کاشفی
محفلین
پشتون علاقوں کو الگ کرکے بلوچستان میں ریفرنڈم کرایاجائے، نوابزادہ جمیل بگٹی
کراچی(شاہنواز بلوچ سے)پاکستان میں اول دن سے الیکشن نہیں بلکہ سلیکشن ہوتا آیا ہے، طاقت ہمیشہ فوج کے پاس رہی ہے حکومتیں صرف نام کی رہی ہیں۔ ان خیالات کااظہار شہیدنواب اکبرخان بگٹی کے فرزند نوابزادہ جمیل بگٹی نے ’’روزنامہ آزادی‘‘ سے خصوصی گفتگو کے دوران کیا۔انہوں نے کہاکہ پشتون علاقوں کو الگ کرکے بلوچ علاقوں میں اقوام متحدہ کی زیرنگرانی میں شفاف ریفرنڈم کرایا جائے تاکہ بلوچ اپنی آزاد رائے کا استعمال کریں، میں پاکستان میں ہونے والے الیکشن کو نہیں مانتا۔انہوں نے کہاکہ 70ء کی دہائی میں بھی شفاف الیکشن کا دعویٰ کیاجاتا ہے جبکہ اُس وقت بھی شفاف الیکشن نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے کہاکہ 70ء کی دہائی میں میرے والد نواب اکبرخان بگٹی کا گورنر بننا بالکل غلط تھا مگر اس سے بھی بڑی غلطی میرے والدنے 47ء میں پاکستان کے حق میں ووٹ دیکر کیامگر میرے والد کہتے ہیں کہ میرے پاس کوئی آپشن نہیں تھاصرف دو آپشن تھے کہ میں ہندوستان کے حق میں ووٹ دوں یا پاکستان کے اس لئے میں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا کیونکہ بگٹی اور مری علاقے قلات اسٹیٹ کے کنٹرول میں نہیں تھے۔ انہوں نے کہاکہ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کو اتنی ساری سیٹیں ملی جس کی توقع کسی کو نہیں تھی اب تو مجھے لگتا ہے کہ یہ ڈیرہ بگٹی سے بھی جیت جائینگے۔ انہوں نے کہاکہ سردار اخترجان مینگل کے ساتھ دھاندلی ہوئی جن حلقوں میں سردار اخترجان کی کنفرم سیٹیں تھی وہاں سے بھی پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کو کامیاب کرایاگیا، اس سے بڑھ کر اور کیا دھاندلی کے ثبوت ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ ایک اچھے انسان ہیں اور ہمارے دوست بھی ہیں مگر انہوں نے بھی نواب اکبرخان بگٹی کی شہادت پر کمیشن بنانے کی بات کی جس پر انتہائی افسوس ہوا، وہ خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جس معاملے کو سرد خانے میں ڈالنا ہو تو اُس پر کمیشن بنائی جاتی ہے، حمودالرحمن کمیشن کا کیا ہوا یہ تمام باتیں صرف دھوکہ دہی پرمبنی ہے ، میں تو شکر کرتا ہوں کہ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے سابقہ حکمرانوں کے روایات کو برقرار نہ رکھتے ہوئے بلوچوں سے معافی نہیں مانگی۔ انہوں نے کہاکہ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ بلوچستان بن تو گئے ہیں کیا اُن کے پاس اختیارات ہیں ماضی اس بات کی خود گواہ ہے کہ صرف عہدہ ملتا رہا ہے مگر اختیارات کا محور کہی اور رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ لاپتہ افراد کا مسئلہ ہو یا مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی جس دن ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ حلف اٹھارہے تھے اُس دن بھی پانچ مسخ شدہ لاشیں ملی اور میراحمدیار خان کے خاندان سے تعلق رکھنے والے فرد میرمحراب خان کو کس بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا اور اُس کی لاش کو نادرا آفس کے پاس پھینک دیا گیا، اب آپ آگے بہتر جانتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کیا