پسندیدہ غزل

سارہ خان

محفلین
جو آنسو دل میں گرتے ہیں وہ آنکھوں میں نہیں رہتے
بہت سے حرف ایسے ہیں جو لفظوں میں نہیں رہتے


کتابوں میں لکھے جاتے ہیں دُنیا بھر کے افسانے
مگر جن میں حقیقت ہو کتابوں میں نہیں رہتے


بہار آئے تو ہر اک پُھول پر اک ساتھ آتی ہے
ہوا جن کا مقدّر ہو وہ شاخوں میں نہیں رہتے


مہک اور تتلیوں کا نام بھو نرے سے جُدا کیوں ہے
کہ یہ بھی تو خزاں آنے پہ پُھو لوں میں نہیں رہتے

(امجد اسلام امجد)

 

عمر سیف

محفلین
دشمنوں سے دوستی، غیروں سے یاری چاہیے
خاک کے پُتلے بنے تو خاکساری چاہیے

جن کو حُسن و عشق کے دعوٰے ہیں ان کے واسطے
دل ہمارا چاہیے اور صورت تمھاری چاہیے

چار حرفِ آرزو ہیں، سُن لے ساری رات میں
اور قصےکے لیے تو عُمر ساری چاہیے

اے فلک مٹ کر ہی کچھ رہ جائیں ہم انجام کار
اس مرقع میں کوئی صورت ہماری چاہیے

مل گیا ہم کو وفا و عشقِ اُلفت کا صلہ
بندہ پرور آپ کی بس یادگاری چاہیے

دِل پہ گر قابو نہیں اے داغ تو ہے جانے خدا
عاشقوں کے واسطے تو بےاختیاری چاہیے

[align=left:7c2b916bbd]"داغ دہلوی "[/align:7c2b916bbd]
 

حجاب

محفلین
اداس راتیں ہیں خواب سارے اُجڑ چکے ہیں
ہے آنکھ ویراں کہ سب نظارے اُجڑ چکے ہیں

مری زمیں پہ گُلوں کے چہرے جھلس گئے ہیں
مرے فلک کے وہ چاند تارے اُجڑ چکے ہیں

جو میرے آنسو شمار کرتے جو پیار کرتے
وفا کے پیکر سبھی سہارے اُجڑ چکے ہیں

اب آنکھ دریا میں کوئی طوفان نہیں اُٹھے گا
مری نگاہوں کے سب کنارے اُجڑ چکے ہیں

تمہاری شوخی گئے دنوں کا حساب مانگے
تمہیں خبر ہے کہ غم کے مارے اُجڑ چکے ہیں

جو بھید سینوں میں تھے کبھی بے اماں ہوئے ہیں
جو راز ہونٹوں پہ تھے ہمارے اُجڑ چکے ہیں

یہ وقت بھی کھا گیا ہے کتنی محبتوں کو
قمر جواں تھے جو یار سارے اُجڑ چکے ہیں۔
سیّد ارشاد قمر
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

حجاب

محفلین
شکریہ عیشل ۔


ترے کنول ، مرے گلاب سب دھوئیں میں کھو گئے
محبتوں کے تھے جو باب، سب دھوئیں میں کھو گئے

ہوائے ہجر نے بجھا دیئے ترے چراغ سب
مرے نجوم و ماہتاب سب دھوئیں میں کھو گئے

مری دعائیں ، التجائیں سب ہوا میں اُڑ گئیں
ترے حروف باریاب سب دھوئیں میں کھو گئے

تہوں سے دل کی شعلہء فراق اس طرح اُٹھا
کہ اس کے بعد اپنے خواب سب دھوئیں میں کھو گئے

جلا رہے تھے کاغذی گھروں میں موم بتّیاں
ہوا نے کھائے پیچ و تاب سب دھوئیں میں کھو گئے

ہوئیں جو نذرِ آتشِ جنوں تمام راحتیں
مرا قلم تری کتاب سب دھوئیں‌ میں کھو گئے

وہ گھر تو خواب گاہ کے چراغ نے جلا دیا
کہاں کی نیند ، کیسے خواب سب دھوئیں میں کھو گئے۔
(اعتبار ساجد )
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

نوید صادق

محفلین
رات کیا کیا مجھے ملال نہ تھا
خواب کا تو کہیں خیال نہ تھا

آج کیا جانے کیا ہوا ہم کو
کل تک ایسا تو جی کا حال نہ تھا

سن کے بولا تمام قصہ قیس
عشق کا اُس کو بھی کمال نہ تھا

ٹک نہ ٹھیرا وہ میرے پاس آ کر
کچھ تماشا تھا یہ وصال نہ تھا

بولے سب دیکھ میری جاں کاوی
یہ تو فرہاد کا بھی حال نہ تھا

شاعر: قلندر بخش جرات
 

فرحت کیانی

لائبریرین
سارہ خان نے کہا:
فرحت کیانی نے کہا:
[align=justify:d10d9f114b]آنسوؤں کے قطرے قطرے میں بکھر کر دیکھنا
درد کی موجوں کے ساحل پہ اتر کر دیکھنا

