داغ پری جمال بھی انساں ضرور ہوتا ہے - داغ دہلوی

کاشفی

محفلین
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)

پری جمال بھی انساں ضرور ہوتا ہے
پھر اُس پر آنکھ ہو اچھی تو حور ہوتاہے

قصور وار ہوں مجھ سے قصور ہوتا ہے
مگر جب ہی کہ یہ دل، ناصبور ہوتا ہے

ہزاروں آتے ہیں کعبے سے پھر کے زاہد کیوں
خدا کے گھر میں ٹھکانا ضرور ہوتا ہے

ہمیشہ عذر بھی کرتے ہوئے نہیں بنتی
وہاں سوال یہ ہے کہ کیوں قصور ہوتا ہے

وہ میرے واسطے کرتے ہیں جب ستم ایجاد
ستم شریک زمانہ ضرور ہوتا ہے

پڑی ہے جاں عجب کش مکش میں کیا کیجئے
نہ دل سے عشق ، نہ دل مجھ سے دور ہوتا ہے

پیام بر کوئی لاتا ہے کیا خوشی کی خبر
کہ خود بخود مرے دل کو سرور ہوتا ہے

دکھا دو جلوہ کہ دل پر جو ہے یہ غم کا پہاڑ
ذرا سی دیر میں جل بھن کے طور ہوتا ہے

جو مے پیوں تو گناہ گار، کیا کروں واعظ
مجھے تو نام لئے سے سرور ہوتا ہے

یہ عاشقی میں نئی بات ہے کہ اے ظالم
ترا قصور بھی میرا قصور ہوتا ہے

ہزار رنگ میں ہے اور پھر نظر میں نہیں
اُسی کا پردہ اُسی کا ظہور ہوتا ہے

بٹھا دیا ہے محبت نے آپ کی سکّہ
یہ دل سے داغ کے اب کوئی دور ہوتا ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت عمدہ غزل ہے۔ شکریہ کاشفی صاحب۔ ہو سکے تو اس شعر کے مصرع ثانی کو دیکھ لیں اس میں کچھ مسئلہ لگ رہا ہے۔
قصور وار ہوں مجھ سے قصور ہوتا ہے
مگر جب ہی کہ یہ دل، ناصبور ہوتا ہے

 
Top