کارنامہ انجام دینگے مگر ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کو نامزد کرنے والاوزیراعظم نواز شریف نے تو چاغی میں ایٹمی دھماکہ کرتے ہوئے بلوچ دشمنی کا ثبوت دیا، مجھے تو لگتا ہے کہ نواز شریف کو بھی اعتماد میں نہیں لیاگیا اور ایٹمی دھماکے کئے گئے، انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ سردار اخترجان مینگل سے میں نے ایٹمی دھماکوں کے متعلق پوچھا تھاتو انہوں نے کہاکہ میں اس معاملے سے لاعلم تھا اور نہ ہی مجھ سے پوچھا گیا تھا۔انہوں نے کہاکہ نواب اکبرخان بگٹی کی شہادت سے قبل جب مشاہد حسین اور چوہدری شجاعت نمائندہ بن کر مذاکرات کرنے آئے تھے تو دوبار اُن سے بات چیت ہوئی مگر تیسری بار میرے والد نے مشاہدحسین سے کہاکہ آپ کے پاس اختیارات نہیں کیوں آپ اپنا اور ہمارا وقت ضائع کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نواب اکبرخان بگٹی کی شہادت کسی غار میں نہیں ہوئییہ جھوٹ پر مبنی باتیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ میرے والد نے گیس رائلٹی کیلئے جنگ نہیں کی یہ صرف پروپیگنڈہ ہے جبکہ گیس رائلٹی حکومت بلوچستان کو ملتی رہی ہے نواب اکبرخان نے بلوچ قوم کے حقوق کیلئے جدوجہد کی اس سے پہلے جب ون یونٹ توڑنے کی موومنٹ چل رہی تھی تو میرغوث بخش بزنجو نے کرنسی پر ون یونٹ توڑنے کے نعرے لکھے جس پر انہیں گرفتار کرکے غداری کا مقدمہ درج کیا گیا اور کیس کراچی میں چل رہا تھابلوچ جب بھی اپنے حقوق کی بات کرتا ہے تو اسے غداری کا لقب دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اسٹیبلشمنٹ اب بلوچ اور پشتونوں کو لڑانے کی سازش کرے گی اب یہ منصوبہ کب شروع ہوگا اس کچھ کہہ نہیں سکتا مگر جو حالات پیدا کئے جارہے ہیں اس سے یہی لگتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ پشتون ہر وقت یہی کہتے ہیں کہ جی بلوچستان میں ہمارا استحصال کیاجارہا ہے تو الگ ہوجائیں باقی جوعلاقے متنازعہ ہیں اس پر بیٹھ کر ہم بات چیت کرینگے کیونکہ ہمیں ایک سال ساتھ نہیں رہنا ہے بلکہ مستقبل میں بھی ہمیں پڑوسی بن کر رہنا ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ بلوچ آج بھی تقسیم ہیں اور اُس کی تین وجوہات ہیں، انا، لالچ اور نادانی اِ ن تینوں نقص سے نکل جائیں تو بلوچ آپسی جھگڑے سے نکل کر اپنے حقوق کیلئے مشترکہ جدوجہد کرینگے، میرے والد نے سنگل پارٹی بنانے کا اعلان کیا مگر والد کی شہادت کے بعد اُن کی اپنی پارٹی ہی بکھر گئی ایک دھڑا عالی کے پاس،دوسرا طلال اور نوابزادہ براہمداغ بگٹی نے تو اپنی پارٹی کا نام ہی تبدیل کردیا، جمیل بگٹی نے ہنستے ہوئے کہاکہ جی میں سیاست نہیں کرسکتا۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ میرے والد نے بے شک اپنی حیات کے وقت اپنے جانشین کا اعلان کیا تھا مگر میں نے اُس وقت بھی اختلاف رکھا تھا کہ بگٹی قبائل کا نواب چننے کا حق بگٹی قبائل کے پاس ہے وہ کسی کو بھی چُن لیں وہ ہمارے لئے قابل قبول ہے مگر عالی کو اسٹیبلشمنٹ نے نواب بنادیا جبکہ ہم وہاں جا بھی نہیں سکتے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ ظاہر سی بات ہے کہ نوابزادہ براہمداغ بگٹی کو بیرون ملک جانے پر کسی نے سپورٹ ضرور کیا ہے کہ وہ سوئٹزر