پلڈاٹ کی گیارہ نکاتی تجزیاتی رپورٹ - 28 مئی 2018

فاخر رضا

محفلین
تو پھر بلدیاتی نمائندوں سے ہی کام چلا لیا جائے اگر ارکان پارلیمنٹ کو نالیاں اور گلیاں ٹھیک کرانے میں ہی دلچسپی ہے تاکہ ٹھیکیداروں سے کمیشن لیا جا سکے!
یہ پارلیمان کے الیکشن پر قوم کے اربوں روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔؟
آپ پل اور ہائی وے بنوالیں گے ان سے
تبدیلی ایک دم نہیں آتی
عوام پر بھی محنت کرنی ہے اور کوشش بھی جاری رکھنی ہے
 
ایک خاص حد سے بڑے انفراسٹرکچر پراجیکٹ مقامی بلدیاتی اداروں کے دائرہ کار سے باہر ہوتے ہیں۔ ان کی بابت فیصلہ کرنے میں مقننہ کا کردار یا عمل دخل غلط نہیں ہے۔ تاہم گلیاں پکی کرانا یا واٹر سپلائیاں لگوانا یقیناؐ بلدیاتی لیول کا کام ہے۔
ارے یاز بھائی یہ بات میں اچھی طرح جانتا ہوں مگر جب ارکین پارلیمان اپنا رویہ ہی بلدیاتی ارکان جیسا رکھیں گے تو یہی کہنا پڑے گا ۔ بڑے پراجیکٹس یا قومی پالیسیوں پر اراکین پارلیمان کتنی گفتگو کرتے ہیں؟ اور جس قانون پر ہاں یا ناں کر رہے ہوتے ہیں اس کی کتنی سنجیدگی سے پڑھتے ہیں؟ اور اس قانون کو سمجھنے کی کتنی اہلیت رکھتے ہیں؟ آپ ارکان کی حاضری چیک کر لیں اور حاضر ہونے والے ارکان کی گفتگو کا ریکارڈ نکال کر دیکھ لیں کی کس ایشو پر کتنے ارکان نے کتنی گفتگو کی؟ اپنے حلقے کے عوام کی کتنی نمائندگی کی؟ ان حقیقی نا اہل ارکان کی سوچ گلیاں پکی کرانے اور گٹر بنوانے سے زیادہ نہیں ہوتی اور اس کی وجہ بھی یہ ہوتی ہے کہ اس کام سے ٹھیکیداروں سے ان کا پیسہ ملتا ہے۔
 
آپ پل اور ہائی وے بنوالیں گے ان سے
پالیسی پر بات تو کر سکتے ہیں؟ ہر اجلاس میں حاضر ہو سکتے ہیں یا نہیں؟
تبدیلی ایک دم نہیں آتی
کتنا وقت ان کو چاہئے میچور ہونے کے لئے؟
میں یہ سمجھتا ہوں کہ خرابی نظام میں ہے
 

محمداحمد

لائبریرین
قانون سازی کرنا اسمبلی کے گنے چنے لوگوں کا کام ہوتا ہے، باقی اکثریتی ممبران پارٹی سربراہ کی ہاں پر آمین کرنے والے ہوتے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کسی بھی قانون پر ووٹنگ کے بعد اس کے حق اور مخالفت میں ووٹ ڈالنے والے ممبران کی اکثریت کو یہ بھی علم نہیں ہو گا کہ انھوں نے جس قانون پر ووٹ دیا ہے اس کے خدو خال کیا ہیں اور اس سے قوم کو کیا فائدہ ہوگا۔

اسی لئے مجھے یہ جمہوری نظام زہر لگتاہے کہ اس میں collective wisdom کا کوئی کام نہیں ہے اور سارے فیصلے پارٹیز کے سربراہ کرتے ہیں۔ او ر جو یقیناً بد دیانت اور مفاد پرست ہیں۔
 

یاز

محفلین
ارے یاز بھائی یہ بات میں اچھی طرح جانتا ہوں مگر جب ارکین پارلیمان اپنا رویہ ہی بلدیاتی ارکان جیسا رکھیں گے تو یہی کہنا پڑے گا ۔ بڑے پراجیکٹس یا قومی پالیسیوں پر اراکین پارلیمان کتنی گفتگو کرتے ہیں؟ اور جس قانون پر ہاں یا ناں کر رہے ہوتے ہیں اس کی کتنی سنجیدگی سے پڑھتے ہیں؟ اور اس قانون کو سمجھنے کی کتنی اہلیت رکھتے ہیں؟ آپ ارکان کی حاضری چیک کر لیں اور حاضر ہونے والے ارکان کی گفتگو کا ریکارڈ نکال کر دیکھ لیں کی کس ایشو پر کتنے ارکان نے کتنی گفتگو کی؟ اپنے حلقے کے عوام کی کتنی نمائندگی کی؟ ان حقیقی نا اہل ارکان کی سوچ گلیاں پکی کرانے اور گٹر بنوانے سے زیادہ نہیں ہوتی اور اس کی وجہ بھی یہ ہوتی ہے کہ اس کام سے ٹھیکیداروں سے ان کا پیسہ ملتا ہے۔
آپ کی بات بالکل درست ہے۔ اراکینِ پارلیمنٹ کا ہمارے نظام میں ایک ہی اہم اور مفید کام ہے۔ اور وہ ہے اپنے اپنے علاقے کی نمائندگی کرنا۔ اگر سوچا جائے تو یہ بھی اہم اور ضروری کام ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
آپ کی بات بالکل درست ہے۔ اراکینِ پارلیمنٹ کا ہمارے نظام میں ایک ہی اہم اور مفید کام ہے۔ اور وہ ہے اپنے اپنے علاقے کی نمائندگی کرنا۔ اگر سوچا جائے تو یہ بھی اہم اور ضروری کام ہے۔

تو پھر صدارتی نظام ہی بہتر ہوا۔

ان لوگوں پر اتنا زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ سفید ہاتھیوں کے ریوڑ رکھنے پر بھی کچھ نہ کچھ خرچہ بچ رہے گا۔

کام کے نہ کاج کے ۔۔۔
 
تو پھر صدارتی نظام ہی بہتر ہوا۔

ان لوگوں پر اتنا زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ سفید ہاتھیوں کے ریوڑ رکھنے پر بھی کچھ نہ کچھ خرچہ بچ رہے گا۔

کام کے نہ کاج کے ۔۔۔
نظام کچھ ایسا ہو کہ صدر براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو اور ارکان پارلیمان اسے بلاوجہ بلیک میل نہ کر سکیں ۔ پارلیمان بھی ضرور ہو قانون سازی کے لئے مگر یوں کہ خلاف شریعت کوئی قانون نہ بن سکے اور ارکان پارلیمان صدر کے پاس کرپشن کی گنجائش نہ ہو۔
 

یاز

محفلین
نظام کچھ ایسا ہو کہ صدر براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو اور ارکان پارلیمان اسے بلاوجہ بلیک میل نہ کر سکیں ۔ پارلیمان بھی ضرور ہو قانون سازی کے لئے مگر یوں کہ خلاف شریعت کوئی قانون نہ بن سکے اور ارکان پارلیمان صدر کے پاس کرپشن کی گنجائش نہ ہو۔
یعنی کہ۔۔۔۔فیر انکار ای سمجھئے؟
 
Top