یہ جو اوپر بات کی ہے وہ ذاتی تجربے کی بنیاد پر ہی کی ہے۔
میرے گھر سے یہ تمام معلومات اکھٹی کی گئی ہیں۔ جب میں نے امی سے کہا کہ اس قسم کی معلومات نہیں دینا چاہیے تھیں تو اُنہوں نے کہا کہ وہ کوئی نئی خاتون نہیں تھیں بلکہ وہیں تھی جو ہر بار پولیو کے قطرے پلانے آیا کرتی ہیں۔ بہرکیف آئندہ کے لئے پھر منع کر دیا ہے۔
اور یہ ابھی حال ہی کی بات ہے۔
واللہ، ہمارے ہاں ایسا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔ پنجاب میں تو بہت ٹیمیں آتی رہتی ہیں۔ سال بھر قبل ڈینگی والی ٹیم آئی تو شومئی قسمت میں گھر پہ ہی تھا، اور ان کے تمام سوالوں کا جواب دینا پڑا۔ کچھ یاد ہیں وہ لکھ دیتا ہوں۔
پانی کا ٹینک کہاں ہے ؟ اوپن ہے ؟
پانی ذخیرہ کرنے کے لیے اور کیا کیا انتظامات ہیں؟
چھت پر کیا کوئی ایسا کاٹھ کباڑ پڑا ہے جس میں پانی اکٹھا ہو سکے ؟
دو کولر گلی میں کھڑکیوں کے ساتھ لگے ہوئے تھے۔ دونوں کو کھلوا کر ان میں سے پانی کے نمونے لیے۔
پرندوں کے پنجروں کا معائنہ کیا۔
گلی میں تیسرے یا چوتھے گھر کی خاتون فرش دھو رہی تھیں اور پانی گلی میں آ رہا تھا، انھی دو خواتین نے انھیں سخت قسم کی سرزنش کی کہ پانی گلی میں نا آنے دیں بلکہ انڈر گراؤنڈ سے ہی سیوریج لائین میں جانے کا بندوبست کریں۔ بصورت دیگر آپ کا پانی کا کنکشن کاٹ دیا جائے گا۔ ان کے گھر کا نمبر وغیرہ نوٹ کر کے لے گئیں۔
لیکن
کسی قسم کا شناختی کارڈ یا اہل خانہ کے بارے میں کوئی تفصیل بالکل بھی نہیں مانگی گئی اور ایسا ہی پولیو ویکسین ٹیم بھی کارڈ دیکھ، بچے بُلا، قطرے پلا، نشان لگا کر چلی جاتی ہیں۔ میری ایک بھتیجی چند دنوں کے لیے نانی کے پاس گئی ہوئی تھی کہ اس دوران پولیو ویکسینیشن کی مہم آ گئی۔ انھیں بتایا کہ ایک بچی گھر میں نہیں ہے، وہ ٹیم ہر روز دروازہ پہ آکر پوچھتی کہ بچی آئی یا نہیں۔ مہم کے تیسرے دن انھوں نے ایک نمبر دیا کہ جب بچی آ جائے تو اس نمبر پر کال یا میسج کردیں۔ مہم ختم ہونے کے چھٹے ساتویں دن بھتیجی واپس آئی تو انھیں اطلاع کی اور وہ اگلے دن ہی صبح صبح آ موجود ہوئیں۔ اپنے فرض ادا کیا، دروازے پر مارکنگ کی اور چلی گئیں۔