حمیرا عدنان
محفلین
طلبہ کی ابتدائی تعلیم کو، کوئی بھی نام دے دیں، پری اسکول، نرسری، کنڈرگارٹن اور پلے اسکول یہ سب ہی ابتدائی تعلیم میں ہی شمار ہوتے ہیں۔ آج کل بچوں کو دو سال کی عمر سے ہی پڑھنے کی غرض سے ان کلاسز میں بٹھایا جاتا ہے، جس کا اصل مقصد انہیں اسکول کی بڑی کلاسز میں جاکر پڑھنے لکھنے کیلئے تیار کرنا ہوتا ہے۔
ابتدائی تعلیم کے بارے میںسب سے پہلے جن لوگوں نے توجہ دلوائی، ان میں سوئٹزرلینڈ کے جوہان ہین رچ (1779)، برطانیہ کے رابرٹ اوینز (1816)، جرمنی کے فیڈرچ فروبیل(1837)، اٹلی کی ماریہ مونٹیسری شامل ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے اپنے ملکوں میں بچوں کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں ایک شعور دیا، تاہم 19ویں صدی میں ہی پری اسکولنگ یاکنڈرگارٹن کو باقاعدہ طور پر شروع کیا گیا، بچوں کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیاں بھی آتی ہیں، ان کی ذہنی نشوونما بھی ہورہی ہوتی ہے۔ اسی لئے کوشش کی گئی کہ ابتدا سے ہی بچوں کے ذہن کو پڑھنے لکھنے کی طرف لگا دیا جائے، تاکہ وہ آگے جاکر پڑھائی کی طرف زیادہ اچھی طرح مائل ہوسکیں۔ فروبیل کی جانب سے شروع کئے جانے والے کنڈرگارٹن کا اصل مقصد یہ تھا کہ بچوں کوسوچنے سمجھنے اور سیکھنے کی آزادی دی جائے، ان کے ذہنوں پر کوئی بوجھ نہ ہو اور وہ خود ہی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکیں۔ اس کے ساتھ ہی انہیں معاشرے میں رہنے کے طور طریقے بھی آجائیں اور وہ اپنی زبان پر بھی عبور حاصل کرسکیں ۔
چونکہ کنڈر گارٹن اور پری اسکول میں چند ماہ کے بچے سے لے کر6 سال تک کے بچے پڑھتے ہیں۔ عمر کے اس دورانئے میں جہاں ان کی ظاہری جسامت میں تبدیلی آرہی ہوتی ہے ، وہیں ان کی ذہنی نشوونما بھی ہورہی ہوتی ہے۔ وہ یاد رکھنے، ذہن پر زور ڈالنے اور چیزوں، ناموں اور چہروں کو یاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، ساتھ ہی وہ نئے الفاظ کا استعمال کرنا اور ابلاغ کرکے اپنے احساسات کو دوسرں تک پہنچانا بھی سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنے احساسات کو کنٹرول کرنا بھی سیکھ رہے ہوتے ہیں، بچے عموماً ابتداء میں بہت روتے ہیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ رونا کم کردیتے ہیں یا بالکل ختم کردیتے ہیں۔
فروبیل کے مطابق بچوں کی ذہنی صلاحیتیں خود بخود نہیں نکھرتیں، انہیں نکھارنے کے لئے ابتداء سے ہی ان پر کام کیا جانا چاہئے۔ انہیں کھیل کھیل میں سکھانے کا عمل جاری رکھنا چاہئے۔ مختلف پری اسکولز اور کنڈر گارٹن میں بچوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے الگ الگ طریقے ہوتے ہیں، کہیں انہیں صرف اسکول میں بٹھانے کے لئے تیار کیا جارہا ہوتا ہے۔ نرسری میں جانے سے قبل کچھ والدین پری اسکول میں داخلہ دلواتے ہیں، تاکہ بچوں کو اسکول جانے کی سمجھ بوجھ ہوجائے۔ انہیں اندازہ ہوجائے کہ اب انہیں گھر پر نہیں رہنا بلکہ انہیں گھر سے باہر جاکر سیکھنا اور پڑھنا ہوگا۔ اس طرح جب بچوں کی رسمی تعلیم کا آغاز ہوتا ہے تو وہ ذہنی طور پر تیار ہوچکے ہوتے ہیں۔ فروبیل کی کنڈر گارٹن کے بارے یہی رائے تھی کہ بچوں کو ابتداء سے ہی گھر پر بٹھانے کے بجائے انہیں گھر سے باہر سیکھنے کیلئے بھیجا جانا چاہئے تاکہ وہ رسمی تعلیم حاصل کرنے کے اداروں میں جاتے وقت والدین کو تنگ نہ کریں اور غیر رسمی تعلیم سے ہی بہت کچھ سیکھ سکیں تاکہ بعد میں جب وہ رسمی تعلیم کا آغاز کریں تو انہیں اسکول کے ماحول کو سمجھنے میں مشکلات پیش نہ آئیں۔