دیکھنا آنکھوں کی وحشت رات کے پچھلے پہر
ہجر کی صدیوں کے صحرا سے گزر کر دیکھنا

شام کا تنہا اکیلے چاند ستاروں سے ملاپ
اور ہماری آنکھ کا شب بھر ٹھہر کر دیکھنا

فرق ہے اک دیکھنے میں، تم تھے ساحل پر کھڑے
اور ہمارا ڈوبتے لمحے ابھر کر دیکھنا!!!

تُو بھی تو سرہانے کھڑا دیکھے گا چُپ گھنٹوں ہمیں
سو ، ہمارا شوق ہے اِک بار مر کر دیکھنا!!!!

۔۔۔۔۔نامعلوم[/align:d10d9f114b]

فرحت سسٹر آپ کا انتخاب ہر دفعہ لا جواب ہوتا ہے ۔۔۔ :)

بہت شکریہ سارہ :)
خوش رہیے ڈھیر سارا
 

فرحت کیانی

لائبریرین
[align=justify:d4bfa07442]مجھے دریا نہیں لکھنا، مجھے صحرا نہیں لکھنا
تسلسل سے سفر میں ہوں، مجھے ٹھہرا نہیں لکھنا

پرانے رابطوں کی راکھ ابھی تک دل میں باقی ہے
میری جلتی ہتھیلی پر نیا وعدہ نہیں لکھنا

اَنا سے جیت کر اس کو اگر جو میں نے کھویا ہے
میرا نوحہ نہیں لکھنا، میرا نغمہ نہیں لکھنا

بساطِ زندگی کی آخری سرحد پہ کھڑا ہوں
مجھے فاتح نہیں لکھنا، مجھے مہرہ نہیں لکھنا

تمھاری آنکھ میں گر میں کبھی چُپ چاپ جل جاؤں
تم اپنی آنکھوں میں لیکن میرا صدمہ نہیں لکھنا[/align:d4bfa07442]
 

عمر سیف

محفلین
بہت خوب فرحت۔

ہر اک جانب اداسی ہے
ابھی سوچیں تو کیا سوچیں؟

ہر اک سو، ہو کا عالم ہے
ابھی بولیں تو کیا بولیں؟

ہر اک انسان پتھر ہے
ابھی دھڑکیں تو کیا دھڑکیں؟

فضا پر نیند طاری ہے
ابھی جاگیں تو کیا جاگیں؟

ہر اک مقتل کی شہِ رگ میں
لہو کی لہر جاری ہے

ابھی دیکھیں تو کیا دیکھیں؟
ہر اک انسان کا سایہ

ابھی مٹی پہ بھاری ہے
ابھی لکھیں تو کیا لکھیں؟
[align=left:089b67914d]محسن نقوی[/align:089b67914d]
 

عیشل

محفلین
آجا کہ انتظار ِ نظر ہیں کبھی سے ہم
مایوس ہو نہ جائیں کہیں زندگی سے ہم

اے عکسِ زلفِ یار ہمیں تو پناہ دے
گھبرا کے آگئے ہیں بڑی روشنی سے ہم

برسوں رہی ہے جن سے رہ و رسمِ دوستی
انکی نظر میں آج ہوئے اجنبی سے ہم

اس رونق ِ بہار کی محفل میں بیٹھ کر
کھاتے رہے فریب بڑی سادگی سے ہم

(ساغر صدیقی)
 

محمد وارث

لائبریرین
ہر قدم مرحلہء دار و صلیب آج بھی ہے
جو کبھی تھا، وہی انساں کا نصیب آج بھی ہے

جگمگاتے ہیں افق پر تو ستارے لیکن
راستہ منزلِ ہستی کا مہیب آج بھی ہے

سرِ مقتل جنہیں جانا تھا وہ جا بھی پہنچے
سرِ منزل کوئی محتاط خطیب آج بھی ہے

یہ تری یاد ہے یا میری اذیت کوشی
ایک نشتر سا رگِ جاں کے قریب آج بھی ہے

کون جانے یہ ترا شاعرِ آشفتہ مزاج
کتنے مغرور خداؤں کا رقیب آج بھی ہے

ساحر لدھیانوی
 

حجاب

محفلین
تجھ سے ابتداء ہے ، تو ہی ایک دن انتہا ہوگا
صدائے ساز ہوگی اور نہ سازِ بے صدا ہوگا