لینڈ پہنچیں مگر عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے تحت کام کرتے ہیں وہ یہ نہیں کہتے کہ جی بلوچوں کے ساتھ بہت زیادہ ظلم ہورہا ہے اور رحم کھاکر اُن کی مدد کرینگے بلکہ وہ اپنے مفادات کو اولین ترجیح دینگے ۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں آئے روز ہڑتال سے بلوچ معاشی طور پر کمزور ہورہے ہیں جو صحیح نہیں ہے آج تک ہزاروں کی تعداد میں بلوچ قتل کئے گئے تو پھر سال کے بارہ مہینے ہڑتال کیاجائے تو رہ کیا جائے گا اس سے بہتر ہے مؤثر انداز میں ایک احتجاج ریکارڈ کرایاجائے تاکہ اپنے لوگوں کو تکلیف نہ پہنچیں اور بیزاری کی کیفیت پیدا نہ ہو۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی کاقتل بلوچستان کا مسئلہ نہیں اسے زبردستی یہاں کا ایشو بنایا جارہا ہے یہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ ہونے والے جنگ کے نتیجے میں ہزارہ کمیونٹی کو نشانہ بنایاجارہا ہے دیگر شیعہ برادری کو کیوں نہیں مارا جارہا صرف ہزارہ کمیونٹی کو نشانہ بنایاجارہا ہے یہ تو افغان، طالبان اور ہزارہ کی صدیوں سے چلتاآیا ہوا جنگ ہے ہزارہ کمیونٹی کو افغانستان میں کس لیول پر رکھاگیا ہے خود تاریخ اس بات کی گواہ ہے جب سے چنگیز خان انہیں چھوڑ کر گیا ہے یہ جنگ چلتی آرہی ہے لہٰذا ہزارہ کمیونٹی کی جنگ کو بلوچستان سے جوڑنا غلط ہے۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں جو افغان مہاجرین کی آباد کاری ہوئی اِس کی وجہ آج کے دن ہیں جو الیکشن میں صاف ظاہر ہوئے کہ کوئٹہ کے اردگرد اور کوئٹہ کے اندر کتنے افغان مہاجرین نے ووٹ دیئے اور اِن کو آباد کرنے کا مقصد بھی یہی تھا۔
کراچی(شاہنواز بلوچ سے)پاکستان میں اول دن سے الیکشن نہیں بلکہ سلیکشن ہوتا آیا ہے، طاقت ہمیشہ فوج کے پاس رہی ہے حکومتیں صرف نام کی رہی ہیں۔ ان خیالات کااظہار شہیدنواب اکبرخان بگٹی کے فرزند نوابزادہ جمیل بگٹی نے ’’روزنامہ آزادی‘‘ سے خصوصی گفتگو کے دوران کیا۔انہوں نے کہاکہ پشتون علاقوں کو الگ کرکے بلوچ علاقوں میں اقوام متحدہ کی زیرنگرانی میں شفاف ریفرنڈم کرایا جائے تاکہ بلوچ اپنی آزاد رائے کا استعمال کریں، میں پاکستان میں ہونے والے الیکشن کو نہیں مانتا۔انہوں نے کہاکہ 70ء کی دہائی میں بھی شفاف الیکشن کا دعویٰ کیاجاتا ہے جبکہ اُس وقت بھی شفاف الیکشن نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے کہاکہ 70ء کی دہائی میں میرے والد نواب اکبرخان بگٹی کا گورنر بننا بالکل غلط تھا مگر اس سے بھی بڑی غلطی میرے والدنے 47ء میں پاکستان کے حق میں ووٹ دیکر کیامگر میرے والد کہتے ہیں کہ میرے پاس کوئی آپشن نہیں تھاصرف دو آپشن تھے کہ میں ہندوستان کے حق میں ووٹ دوں یا پاکستان کے اس لئے میں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا کیونکہ بگٹی اور مری علاقے قلات اسٹیٹ کے کنٹرول میں نہیں تھے۔ انہوں نے کہاکہ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کو اتنی ساری سیٹیں ملی جس کی توقع کسی کو نہیں تھی اب تو مجھے لگتا ہے کہ یہ ڈیرہ بگٹی سے بھی جیت جائینگے۔ انہوں نے کہاکہ سردار اخترجان مینگل کے ساتھ دھاندلی ہوئی جن حلقوں میں سردار اخترجان کی کنفرم سیٹیں تھی وہاں سے بھی پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کو کامیاب کرایاگیا، اس سے بڑھ کر اور کیا دھاندلی کے ثبوت ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ ایک اچھے انسان ہیں اور ہمارے دوست بھی ہیں مگر انہوں نے بھی نواب اکبرخان بگٹی کی شہادت پر کمیشن بنانے کی بات کی جس پر انتہائی افسوس ہوا، وہ خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جس معاملے کو سرد خانے میں ڈالنا ہو تو اُس پر کمیشن بنائی جاتی ہے، حمودالرحمن کمیشن کا کیا ہوا یہ تمام باتیں صرف دھوکہ دہی پرمبنی ہے ، میں تو شکر کرتا ہوں کہ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے سابقہ حکمرانوں کے روایات کو برقرار نہ رکھتے ہوئے بلوچوں سے معافی نہیں مانگی۔ انہوں نے کہاکہ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ بلوچستان بن تو گئے ہیں کیا اُن کے پاس اختیارات ہیں ماضی اس بات کی خود گواہ ہے کہ صرف عہدہ ملتا رہا ہے مگر اختیارات کا محور کہی اور رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ لاپتہ افراد کا مسئلہ ہو یا مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی جس دن ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ حلف اٹھارہے تھے اُس دن بھی پانچ مسخ شدہ لاشیں ملی اور میراحمدیار خان کے خاندان سے تعلق رکھنے والے فرد میرمحراب خان کو کس بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا اور اُس کی لاش کو نادرا آفس کے پاس پھینک دیا گیا، اب آپ آگے بہتر جانتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کیا کارنامہ انجام دینگے مگر ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کو نامزد کرنے والاوزیراعظم نواز شریف نے تو چاغی میں ایٹمی دھماکہ کرتے ہوئے بلوچ دشمنی کا ثبوت دیا، مجھے تو لگتا ہے کہ نواز شریف کو بھی اعتماد میں نہیں لیاگیا اور ایٹمی دھماکے کئے گئے، انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ سردار اخترجان مینگل سے میں نے ایٹمی دھماکوں کے متعلق پوچھا تھاتو انہوں نے کہاکہ میں اس معاملے سے لاعلم تھا اور نہ ہی مجھ سے پوچھا گیا تھا۔انہوں نے کہاکہ نواب اکبرخان بگٹی کی شہادت سے قبل جب مشاہد حسین اور چوہدری شجاعت نمائندہ بن کر مذاکرات کرنے آئے تھے تو دوبار اُن سے بات چیت ہوئی مگر تیسری بار میرے والد نے مشاہدحسین سے کہاکہ آپ کے پاس اختیارات نہیں کیوں آپ اپنا اور ہمارا وقت ضائع کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نواب اکبرخان بگٹی کی شہادت کسی غار میں نہیں ہوئییہ جھوٹ پر مبنی باتیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ میرے والد نے گیس رائلٹی کیلئے جنگ نہیں کی یہ صرف پروپیگنڈہ ہے جبکہ گیس رائلٹی حکومت بلوچستان کو ملتی رہی ہے نواب اکبرخان نے بلوچ قوم کے حقوق کیلئے جدوجہد کی اس سے پہلے جب ون یونٹ توڑنے کی موومنٹ چل رہی تھی تو میرغوث بخش بزنجو نے کرنسی پر ون یونٹ توڑنے کے نعرے لکھے جس پر انہیں گرفتار کرکے غداری کا مقدمہ درج کیا گیا اور کیس کراچی میں چل رہا تھابلوچ جب بھی اپنے حقوق کی بات کرتا ہے تو اسے غداری کا لقب دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اسٹیبلشمنٹ اب بلوچ اور پشتونوں کو لڑانے کی سازش کرے گی اب یہ منصوبہ کب شروع ہوگا اس کچھ کہہ نہیں سکتا مگر جو حالات پیدا کئے جارہے ہیں اس سے یہی لگتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ پشتون ہر وقت یہی کہتے ہیں کہ جی بلوچستان میں ہمارا استحصال کیاجارہا ہے تو الگ ہوجائیں باقی جوعلاقے متنازعہ ہیں اس پر بیٹھ کر ہم بات چیت کرینگے کیونکہ ہمیں ایک سال ساتھ نہیں رہنا ہے بلکہ مستقبل میں بھی ہمیں پڑوسی بن کر رہنا ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ بلوچ آج بھی تقسیم ہیں اور اُس کی تین وجوہات ہیں، انا، لالچ اور نادانی اِ ن تینوں نقص سے نکل جائیں تو بلوچ آپسی جھگڑے سے نکل کر اپنے حقوق کیلئے مشترکہ جدوجہد کرینگے، میرے والد نے سنگل پارٹی بنانے کا اعلان کیا مگر والد کی شہادت کے بعد اُن کی اپنی پارٹی ہی بکھر گئی ایک دھڑا عالی کے پاس،دوسرا طلال اور نوابزادہ براہمداغ بگٹی نے تو اپنی پارٹی کا نام ہی تبدیل کردیا، جمیل بگٹی نے ہنستے ہوئے کہاکہ جی میں سیاست نہیں کرسکتا۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ میرے والد نے بے شک اپنی حیات کے وقت اپنے جانشین کا اعلان کیا تھا مگر میں نے اُس وقت بھی اختلاف رکھا تھا کہ بگٹی قبائل کا نواب چننے کا حق بگٹی قبائل کے پاس ہے وہ کسی کو بھی چُن لیں وہ ہمارے لئے قابل قبول ہے مگر عالی کو اسٹیبلشمنٹ نے نواب بنادیا جبکہ ہم وہاں جا بھی نہیں سکتے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ ظاہر سی بات ہے کہ نوابزادہ براہمداغ بگٹی کو بیرون ملک جانے پر کسی نے سپورٹ ضرور کیا ہے کہ وہ سوئٹزر لینڈ پہنچیں مگر عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے تحت کام کرتے ہیں وہ یہ نہیں کہتے کہ جی بلوچوں کے ساتھ بہت زیادہ ظلم ہورہا ہے اور رحم کھاکر اُن کی مدد کرینگے بلکہ وہ اپنے مفادات کو اولین ترجیح دینگے ۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں آئے روز ہڑتال سے بلوچ معاشی طور پر کمزور ہورہے ہیں جو صحیح نہیں ہے آج تک ہزاروں کی تعداد میں بلوچ قتل کئے گئے تو پھر سال کے بارہ مہینے ہڑتال کیاجائے تو رہ کیا جائے گا اس سے بہتر ہے مؤثر انداز میں ایک احتجاج ریکارڈ کرایاجائے تاکہ اپنے لوگوں کو تکلیف نہ پہنچیں اور بیزاری کی کیفیت پیدا نہ ہو۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی کاقتل بلوچستان کا مسئلہ نہیں اسے زبردستی یہاں کا ایشو بنایا جارہا ہے یہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ ہونے والے جنگ کے نتیجے میں ہزارہ کمیونٹی کو نشانہ بنایاجارہا ہے دیگر شیعہ برادری کو کیوں نہیں مارا جارہا صرف ہزارہ کمیونٹی کو نشانہ بنایاجارہا ہے یہ تو افغان، طالبان اور ہزارہ کی صدیوں سے چلتاآیا ہوا جنگ ہے ہزارہ کمیونٹی کو افغانستان میں کس لیول پر رکھاگیا ہے خود تاریخ اس بات کی گواہ ہے جب سے چنگیز خان انہیں چھوڑ کر گیا ہے یہ جنگ چلتی آرہی ہے لہٰذا ہزارہ کمیونٹی کی جنگ کو بلوچستان سے جوڑنا غلط ہے۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں جو افغان مہاجرین کی آباد کاری ہوئی اِس کی وجہ آج کے دن ہیں جو الیکشن میں صاف ظاہر ہوئے کہ کوئٹہ کے اردگرد اور کوئٹہ کے اندر کتنے افغان مہاجرین نے ووٹ دیئے اور اِن کو آباد کرنے کا مقصد بھی یہی تھا۔