مہ جبین
محفلین
پسِ آئینہ بھی میں ہوں کہیں ایسا تو نہیں ہے
یہ مرا وہم ہو شاید کبھی دیکھا تو نہیں
تیرے کس کام کا دھنکے ہوئے خوابوں کا غبار
سرمہء زر تو نہیں حسن کا غازہ تو نہیں
جادہء دل میں سرابوں کا گزر کیا معنیٰ
دشتِ پر خار سہی، ریت کا دریا تو نہیں
اپنا آئینہ بنا کر مجھے حیران کیا
آنکھ اٹھا کر مری جانب کبھی دیکھا تو نہیں
کبھی موتی بھی کوئی موج بہا لاتی ہے
کفِ دریا ہی متاعِ لبِ دریا تو نہیں
ایک اندازہ بلندی پہ لئے پھرتا ہے
ذہن میں جنتِ گم گشتہ کا نقشہ تو نہیں
گنگناتے ہوئے لمحے بھی یقیناً ہونگے
زندگی ایک شب و روز کا نوحہ تو نہیں
صبح ہوتی ہے نمودار کہاں سے جانے
گنبدِ شب میں کہیں کوئی دریچہ تو نہیں
عکس ہے اپنے خیالوں کا مرے خوابوں میں
کچھ ترے آئنہ خانے سے چرایا تو نہیں
میری آواز بنا کر نہ پکارو خود کو
خود فریبی ہے جدائی کا مداوا تو نہیں
خیر خاموشیء پیہم کا گنہ گار سہی
کم سے کم مجرمِ اظہارِ تمنا تو نہیں
آئنے میں بھی ترا عکس نظر آتا ہے
حیرتِ چشمِ تماشا ہوں تماشا تو نہیں
پھول ہی گریہء شبنم پہ ہنسا کرتے ہیں
میرے اشکوں پہ تبسم ترا بے جا تو نہیں
ہوگئی تیز ستاروں کے دھڑکنے کی صدا
شبِ مہتاب کا یہ آخری لمحہ تو نہیں
کیا عجب اپنی شبِ غم بھی گزر جائے حزیں
وقت کہتے ہیں کسی کے لئے رکتا تو نہیں
حزیں صدیقی
انکل الف عین کی شفقتوں کی نذر
والسلام
یہ مرا وہم ہو شاید کبھی دیکھا تو نہیں
تیرے کس کام کا دھنکے ہوئے خوابوں کا غبار
سرمہء زر تو نہیں حسن کا غازہ تو نہیں
جادہء دل میں سرابوں کا گزر کیا معنیٰ
دشتِ پر خار سہی، ریت کا دریا تو نہیں
اپنا آئینہ بنا کر مجھے حیران کیا
آنکھ اٹھا کر مری جانب کبھی دیکھا تو نہیں
کبھی موتی بھی کوئی موج بہا لاتی ہے
کفِ دریا ہی متاعِ لبِ دریا تو نہیں
ایک اندازہ بلندی پہ لئے پھرتا ہے
ذہن میں جنتِ گم گشتہ کا نقشہ تو نہیں
گنگناتے ہوئے لمحے بھی یقیناً ہونگے
زندگی ایک شب و روز کا نوحہ تو نہیں
صبح ہوتی ہے نمودار کہاں سے جانے
گنبدِ شب میں کہیں کوئی دریچہ تو نہیں
عکس ہے اپنے خیالوں کا مرے خوابوں میں
کچھ ترے آئنہ خانے سے چرایا تو نہیں
میری آواز بنا کر نہ پکارو خود کو
خود فریبی ہے جدائی کا مداوا تو نہیں
خیر خاموشیء پیہم کا گنہ گار سہی
کم سے کم مجرمِ اظہارِ تمنا تو نہیں
آئنے میں بھی ترا عکس نظر آتا ہے
حیرتِ چشمِ تماشا ہوں تماشا تو نہیں
پھول ہی گریہء شبنم پہ ہنسا کرتے ہیں
میرے اشکوں پہ تبسم ترا بے جا تو نہیں
ہوگئی تیز ستاروں کے دھڑکنے کی صدا
شبِ مہتاب کا یہ آخری لمحہ تو نہیں
کیا عجب اپنی شبِ غم بھی گزر جائے حزیں
وقت کہتے ہیں کسی کے لئے رکتا تو نہیں
حزیں صدیقی
انکل الف عین کی شفقتوں کی نذر
والسلام