پہلا سبق
دُوجا حصہ
مزید الفاظ
دُوجا = دوسرا
دُوجا کو 'دُوآ ' بھی کہا جاتا ہے۔
ہا = ہاں
نئِیں = نہیں
سَکُول = سکول
اُستاد = استاد
کالَج = کالج
ہَسپَتال = ہسپتال
کوٹھا، کمرہ = کمرہ ، (جمع: کوٹھے)
پَہاڑ = پہاڑ
کَپڑے = کپڑے
اُچّا = اُونچا ، (ج: اُچّے)
جھِکّا= نیچا، (ج: جھِکّے)
کِتاب = کتاب ، (ج: کتاباں )
اَکھ = آنکھ (ج: اَکھِیاں ، اکھّاں)
بوری = بوری (ج: بورِیاں )
ٹوپی = ٹوپی (ج: ٹوپِیاں )
کی؟ / کِیہْ؟ = کیا؟ (What?)
'کی؟ 'دراصل 'کِیہ؟' کی مختصر شکل ہے۔
سوالیہ جملے دیکھیے
اے سَکُول اے؟ = کیا یہ سکول ہے؟
ہا اے سکول اے = ہاں یہ سکول ہے۔
او ہَسپَتال اے؟ = کیا وہ ہسپتال ہے؟
نئِیں، او ہسپتال نئیں، کالَج اے = نہیں وہ ہسپتال نہیں ، کالج ہے۔
ان مثالوں میں آپ نے دیکھا کہ پنجابی میں سوالیہ جملے کے شروع میں عام طور پر 'کیا' استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ بولتے ہوئے لہجے یا ٹون سے جملے کے سوالیہ ہونے کا پتا چلتا ہے۔
نیں کا مختصر ہو کر 'ن رہ جانا:
عام بول چال میں نیں مختصر ہو کر صرف ن کی شکل اختیار کر کے اپنے سے پہلے لفظ کے ساتھ مل جاتا ہے۔ مثالیں دیکھیے:
پہاڑ اُچّے'ن (تلفظ: پہاڑ اُچّین) = پہاڑ اُچّے نیں = پہاڑ اُونچے ہیں۔
کوٹھے جھِکّے'ن (تلفظ: کوٹھے جھِکّین) = کمرے نیچےہیں۔
اے کپڑے'ن = یہ کپڑے ہیں۔
'ن سے پہلے آنے والا لفظ ں پر ختم ہو تو یہ ن اس ں کی جگہ لے لیتا ہے:
اے کتابان = اے کتاباں نیں = یہ کتابیں ہیں۔
اے اَکھِیان = اے اَکھِیاں نیں = یہ آنکھیں ہیں۔
او بورِیان = او بورِیاں نیں = وہ بوریاں ہیں۔
'ن سے پہلے صحیحہ (consonant) ہو تو اس سے پہلے حرف پر زیر لگتی ہے:
اے سکولِ'ن (تلفظ: اے سَکُولِن) = اے سکول نیں = یہ سکول ہیں
او اُستادِ'ن (تلفظ: او اُستادِن) = او استاد نیں = وہ استاد ہیں
بعض لوگ بولتے ہوئے 'ن سے پہلے زیر نہیں لگاتے۔
اے سکول'ن (تلفظ: اے سَکُولْن) = یہ سکول ہیں
او اُستاد'ن (تلفظ: او اُستادْن) = وہ استاد ہیں
نیں کی جگہ 'ہَن' کا استعمال:
مشرقی پنجاب کی نشریات/ ویڈیوؤں میں اور بعض تحریروں میں بھی نیں (ہیں) کی جگہ ہَن بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً
اے ٹوپِیاں ہَن = یہ ٹوپیاں ہیں
او آئے ہوئے (hoe) ہَن = او آئے ہوئے (hoe) نیں = او آئے ہوئے 'ن(hoen) = وہ آئے ہوئے (hu.e) ہیں۔
اسی طرح گُرمکھی میں 'اے' کی جگہ 'ہَے' لکھا جاتا ہے لیکن ادا عموماً 'اے' کیا جاتا ہے۔
خاص اسمائے اشارہ (اَیہہ اور اَؤہ):
'اے' قریب کے لیے اور 'او' دور کے لیے عام اسمائے اشارہ ہیں۔
ان کے علاوہ دو خاص اسمائے اشارہ بھی ہیں 'اَیہہ' اور'اَؤہ' ۔ اَیہہ قریب کے لیے اور اَؤہ دور کے لیے۔ یہ زیادہ زوردار ہیں اور ان کے ساتھ ہاتھ یا آنکھ یا جسم کے کسی اور حصے کے ساتھ اشارہ بھی شامل ہوتا ہے۔ جبکہ اے اور او کے ساتھ ہاتھ یا آنکھ کا اشارہ ضروری نہیں۔
اَیہہ کی اے؟ = یہ کیا ہے؟
اے بستہ اے = یہ بستہ ہے۔
'اَیہہ' اور'اَؤہ' کا مزید استعمال آگے مناسب موقع پر بتایا جائے گا۔
اَیہہ اور اَیہْن (موجود ہے اور موجود ہیں کے معنوں میں):
اردو 'ہے' کے لیے پنجابی میں دو الفاظ استعمال ہوتے ہیں ایک 'اے' جو عام مفہوم میں استعمال ہوتا ہے اور دوسرا 'اَیہہ'(aeh) جو 'موجود ہے' یا 'پاس ہے' کے مفہوم کے لیے استعمال ہوتا ہے۔اردو میں اس مفہوم کے لیے 'ہے' زوردار انداز میں ادا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح جمع کے لیے 'اَیہْن' (aehn) (موجود ہیں/ پاس ہیں) استعمال ہوتا ہے۔
اے کِتاب اے = یہ کتاب ہے
کِتاب اَیہہ = کتاب موجود ہے/کتاب پاس ہے
کِتاباں اَیہْن= کتابیں موجود ہیں/ کتابیں پاس ہیں۔
اَیہہ کو 'ایہْ' (eh) اور اَیہن کو 'اِہْن '(ehn)بھی ادا کیا جاتا ہے۔
اس کا مزید استعمال بھی آگے مناسب موقع پر بتایا جائے گا۔
بول چال کا ایک اور نکتہ:
عام بول چال میں اے (ہے)، او (ہو)، ایں ((تُو )ہے)، آں (ہُوں، (ہم) ہیں) اپنے سے پہلے لفظ کے ساتھ ہی ادا ہوتے ہیں یعنی ان کے اور ان سے پہلے کے لفظ کے درمیان لفظ کی حد (word boundary) ختم ہو جاتی ہے۔ مثلاً 'اے کتاب اے' کو 'اے کِ.تاب.اے' ادا کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اس طرح جملہ کبھی 'اے کتابئے' بھی لکھا ہوا نظر آسکتا ہے۔ لیکن ہم اس طرح کے جملوں کو 'اے کتاب اے' کی طرز پر ہی لکھیں گے۔