پرُوف ریڈنگ

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

متن ٹائپ کرنے کے بعد پرُوف ریڈنگ کا مسئلہ اہم ہے اس بارے میں میں دوبارہ سوال اُٹھانا چاہوں گی کیونکہ متن میں اغلاط کی موجودگی نہ صرف یہ کہ قاری کی دلچسپی کم کرتی ہے بلکہ بعض وقت خود پورا مفہوم ہی بدل جاتا ہے اور یہ زیادہ خطرناک بات ہے ۔ سرسید کی کہانی لکھتے (ٹائپ کرتے) وقت میں نے اپنے طور پر پرُوف ریڈنگ کی بھی کوشش کی تھی اور اسے دقت طلب پایا ۔ کیا کوئی صاحب یا صاحبہ پروف ریڈنگ کا تجربہ رکھتی ہیں یا اس معاملے پر روشنی ڈال سکتے ہیں؟

مزید یہ کہ ڈیجیٹل لائبریری کا حصہ بننے والے تمام تحریری مواد کی پروف ریڈنگ کی ذمہ داری نبھانے کے لئے کیا لائحہ عمل بہتر ہوگا ؟ اور کیا ڈیجیٹل پروف ریڈنگ تیزرفتار بنائی جاسکتی ہے اور کس طرح ؟

شکریہ
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اس حوالے سے ایک سادہ تجویز یہ ہے کہ یہاں کچھ اراکین جو مکمل متون ٹائپ کرنے میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں تاہم مطالعہ و شغف رکھتے ہوں وہ بھی پرُوف ریڈنگ کا کام کرسکتے ہیں یا ہم ان سے درخواست کرسکتے ہیں کہ وہ مختلف اراکین کے ٹائپ کئے ہوئے متون کی پرُوف ریڈنگ کردیں ۔ اگر چند نام پروف ریڈنگ کے ضمن میں سامنے آجائیں تو ان کی بھی ایک چھوٹی سی ٹیم بن سکتی ہے ۔
 

رضوان

محفلین
نعمان اور آصف پروف ریڈنگ کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اصل متن آپ کے پاس ہو۔ یہ مسئلہ اس وقت درپیش ہوگا جب کوئی غیر معروف کتاب لکھی جائے۔ اب ساتھ ہی آپ فارمیٹنگ بھی کر دیجیے گا، لیکن اغلاط سے لکھنے والوں کو ضرور مطلع کریں تاکہ اعادہ نہ ہو۔
 

الف عین

لائبریرین
املا کی کچھ عام اغلاط کی طرف میں مختلف پوسٹس میں اشارہ کرتا رہا ہوں۔ ان کو بھی نظر میں رکھیں۔ اعداد کو انگریزی میں ہی رکھنا بہتر ہوگا۔ پروف ریڈنگ جو کریں، بہتر ہو کہ وہ ورڈ وغیرہ میں کریں جہاں ’فائنڈ‘ اور ’رپلیس‘ میں آسانی سے کسی فائل کی ساری غلطیاں ایک ساتھ سدھاری جا سکیں۔ اور اس میں پیراگراف مارکس وغیرہ پرنٹنگ اٹریبیوٹس آن رکھیں جائیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ کہاں الفاظ کے درمیان وقفہ نہیں دیا گیا ہے جو سپیل چیکر جب بھی وہ تیا ہو، کی گرفت میں نہ آئے۔
 

الف عین

لائبریرین
کچھ اور باتوں کا خیال آیا۔ پہلی بات تخاطبی ’کوٹس‘ کے بارے میں ہے۔ میں خالص اردو۔عربی کوٹیشن مارکس استعمال کرتا ہوں اور یہی کئے جائیں جو میں سمجھتا ہوں کہ ہر فانٹ میں موجود ہیں۔ معلعم نہیں ہمارے غالب نویسوں نے جو کوٹس ٹائپ کئے ہیں ان پر تحقیق تو میں نے نہیں کی کہ کس کیریکٹر کو استعمال کیا گیا ہے، لیکن وہ اردو نسخ ایشیا ٹائپ فانٹ میں یک طرفہ بن گئے ہیں، یعنی دائیں طرف بھی اور بائیں طرف بھی ایک ہی شکل۔ ان سب کو میں نے سدھار دیا ہے۔ یک طرفہ نشانات اچھے نہیں لگتے۔ میں نے اپنے صوتی کی بورڈ میں ان پیج کے صوتی کلیدی تختے کے مطابق انھیں "کرلی بریکٹ" کے ساتھ نقشہ بندی کی ہے۔
(نبیل Mapping کا یہ ترجمہ خود مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے، کیا خیال ہے؟
اس کے علاوہ ایک بات یہ محسوس ہوئی کہ اکثر دواوین میں قدیم املا کے مطابق، مثلاً ’سخت جانیہاے‘ لکھا ہوا ہے اور اس قسم کے الفاظ یہاں بھی اسی طرح ٹائپ کئے گئے ہیں۔ اسی طرح ’بیدلی‘ وغیرہ الفاظ بھی ملا کر لکھے گئے ہیں، انھیں میں نے ’بے دلی‘ میں ندل دہا ہے۔ محض وقفہ ہٹایا جائے تو یہ بی دلی بن جاتا ہے۔
اکثر ’ئے‘ کی بجائے محض ’ے‘ بھی دیکھا گیا ہے، جیسے یہاں ’سخت جانی ہاے‘۔ ان کو بھی میں نے تلفظ کے مطابق ’ئے‘ کر دیا ہے۔
اسی طرح کہیں کہیں اصل نسخے میں بھی ’لینگے‘ یا ’کیونکر‘ ملا کر لکھا گیا ہے اور ہمارے غالب نویسوں نے بھی۔ ان کو بھی میں نے الگ الگ دو الفاظ کر دئے ہیں۔ یعنی ’لیں گے‘ اور ’کیوں کر‘
ایک اور بات جو یاد آ رہی ہے وہ ہے غالب کی ’پانوْ‘ ردیف کی غزل۔ میں نے یہ اجتہاد کیا ہے کہ اسے جدید املا کے مطابق ’پاؤں‘ کر دیا ہے اور اسے نون ردیف میں آخر میں رکھا ہے، واؤ ردیف میں نہیں۔ امید ہے کہ احباب متفق ہوں گے۔
 
Top