گے ۔ اسی لئے مسبغ اور مذال ارکان کے آخر میں کم از کم دو ساکن حروف ضرور ہوں گے ۔ اگر صرف ایک ہی ساکن حرف موجود ہے تو سمجھ لیجئے کہ تسبیغ یا اذالہ کا زحاف اس رکن پر نہیں لگا ہوا ہے ۔
میر کی ہندی بحر کا وزن مذکورہ بالا وزن کا مضاعف ہے یعنی دُگنا ۔ یعنی اس غزل کے کسی شعر کے دونوں مصرع ایک ساتھ لکھیں تو میر کی بحر بن جاتی ہے ۔ مثلاً:
کس مقتل سے گزرا ہوگا اتنا سہما سہما چاند ( فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فاع)
چنانچہ اس غزل کے لفظی تغیرات (زحافات) کو میر کی بحر پر قیاس کرنا بھی معقول معلوم ہوتا ہے ۔ چونکہ میر کی ہندی بحر کے تمام تغیرات کو مروجہ عروضی اصولوں سے ثابت کرنا ممکن نہیں اور ان کی کوئی کافی وشافی وضاحت اب تک سامنے نہیں آئی ہے اس لئے بس یہ سمجھنا چاہیئے کہ مذکورہ غزل میر کی بحر کے معیار پر پوری اترتی ہے ۔ پہلا مصرع فعلن فعلن فعلن فعلن اور دوسرا مصرع فعلن فعلن فعلن فاع پر کیوں ہے اس کا جواب مروجہ فارسی عربی عروض کے پاس نہیں ہے ۔ اس لئے ریحان میاں کی یہ بات معقول ہے کہ اس بحر کو مروجہ عروضی اصولوں پر دیکھنے کے بجائے میر کے معیار پر دیکھنا چاہیئے ۔ چنانچہ اس لحاظ سے یہ غزل بالکل رواں دواں ہے ۔ پڑھنت میں موزوں معلوم ہوتی ہے اور مجھے اس میں قطعی کوئی خامی نطر نہیں آتی ۔ میر کی بحر میں جو شاعری ہوتی آئی ہے اور جو جو تغیرات اس میں استعمال ہوتے آرہے ہیں ان مین سے چند اس غزل میں بھی استعمال ہوئے ہیں ۔