پر یا تا بیتا : ہم ہی ٹھہرے ہیں سزا وار ، خطا کچھ بھی نہیں

سید زبیر

محفلین
ہم ہی ٹھہرے ہیں سزا وار ، خطا کچھ بھی نہیں
ہم ہی ٹھہرے ہیں سزا وار ، خطا کچھ بھی نہیں​
توسمجھتا ہے ترے بعد ہوا کچھ بھی نہیں​
یاد جب آئی تری، یاد رہا ، کچھ بھی نہیں​
دل نے بس آہ بھری اور کہا کچھ بھی نہیں​
وقت کی طرح یہ سانسیں بھی رواں ہیں اب تک​
ایک بس اشک تھمے اور رکا کچھ بھی نہیں​
ہاتھ سے ہاتھ چھڑا کر وہ گیا ہے جب سے​
میں نے اس وقت سے ہاتھوں سے چھوا، کچھ بھی نہیں​
مجھ سے کہہ دے وہ کسی روز اچانک آکر​
میرے جیون میں ترے بعد بچا کچھ بھی نہیں​
بعد مدت کے ملا آج وہ پہلے کی طرح​
اور اس بار اسے میں نے کہا کچھ بھی نہیں​

پر یا تا بیتا
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یاد جب آئی تری، یاد رہا ، کچھ بھی نہیں​
دل نے بس آہ بھری اور کہا کچھ بھی نہیں​
واہ سرکار واہ۔۔ ۔۔ بقول خمارؔ​
اب جا کے آہ کرنے کے آداب آئے ہیں​
دنیا سمجھ رہی ہے کہ ہم مسکرائے ہیں​
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
:AOA:
ہاتھ سے ہاتھ چھڑا کر وہ گیا ہے جب سے
میں نے اس وقت سے ہاتھوں سے چھوا، کچھ بھی نہیں
بظاہر ناممکن سی لگنے والی بات جب شعر کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے تو وہ بھی ممکن معلوم ہوتی ہے۔ بہت خوب انتخاب۔​
شراکت کے لیے شکریہ​
 

سید زبیر

محفلین
:AOA:
ہاتھ سے ہاتھ چھڑا کر وہ گیا ہے جب سے
میں نے اس وقت سے ہاتھوں سے چھوا، کچھ بھی نہیں
بظاہر ناممکن سی لگنے والی بات جب شعر کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے تو وہ بھی ممکن معلوم ہوتی ہے۔ بہت خوب انتخاب۔​
شراکت کے لیے شکریہ​

سر ! وعلیکم السلام ، میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس نے اپنا دایاں ہاتھ کپڑے مین لپیٹا ہوتا تھا ۔ سنجیدہ سا شخص تھا اور سنتے تھے کہ اس نے جس سے ہاتھ ملایا تھا اب وہ یہ ہاتھ کسی اور سے نہیہں ملایا کرتا تھا
واللہ اعلم
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
سر ! وعلیکم السلام ، میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس نے اپنا دایاں ہاتھ کپڑے مین لپیٹا ہوتا تھا ۔ سنجیدہ سا شخص تھا اور سنتے تھے کہ اس نے جس سے ہاتھ ملایا تھا اب وہ یہ ہاتھ کسی اور سے نہیہں ملایا کرتا تھا
واللہ اعلم

اُس سے دریافت کرنا چاہیے تھا کہ اُس نے کس مقدس ہستی سے ہاتھ ملایا تھا؟
اُس ہستی کے لمس سے اس نے کون سی نعمت پائی تھی جس کے کھو جانے کا اسے اتنا ڈر ہے کہ وہ اب کسی سے ہاتھ نہیں ملاتا؟
 

تلمیذ

لائبریرین
سر ! وعلیکم السلام ، میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس نے اپنا دایاں ہاتھ کپڑے مین لپیٹا ہوتا تھا ۔ سنجیدہ سا شخص تھا اور سنتے تھے کہ اس نے جس سے ہاتھ ملایا تھا اب وہ یہ ہاتھ کسی اور سے نہیہں ملایا کرتا تھا
واللہ اعلم
بس ایک دھن ہی ہوتی ہے چاہےجس چیز کی لگ جائے۔۔۔۔
 

سید زبیر

محفلین
اُس سے دریافت کرنا چاہیے تھا کہ اُس نے کس مقدس ہستی سے ہاتھ ملایا تھا؟
اُس ہستی کے لمس سے اس نے کون سی نعمت پائی تھی جس کے کھو جانے کا اسے اتنا ڈر ہے کہ وہ اب کسی سے ہاتھ نہیں ملاتا؟

وہ ایک صوفی منش انسان تھا ۔ کبھی اسے بولتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ اس کے معتقدین بھی اس کے ہمراہ خاموش ہی رہتے تھے ۔ ہوٹل پر اکثر بیٹھا ہوا ملتا ۔ مگر خاموش۔
 

طارق شاہ

محفلین
سید صاحب
بہت خوب !
ایک اچھے، سادہ اور رواں انتخاب پر بہت سی داد قبول کیجیے ،
خاص طورسے اس شعرنےبہت لطف دیا :

بعد مُدّت کے مِلا آج وہ پہلے کی طرح
اور اِس بار اُسے میں نے کہا کچُھ بھی نہیں
:)
۔۔۔۔
ہم ہی ٹھہرے ہیں سزا وار ، خطا کچھ بھی نہیں
تُوسمجھتا ہے تِرے بعد ہُوا کچھ بھی نہیں
بالا مطلع میں، میں سمجھتا ہُوں کہ شاعر نے سزاوار کو بلحاظِ معنویت غلط لیا ہے، یعنی سزاوار کوبمعنی مستحقِ سزا جانا ہے ۔
جبکہ سزاوار بمعنی = مسعود ، مبارک ، زیبا موافق وغیرہ کے ہیں
یہاں سزاوار کی جگہ سزایاب ، خطاوار یا خطاکار وغیرہ درست رہتا
خیر میں نے ، ویسے ہی معلومات عامہ کے لئے جو صحیح سمجھا لکھ دیا ( اور یہ بھی سوچ کر کہ آپ کی اپنی شاعری نہیں:))
اک بار پھر سے تشکّر شیئر کرنے پر
بہت خوش رہیں

 
Top