ہمیں معلوم ہے ہم سے سنو محشر میں کیا ہوگا
سب اُس کو دیکھتے ہوں ، وہ ہم کو دیکھتا ہوگا

سرِ محشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہوگا
درِ جنت نہ وا ہوگا ، درِ رحمت نہ وا ہوگا

جہنم ہو کہ جنت جو بھی ہوگا فیصلہ ہوگا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور اُس کا سامنا ہوگا

یہ مانا بھیج دے گا ہم کو محشر سے جہنم میں
مگر جو دل پہ گزرے گی وہ دل ہی جانتا ہوگا

جگر کا ہاتھ ہوگا حشر میں اور دامنِ حضرت
شکایت ہو کہ شکوہ ہو جو بھی ہوگا برملا ہوگا۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

محمد وارث

لائبریرین
سَہل یوں راہِ زندگی کی ہے
ہر قدم ہم نے عاشقی کی ہے

ہم نے دل میں سجا لیے گلشن
جب بہاروں نے بے رخی کی ہے

زہر سے دھولیے ہیں ہونٹ اپنے
لطفِ ساقی نے جب کمی کی ہے

تیرے کوچے میں بادشاہی کی
جب سے نکلے گداگری کی ہے

بس وہی سرخ رُو ہوا جس نے
بحرِ خوں میں شناوری کی ہے

جو گزرتے تھے داغ پر صدمے
اب وہی کیفیت سبھی کی ہے

(فیض)
 

نوید صادق

محفلین
موسم کی طرح رنگ بدلتا بھی بہت ہے
ہم زاد مرا قلب کا سادہ بھی بہت ہے

نفرت بھی محبت کی طرح کرتا ہے مجھ سے
وہ پیار بھی کرتا ہے رُلاتا بھی بہت ہے

وہ شخص بچھڑتا ہے تو برسوں نہیں ملتا
ملتا ہے تو پھر ٹوٹ کے ملتا بھی بہت ہے

خوشحال ہے مزدور بہت عہد رواں کا
ماتھے پہ مگر اس کے پسینہ بھی بہت ہے

برسا ہے سر دشت طلب ابر بھی کھل کر
سناٹا مری روح میں گونجا بھی بہت ہے

تم یوں ہی شریک غم ہستی نہیں ٹھہرے
سچ بات تو یہ ہے تمہیں چاہا بھی بہت ہے

اُٹھتی ہی نہیں آنکھ حیا سے کبھی اُوپر
دوپٹہ مگر سر سے ڈھلکتا بھی بہت ہے

ہر دُکھ کو تبسم میں اُڑا دیتا ہے احمد
بچوں کی طرح پھوٹ کے روتا بھی بہت ہے

شاعر: سید آلِ احمد
 

عیشل

محفلین
دنیا کرے سوال تو ہم کیا جواب دیں
تم کون ہو خیال؟تو ہم کیا جواب دیں
پوچھے کوئی کہ دل کو کہاں چھوڑ آئے ہو
کس سے بھلا رشتہ ءجاں جوڑ آئے ہو
مشکل ہو عرض ِ حال تو ہم کیا جواب دیں
پوچھے کوئی کہ درد ِ وفا کون دے گیا
کہنے سے ہو ملال تو ہم کیا جواب دیں
 

qaral

محفلین
آپ کی پسندیدہ غزل

اس دھاگے میں اپنی پسندیدہ غزل شئیر کریں اور اگر کوئی واقعہ جس نے آپ کے زندگی میں اس غزل کو خاص بنادیاہواگر آپ چاہیں تو شیئر کو سکتے ہیں
 

qaral

محفلین
انشا جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کا لگانا کیا

وحشی کوسکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا

پھر ہجر کی لمبی رات یہاں سنجوگ کی تو بس اک گھڑی

جو دل میں ہے لب پر آنے دو شرمانا کیا گھبرانا کیا

اس دل کے دریدہ دامن میں دیکھو تو سہی سوچو تو سہی

جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا

شب گزری چاند بھی ڈوب گیا زنجیر پڑی دروازے پر

کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانہ کیا

رہتے ہو جو ہم سے دور بہت مجبور ہو تم مجبور بہت

ہم سمجھوں کا سمجھانا کیا ہم بہلوں کا بہلانا کیا

جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کریں

دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا
 

qaral

محفلین
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے

ورنہ اتنے تو مراسم تھے کے آتے جاتے

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئے شمع جلاتے جاتے

کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں

پھر بھی اک عمر لگی جاں سے جاتے جاتے

جشن مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی

پابجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے

اس کی وہ جانے کہ اسے پاسں وفا تھا کہ نہ تھا

تم فراز اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
 
Top