جاسم محمد
محفلین
پشاور میں 2200 سال پرانا کارخانہ دریافت
عارف حیات25 اپريل 2019
کارخانے میں تیر، کمان، چاقوم اور تلوار بھی بنائے جاتے تھے — فوٹو: عارف حیات
یونیورسٹی آف پشاور کے ماہر آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2 صدی قبل مسیح، انڈو گریک دور کا لوہے کا کارخانہ دریافت کرلیا ہے۔
پروفیسر گل رحیم کا کہنا تھا کہ یہ دریافت پشاور کے نزدیک حیات آباد کے علاقے سے کی گئی جو خیبر ضلع کی سرحد لگتا ہے، اس مقام پر گزشتہ 3 سالوں سے کام کیا جارہا ہے۔
باقیات انڈو گریک دور کے ہیں — فوٹو: عارف حیات
ان کا کہنا تھا کہ انہیں انڈو گریک دور کے سکے بھی ملے ہیں جو تقریباً 2 ہزار 200 سال پرانے ہیں۔
پروفیسر کا کہنا تھا کہ انڈو گریک افغانستان سے آج کے پشاور ہجرت کرکے آئے تھے اور اس علاقے میں انہوں نے 150 سال تک حکومت کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’باقیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جگہ کسی لوہے کا کارخانہ تھی کیونکہ اس میں لوہے کو پگھلانے کے سانچے، چھریاں وغیرہ پائی گئی ہیں‘۔
یہ پہلی مرتبہ ہے کہ طالب علموں کو انڈو گریک دور کے آثار قدیمہ کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا — فوٹو: عارف حیات
ان کے مطابق کارخانے میں تیر، کمان، چاق، اور تلوار بھی بنائے جاتے تھے۔
پروفیسر کا کہنا تھا کہ ’اس جگہ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کارخانہ دو حصوں میں تھا جبکہ اس وقت کے گرائنڈر اسٹون، فرنس وغیرہ صاف واضح ہیں‘۔
کارخانہ مٹی کا بنا تھا— فوٹو: عارف حیات
پروفیسر گل نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا صوبے میں انڈو گریک دور کا پہلا کارخانہ دریافت کیا گیا ہے‘۔ دریں اثنا ماہر آثار قدیمہ محمد نعیم کا کہنا تھا کہ ‘بدھ مت کے مقامات اینٹوں سے بنائے گئے تھے جبکہ یہ مٹی کی بنی ہے جس کی وجہ سے اسے محفوظ بنانا مشکل ہوگا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈو گریک دور کے باقیات گور کھتری آثار قدیمہ سے بھی پائے گئے تھے۔
یونیورسٹی آف پشاور میں معروف اسکالر جان گل کا کہنا تھا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ طالب علموں نے انڈو گریک دور کے باقیات دیکھے ہیں اس سے قبل صرب بدھ اور مغل دور کے باقیات کا مطالعہ کیا گیا تھا۔
عارف حیات25 اپريل 2019
کارخانے میں تیر، کمان، چاقوم اور تلوار بھی بنائے جاتے تھے — فوٹو: عارف حیات
یونیورسٹی آف پشاور کے ماہر آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2 صدی قبل مسیح، انڈو گریک دور کا لوہے کا کارخانہ دریافت کرلیا ہے۔
پروفیسر گل رحیم کا کہنا تھا کہ یہ دریافت پشاور کے نزدیک حیات آباد کے علاقے سے کی گئی جو خیبر ضلع کی سرحد لگتا ہے، اس مقام پر گزشتہ 3 سالوں سے کام کیا جارہا ہے۔
باقیات انڈو گریک دور کے ہیں — فوٹو: عارف حیات
ان کا کہنا تھا کہ انہیں انڈو گریک دور کے سکے بھی ملے ہیں جو تقریباً 2 ہزار 200 سال پرانے ہیں۔
پروفیسر کا کہنا تھا کہ انڈو گریک افغانستان سے آج کے پشاور ہجرت کرکے آئے تھے اور اس علاقے میں انہوں نے 150 سال تک حکومت کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’باقیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جگہ کسی لوہے کا کارخانہ تھی کیونکہ اس میں لوہے کو پگھلانے کے سانچے، چھریاں وغیرہ پائی گئی ہیں‘۔
یہ پہلی مرتبہ ہے کہ طالب علموں کو انڈو گریک دور کے آثار قدیمہ کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا — فوٹو: عارف حیات
ان کے مطابق کارخانے میں تیر، کمان، چاق، اور تلوار بھی بنائے جاتے تھے۔
پروفیسر کا کہنا تھا کہ ’اس جگہ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کارخانہ دو حصوں میں تھا جبکہ اس وقت کے گرائنڈر اسٹون، فرنس وغیرہ صاف واضح ہیں‘۔
کارخانہ مٹی کا بنا تھا— فوٹو: عارف حیات
پروفیسر گل نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا صوبے میں انڈو گریک دور کا پہلا کارخانہ دریافت کیا گیا ہے‘۔ دریں اثنا ماہر آثار قدیمہ محمد نعیم کا کہنا تھا کہ ‘بدھ مت کے مقامات اینٹوں سے بنائے گئے تھے جبکہ یہ مٹی کی بنی ہے جس کی وجہ سے اسے محفوظ بنانا مشکل ہوگا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈو گریک دور کے باقیات گور کھتری آثار قدیمہ سے بھی پائے گئے تھے۔
یونیورسٹی آف پشاور میں معروف اسکالر جان گل کا کہنا تھا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ طالب علموں نے انڈو گریک دور کے باقیات دیکھے ہیں اس سے قبل صرب بدھ اور مغل دور کے باقیات کا مطالعہ کیا گیا تھا۔