اب پاکستان کے پری اسکولز اور کنڈر گارٹن کو دیکھیں تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ پچھلے 15سالوں کے دوران ان میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں۔ ہمارے یہاں بہت سے نامی گرامی پری اسکولز موجود ہیں، جہاں طلبہ کی ایک بڑی تعداد سیکھنے کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان پری اسکولز میں گزشتہ کئی سالوں کے دوران بہت سی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں، اب کلاسز بہت ہی رنگ برنگی تصاویر پر مشتمل ہوتی ہیں، ان کی دیواروں پر بچوں کے پسندیدہ کارٹون کیریکٹرز بنوائے جاتے ہیں، بچوں کے کھیلنے کیلئے کھلونے رکھ دئیے جاتے ہیں۔ اکثر پری اسکولز میں بچوں کو بس کھیلنے دیا جاتا ہے، اس سے بچے خوش رہتے ہیں، تاہم اس سے پری اسکول کا اصل مقصد پورا نہیں ہوتا، پری اسکول کا اصل مقصد ہی یہ ہونا چاہئے کہ وہ طلبہ کو رسمی تعلیم کے بارے میں پڑھائیں، یعنی انہیں اسکول کیلئے تیار کریں تو انہیں انگریزی اور اردو حروف تہجی کا پتا ہو۔ انہیں چند سوالات کے جوابات بخوبی دینے آتے ہوں وغیرہ۔ اس لئے انہیں صرف کھیل کود میں مصروف نہ رکھا جائے بلکہ انہیں کاپی کتابوں کو پڑھنے، ان میں سبق لکھنے کا طریقہ بھی سکھایا جائے بلکہ اسی چیز پر زیادہ توجہ دی جائے۔
دماغ پر کی جانے والی تحقیق اور کئی نیوروسرجنز کا کہنا ہے کہ بچوں کی 98فیصد دماغی نشوونما اور اس میں آنے والی تبدیلیاں عموماً ابتدائی چھ سالوں میں ہوتی ہیں، اس لئے اگر بچوں کو ابتداء سے ہی تعلیم دی جائے اور انہیں سکھانے کا عمل جاری رکھا جائے تو دماغی نشوونما کو مثبت انداز میں جاری رکھا جاسکتاہے۔ تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ طلبہ کو ’’کیسے سیکھنا ہے؟‘‘ اس بارے میں سمجھانا چاہئے، تاکہ وہ آزادانہ سیکھنے اور خود ہی اپنی سوچ کے مطابق کہنے اور سننے کے عادی بنیں، یوں ان میں اعتماد بھی پیدا ہوتا ہے اور ڈرے سہمے نہیں رہتے۔ اس کے علاوہ ایک مسئلہ کتابوں کے بارے میں بھی دیکھنے میں آتا ہے، پری اسکولنگ کیلئے جو کتابیں تیار کی گئی ہیں، وہ زیادہ تر بچوں کے تعلیمی ماہرین کی جانب سے تیار نہیں کی گئیں، کیونکہ اکثر کتابوں میں انگریزی کے بڑے حروف تہجی سے لکھے جاتے ہیں یا سارے الفاظ چھوٹی انگریزی حروف تہجی سے، جبکہ پہلا لفظ بڑے حروف تہجی اور باقی الفاظ چھوٹے حروف تہجی سے لکھے جانے چاہئیں۔ پری اسکولز کو اچھے نصاب کے علاوہ ایسے اساتذہ کو چننا چاہئے جوکہ چائلڈ ہڈ ٹیچر ٹریننگ کورس کرچکے ہوں، تاکہ انہیں پتا ہو کہ ننھے طلبہ کو کس طرح پڑھانا اور سمجھانا ہے۔
یہ بات سچ ہے کہ ہمارے یہاں موجود پری اسکولز کی فیسیں بہت زیادہ ہیں، غریب یا متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے خاندان اپنے بچوں کو ان مہنگے پری اسکولز میں داخلہ نہیں دلواسکتے، یہی وجہ ہے کہ ان کے بچے پری اسکولز جاکر رسمی تعلیم کے بارے میں نہیں سیکھ پاتے، ایسے میں حکومت کے زیرانتظام چلنے والے پری اسکولز کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے، امید ہے کہ آنے والے وقتوں میں محکمہ تعلیم بھی نئے پری اسکولز بنانے کی طرف توجہ دے گا۔
