یہ پالیسی آفیشلی بنا دی گئی ہے؟ترقیاتی کاموں کا ذکر کرنے پہ پابندی
کسی اخبار کی ویب سائٹ پہ ہی دیکھا ہے۔یہ پالیسی آفیشلی بنا دی گئی ہے؟
ابھی سیاسی موسم کے مزاج کے مطابق مزید کارروائیاں ہونے کا شدید امکان ہے۔یعنی کہ دھاندلی بھی دھونس کے ساتھ اور ببانگِ دہل کی جائے گی۔
میڈیا کب اور کہاں غیر جانبدار ہوا کرتا ہے۔ سب بزنس چلا رہے ہیں، جہاں سے کمائی آئے گی، اسی کے گن گائیں گے۔اس میڈیا پہ تو مجھے بہت غصہ ہے۔ ان کی جانبدارانہ پالیسی کی سٹیٹ لیول پہ چھترول ہونی چاہیے۔
غیر جمہوری طرز عمل اپنانے اور اپنے اقدامات پہ شرم و حیا نہیں آتی لیکن خود پہ تنقید برداشت نہیں ہوتی۔
ترقیاتی کام جس علاقے میں ہوتے ہیں وہاں دکھائی دیتے ہیں اور ووٹر کو اشتہار کی ضرورت نہیں ہوتیغیرملکی مبصرین پہ پابندی
ترقیاتی کاموں کا ذکر کرنے پہ پابندی
یعنی کہ دھاندلی بھی دھونس کے ساتھ اور ببانگِ دہل کی جائے گی۔
اضافہمیڈیا کب اور کہاں غیر جانبدار ہوا کرتا ہے۔ سب بزنس چلا رہے ہیں، جہاں سے کمائی آئے گی، اسی کے گن گائیں گے۔
پاکستان یا برصغیر کی جمہوریتوں کے ڈائنامکس کچھ مختلف سے ہیں۔ یہاں قانون ساز اسمبلیاں بلدیاتی نمائندوں والے اضافی کام بھی کرتی ہیں اور انھی ترقیاتی کاموں کو بنیاد بنا کر پارٹیاں اور امیدواران انتخابات میں اترتے ہیں۔ترقیاتی کام جس علاقے میں ہوتے ہیں وہاں دکھائی دیتے ہیں اور ووٹر کو اشتہار کی ضرورت نہیں ہوتی
اسمبلی کا کام قانون سازی ہے وہ کتنی کی یہ بتانے پر پابندی نہیں ہے
ابھی کچھ سال پہلے تک امریکی کانگریس کے ارکان اپنے حلقوں کے لئے ایئرمارکس کراتے تھے جو بنیادی طور پر ترقیاتی کاموں کے فنڈ ہی تھےترقیاتی کام جس علاقے میں ہوتے ہیں وہاں دکھائی دیتے ہیں اور ووٹر کو اشتہار کی ضرورت نہیں ہوتی
اسمبلی کا کام قانون سازی ہے وہ کتنی کی یہ بتانے پر پابندی نہیں ہے
لیکن پھر بھی اس پر پابندی کا جواز نہیں بنتا، عوام بھی پوچھ سکتے ہیں آپ نے پچھلی بار الیکشن میں جو وعدے کئے تھے ان پر کتنا عمل کیا تو جوابا خاموش رہنے کی پابندی تو نہیں لگائی جا سکتی۔ اپنے کارنامے گنوانے پر پابندی نہیں ہونا چاہئے البتہ جھوٹے الزامات اور جھوٹے دعووں پر پابندی ہونا چاہئے۔ترقیاتی کام جس علاقے میں ہوتے ہیں وہاں دکھائی دیتے ہیں اور ووٹر کو اشتہار کی ضرورت نہیں ہوتی
یہ لوگ پارلیمان میں جاتے بھی نہیں، ایسی انگوٹھا چھاپ پارلیمنٹ کا کتنا جواز ہے؟ میرا خیال ہے کہ یہ بات تسلیم کر لینی چاہئے کہ موجودہ پارلیمانی جمہوری نظام جو ہم نے خود پر مسلط کر رکھا ہے وہ ہمارے ملک کو سوٹ نہیں کرتا ۔پاکستان یا برصغیر کی جمہوریتوں کے ڈائنامکس کچھ مختلف سے ہیں۔ یہاں قانون ساز اسمبلیاں بلدیاتی نمائندوں والے اضافی کام بھی کرتی ہیں اور انھی ترقیاتی کاموں کو بنیاد بنا کر پارٹیاں اور امیدواران انتخابات میں اترتے ہیں۔
قانون سازی کرنا اسمبلی کے گنے چنے لوگوں کا کام ہوتا ہے، باقی اکثریتی ممبران پارٹی سربراہ کی ہاں پر آمین کرنے والے ہوتے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کسی بھی قانون پر ووٹنگ کے بعد اس کے حق اور مخالفت میں ووٹ ڈالنے والے ممبران کی اکثریت کو یہ بھی علم نہیں ہو گا کہ انھوں نے جس قانون پر ووٹ دیا ہے اس کے خدو خال کیا ہیں اور اس سے قوم کو کیا فائدہ ہوگا۔
ایسے قانون سازوں سے سرکاری نوکریاں, گلیاں، نالیاں، بجلی، گیس، سیوریج، پانی اور تھانہ کچہری جیسے مسائل ہی حل کروائے جا سکتے ہیں۔
صرف پاکستان میں ہی یہ نظام چل سکتا ہےیہ لوگ پارلیمان میں جاتے بھی نہیں، ایسی انگوٹھا چھاپ پارلیمنٹ کا کتنا جواز ہے؟ میرا خیال ہے کہ یہ بات تسلیم کر لینی چاہئے کہ موجودہ پارلیمانی جمہوری نظام جو ہم نے خود پر مسلط کر رکھا ہے وہ ہمارے ملک کو سوٹ نہیں کرتا ۔
تو پھر بلدیاتی نمائندوں سے ہی کام چلا لیا جائے اگر ارکان پارلیمنٹ کو نالیاں اور گلیاں ٹھیک کرانے میں ہی دلچسپی ہے تاکہ ٹھیکیداروں سے کمیشن لیا جا سکے!صرف پاکستان میں ہی یہ نظام چل سکتا ہے
جس ملک میں جیسا حاکم ہوتا ہے وہ ملک اسی کے لائق ہوتا ہے
ایک خاص حد سے بڑے انفراسٹرکچر پراجیکٹ مقامی بلدیاتی اداروں کے دائرہ کار سے باہر ہوتے ہیں۔ ان کی بابت فیصلہ کرنے میں مقننہ کا کردار یا عمل دخل غلط نہیں ہے۔ تاہم گلیاں پکی کرانا یا واٹر سپلائیاں لگوانا یقیناؐ بلدیاتی لیول کا کام ہے۔تو پھر بلدیاتی نمائندوں سے ہی کام چلا لیا جائے اگر ارکان پارلیمنٹ کو نالیاں اور گلیاں ٹھیک کرانے میں ہی دلچسپی ہے تاکہ ٹھیکیداروں سے کمیشن لیا جا سکے!
یہ پارلیمان کے الیکشن پر قوم کے اربوں روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔؟