اس پورے قضئے میں یہ دیکھ لیں کہ اصلی ٹریڈ مارک کے استعمال سے جعلی مال کیسے مارکیٹ میں لایا جاتا ہے۔ اگر طالبان واقعی اسلام پسند ہیں تو سب سے زیادہ ان کو اپنے ٹریڈ مارک کی فکر کرنا چاہئیے اور پاکستان کے اندر عسکری کارروائیاں بند کرنے کا اعلان کر دینا چاہئیے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہمارے بعض مذہبی حلقوں کو طالبان کی نظریاتی حمایت سے ہاتھ اٹھا لینا چاہئیے تا کہ پاکستانی قوم ان کے مقابلے میں متحد ہو سکے۔ جب ریمنڈ ڈیوس پکڑا گیا تھا تو تفتیش کے دوران اس کے بعض ایسے مدارس کے دوروں کا انکشاف ہوا تھا جو طالبان کے حمایتی ہیں اور اب اگر ٹیٹو والے ”مجاہدین“ مار گرائے گئے ہیں تو کچھ زیادہ اچنبھا نہیں ہونا چاہئیے ، ”دام بنائے کام“ والا محاورہ طالبان نے بھی پڑھ اور سن رکھا ہے۔ اس بات سے کسی طور بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ طالبان کی سرگرمیوں کے پیچھے سی آئی اے کا پورا ہاتھ ہے اور ہمارے اپنے لوگ اس کے آلہ کار ہیں۔
ہم کچھ بھی کر لیں یا کوئی بھی حکمت عملی اپنا لیں یہ یاد رکھیں کہ جب تک نیٹو اور امریکہ کے مفادات اس جنگ سے پورے نہیں ہوں گے تب تک یہ طالبانی جن قابو میں نہیں آئے گا۔ ہم ایک حد تک تو غیر ممالک کو اس جنگ مین پاکستان کی تباہی کا سبب قرار دے سکتے ہیں لیکن اصل میں تباہی کا کام تو ہمارے اپنے ہی کر رہے ہیں۔ اگر یہ باز آ جائیں تو غیر ممالک کیا فرشتوں کی افواج لے کر ہم پر حملہ آور ہوں گے؟۔
پاکستان کو ضرورت ہے کہ عرب ممالک سے اس بارے جرات سے بات کرے اور مکۃ المکرمہ مین بیٹھ کر مفتیان کا فتوی لینے کی کوشش کرے کہ جس میں مسلمانوں پر حملوں کو دو ٹوک الفاظ میں حرام قرار دیا جائے اور اس کے خلاف جانے والے کسی بھی مدرسے یا شخص کے خلاف سخت کارروائی کو لازم قرار دیا جائے۔ ایسا اس لئے ضروری ہے کہ قبائلی علاقے میں عرب ممالک سے انسیت زیادہ ہے اور قبائل کی اکثریت اسلام کے نام پر بے وقوف بنائی جاتی ہے اور ان کی نوجوان نسل کو جہاد کے نام پر گمراہ کیا جاتا ہے۔لہذا ادھر سے کہی جانے والی بات ان پر بہتر انداز میں اثر کرے گی۔