ماخذ
ابتدائی تعلیم کے بارے میںسب سے پہلے جن لوگوں نے توجہ دلوائی، ان میں سوئٹزرلینڈ کے جوہان ہین رچ (1779)، برطانیہ کے رابرٹ اوینز (1816)، جرمنی کے فیڈرچ فروبیل(1837)، اٹلی کی ماریہ مونٹیسری شامل ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے اپنے ملکوں میں بچوں کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں ایک شعور دیا، تاہم 19ویں صدی میں ہی پری اسکولنگ یاکنڈرگارٹن کو باقاعدہ طور پر شروع کیا گیا، بچوں کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیاں بھی آتی ہیں، ان کی ذہنی نشوونما بھی ہورہی ہوتی ہے۔ اسی لئے کوشش کی گئی کہ ابتدا سے ہی بچوں کے ذہن کو پڑھنے لکھنے کی طرف لگا دیا جائے، تاکہ وہ آگے جاکر پڑھائی کی طرف زیادہ اچھی طرح مائل ہوسکیں۔ فروبیل کی جانب سے شروع کئے جانے والے کنڈرگارٹن کا اصل مقصد یہ تھا کہ بچوں کوسوچنے سمجھنے اور سیکھنے کی آزادی دی جائے، ان کے ذہنوں پر کوئی بوجھ نہ ہو اور وہ خود ہی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکیں۔ اس کے ساتھ ہی انہیں معاشرے میں رہنے کے طور طریقے بھی آجائیں اور وہ اپنی زبان پر بھی عبور حاصل کرسکیں ۔
چونکہ کنڈر گارٹن اور پری اسکول میں چند ماہ کے بچے سے لے کر6 سال تک کے بچے پڑھتے ہیں۔ عمر کے اس دورانئے میں جہاں ان کی ظاہری جسامت میں تبدیلی آرہی ہوتی ہے ، وہیں ان کی ذہنی نشوونما بھی ہورہی ہوتی ہے۔ وہ یاد رکھنے، ذہن پر زور ڈالنے اور چیزوں، ناموں اور چہروں کو یاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، ساتھ ہی وہ نئے الفاظ کا استعمال کرنا اور ابلاغ کرکے اپنے احساسات کو دوسرں تک پہنچانا بھی سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنے احساسات کو کنٹرول کرنا بھی سیکھ رہے ہوتے ہیں، بچے عموماً ابتداء میں بہت روتے ہیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ رونا کم کردیتے ہیں یا بالکل ختم کردیتے ہیں۔
فروبیل کے مطابق بچوں کی ذہنی صلاحیتیں خود بخود نہیں نکھرتیں، انہیں نکھارنے کے لئے ابتداء سے ہی ان پر کام کیا جانا چاہئے۔ انہیں کھیل کھیل میں سکھانے کا عمل جاری رکھنا چاہئے۔ مختلف پری اسکولز اور کنڈر گارٹن میں بچوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے الگ الگ طریقے ہوتے ہیں، کہیں انہیں صرف اسکول میں بٹھانے کے لئے تیار کیا جارہا ہوتا ہے۔ نرسری میں جانے سے قبل کچھ والدین پری اسکول میں داخلہ دلواتے ہیں، تاکہ بچوں کو اسکول جانے کی سمجھ بوجھ ہوجائے۔ انہیں اندازہ ہوجائے کہ اب انہیں گھر پر نہیں رہنا بلکہ انہیں گھر سے باہر جاکر سیکھنا اور پڑھنا ہوگا۔ اس طرح جب بچوں کی رسمی تعلیم کا آغاز ہوتا ہے تو وہ ذہنی طور پر تیار ہوچکے ہوتے ہیں۔ فروبیل کی کنڈر گارٹن کے بارے یہی رائے تھی کہ بچوں کو ابتداء سے ہی گھر پر بٹھانے کے بجائے انہیں گھر سے باہر سیکھنے کیلئے بھیجا جانا چاہئے تاکہ وہ رسمی تعلیم حاصل کرنے کے اداروں میں جاتے وقت والدین کو تنگ نہ کریں اور غیر رسمی تعلیم سے ہی بہت کچھ سیکھ سکیں تاکہ بعد میں جب وہ رسمی تعلیم کا آغاز کریں تو انہیں اسکول کے ماحول کو سمجھنے میں مشکلات پیش نہ آئیں۔
