arifkarim
معطل
پاکستان کے صوبہ سرحد کے دارالحکومت پشاور میں ہونے والے ایک خودکش کار بم دھماکے میں اڑتالیس افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق یہ دھماکہ شہر کے مصروف بازار خیبر بازار کے سوئیکارنو چوک میں ہوا۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ڈاکٹر شیراز قیوم نے بی بی سی اردو کے عبدالحئی کاکڑ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ہسپتال میں اڑتالیس لاشیں موجود ہیں جبکہ ایک سو سینتالیس افراد زخمی ہیں جن میں سے سولہ کی حالت نازک ہے۔
لاشوں کی فہرست بنانے والے ایک اہلکار خرم کے مطابق انہوں نے اب تک اپنی فہرست میں چھیالیس لاشوں کا اندراج کیا گیا ہے جبکہ ہسپتال حکام کے مطابق تاحال صرف چار لاشوں کی شناخت ہو سکی ہے۔
دھماکے میں زخمی ہونے والے ایک شخص نور عالم نے خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’میں نے اپنے پاس ایک خون میں لت پت ٹانگ دیکھی۔ مجھے زندگی میں پہلی بار پتہ چلا کہ قیامت کا منظر کیا ہوگا‘۔
بشکریہ بی بی سی اردو
ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد بس میں سوار تھے۔
پشاور پولیس کے بم ڈسپوزل سکواڈ کے ڈی آئی جی شفقت ملک نے جائے وقوعہ پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک خودکش حملہ تھا اور حملہ آور ایک کار میں سوار تھا۔ پولیس حکام کے مطابق جب دھماکہ ہوا تو ایک لوکل بس اس گاڑی کے برابر سے گزر رہی تھی۔ حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد بس میں سوار تھے۔ ڈی آئی جی کے مطابق اس بم حملے میں پچاس کلو کے قریب دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا ہے۔
دھماکے کے بعد پشاور کے اعلٰی پولیس اہلکار موقع پر پہنچ گئے اور سارے علاقے کو گھیرے میں لے لیا گیا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جائے وقوعہ کا دورہ کرنے والے صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ ’موت تو سب کو ایک دن آنی ہے لیکن ہم ان دہشتگردوں کا پیچھا کرتے رہیں گے۔ ایسے دھماکے ہمارے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتے‘۔
ادھر تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان اعظم طارق نے بی بی سی اردو کے نامہ نگار دلاور خان وزیر کو فون پر بتایا ہے کہ ان کی تنظیم کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ حملہ ہم نے نہیں کیا ہے اور اس میں پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں‘۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ پشاور کے صدر بازار میں بھی ایک خودکش حملہ ہوا تھا جس میں بارہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کے بعد شہر بھر میں سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں اور شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر تعینات پولیس کی نفری میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔
پولیس حکام کے مطابق یہ دھماکہ شہر کے مصروف بازار خیبر بازار کے سوئیکارنو چوک میں ہوا۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ڈاکٹر شیراز قیوم نے بی بی سی اردو کے عبدالحئی کاکڑ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ہسپتال میں اڑتالیس لاشیں موجود ہیں جبکہ ایک سو سینتالیس افراد زخمی ہیں جن میں سے سولہ کی حالت نازک ہے۔
لاشوں کی فہرست بنانے والے ایک اہلکار خرم کے مطابق انہوں نے اب تک اپنی فہرست میں چھیالیس لاشوں کا اندراج کیا گیا ہے جبکہ ہسپتال حکام کے مطابق تاحال صرف چار لاشوں کی شناخت ہو سکی ہے۔
دھماکے میں زخمی ہونے والے ایک شخص نور عالم نے خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’میں نے اپنے پاس ایک خون میں لت پت ٹانگ دیکھی۔ مجھے زندگی میں پہلی بار پتہ چلا کہ قیامت کا منظر کیا ہوگا‘۔
بشکریہ بی بی سی اردو
ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد بس میں سوار تھے۔
پشاور پولیس کے بم ڈسپوزل سکواڈ کے ڈی آئی جی شفقت ملک نے جائے وقوعہ پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک خودکش حملہ تھا اور حملہ آور ایک کار میں سوار تھا۔ پولیس حکام کے مطابق جب دھماکہ ہوا تو ایک لوکل بس اس گاڑی کے برابر سے گزر رہی تھی۔ حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد بس میں سوار تھے۔ ڈی آئی جی کے مطابق اس بم حملے میں پچاس کلو کے قریب دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا ہے۔
دھماکے کے بعد پشاور کے اعلٰی پولیس اہلکار موقع پر پہنچ گئے اور سارے علاقے کو گھیرے میں لے لیا گیا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جائے وقوعہ کا دورہ کرنے والے صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ ’موت تو سب کو ایک دن آنی ہے لیکن ہم ان دہشتگردوں کا پیچھا کرتے رہیں گے۔ ایسے دھماکے ہمارے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتے‘۔
ادھر تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان اعظم طارق نے بی بی سی اردو کے نامہ نگار دلاور خان وزیر کو فون پر بتایا ہے کہ ان کی تنظیم کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ حملہ ہم نے نہیں کیا ہے اور اس میں پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں‘۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ پشاور کے صدر بازار میں بھی ایک خودکش حملہ ہوا تھا جس میں بارہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کے بعد شہر بھر میں سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں اور شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر تعینات پولیس کی نفری میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