سید زبیر
محفلین
ہم ہی ٹھہرے ہیں سزا وار ، خطا کچھ بھی نہیں
ہم ہی ٹھہرے ہیں سزا وار ، خطا کچھ بھی نہیں
توسمجھتا ہے ترے بعد ہوا کچھ بھی نہیں
یاد جب آئی تری، یاد رہا ، کچھ بھی نہیں
دل نے بس آہ بھری اور کہا کچھ بھی نہیں
وقت کی طرح یہ سانسیں بھی رواں ہیں اب تک
ایک بس اشک تھمے اور رکا کچھ بھی نہیں
ہاتھ سے ہاتھ چھڑا کر وہ گیا ہے جب سے
میں نے اس وقت سے ہاتھوں سے چھوا، کچھ بھی نہیں
مجھ سے کہہ دے وہ کسی روز اچانک آکر
میرے جیون میں ترے بعد بچا کچھ بھی نہیں
بعد مدت کے ملا آج وہ پہلے کی طرح
اور اس بار اسے میں نے کہا کچھ بھی نہیں
پر یا تا بیتا