اب پاکستان کے پری اسکولز اور کنڈر گارٹن کو دیکھیں تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ پچھلے 15سالوں کے دوران ان میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں۔ ہمارے یہاں بہت سے نامی گرامی پری اسکولز موجود ہیں، جہاں طلبہ کی ایک بڑی تعداد سیکھنے کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان پری اسکولز میں گزشتہ کئی سالوں کے دوران بہت سی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں، اب کلاسز بہت ہی رنگ برنگی تصاویر پر مشتمل ہوتی ہیں، ان کی دیواروں پر بچوں کے پسندیدہ کارٹون کیریکٹرز بنوائے جاتے ہیں، بچوں کے کھیلنے کیلئے کھلونے رکھ دئیے جاتے ہیں۔ اکثر پری اسکولز میں بچوں کو بس کھیلنے دیا جاتا ہے، اس سے بچے خوش رہتے ہیں، تاہم اس سے پری اسکول کا اصل مقصد پورا نہیں ہوتا، پری اسکول کا اصل مقصد ہی یہ ہونا چاہئے کہ وہ طلبہ کو رسمی تعلیم کے بارے میں پڑھائیں، یعنی انہیں اسکول کیلئے تیار کریں تو انہیں انگریزی اور اردو حروف تہجی کا پتا ہو۔ انہیں چند سوالات کے جوابات بخوبی دینے آتے ہوں وغیرہ۔ اس لئے انہیں صرف کھیل کود میں مصروف نہ رکھا جائے بلکہ انہیں کاپی کتابوں کو پڑھنے، ان میں سبق لکھنے کا طریقہ بھی سکھایا جائے بلکہ اسی چیز پر زیادہ توجہ دی جائے۔
دماغ پر کی جانے والی تحقیق اور کئی نیوروسرجنز کا کہنا ہے کہ بچوں کی 98فیصد دماغی نشوونما اور اس میں آنے والی تبدیلیاں عموماً ابتدائی چھ سالوں میں ہوتی ہیں، اس لئے اگر بچوں کو ابتداء سے ہی تعلیم دی جائے اور انہیں سکھانے کا عمل جاری رکھا جائے تو دماغی نشوونما کو مثبت انداز میں جاری رکھا جاسکتاہے۔ تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ طلبہ کو ’’کیسے سیکھنا ہے؟‘‘ اس بارے میں سمجھانا چاہئے، تاکہ وہ آزادانہ سیکھنے اور خود ہی اپنی سوچ کے مطابق کہنے اور سننے کے عادی بنیں، یوں ان میں اعتماد بھی پیدا ہوتا ہے اور ڈرے سہمے نہیں رہتے۔ اس کے علاوہ ایک مسئلہ کتابوں کے بارے میں بھی دیکھنے میں آتا ہے، پری اسکولنگ کیلئے جو کتابیں تیار کی گئی ہیں، وہ زیادہ تر بچوں کے تعلیمی ماہرین کی جانب سے تیار نہیں کی گئیں، کیونکہ اکثر کتابوں میں انگریزی کے بڑے حروف تہجی سے لکھے جاتے ہیں یا سارے الفاظ چھوٹی انگریزی حروف تہجی سے، جبکہ پہلا لفظ بڑے حروف تہجی اور باقی الفاظ چھوٹے حروف تہجی سے لکھے جانے چاہئیں۔ پری اسکولز کو اچھے نصاب کے علاوہ ایسے اساتذہ کو چننا چاہئے جوکہ چائلڈ ہڈ ٹیچر ٹریننگ کورس کرچکے ہوں، تاکہ انہیں پتا ہو کہ ننھے طلبہ کو کس طرح پڑھانا اور سمجھانا ہے۔
یہ بات سچ ہے کہ ہمارے یہاں موجود پری اسکولز کی فیسیں بہت زیادہ ہیں، غریب یا متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے خاندان اپنے بچوں کو ان مہنگے پری اسکولز میں داخلہ نہیں دلواسکتے، یہی وجہ ہے کہ ان کے بچے پری اسکولز جاکر رسمی تعلیم کے بارے میں نہیں سیکھ پاتے، ایسے میں حکومت کے زیرانتظام چلنے والے پری اسکولز کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے، امید ہے کہ آنے والے وقتوں میں محکمہ تعلیم بھی نئے پری اسکولز بنانے کی طرف توجہ دے گا۔
ماخذ