پنجابی بذریعہ انگریزی

منہاجین

محفلین
ایک انگریز کو پنجابی سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ کسی نے اسے بتایا کہ 36 چک کے قدیم بزرگ پنجابی کی تعلیم دیتے ہیں۔

ایک دن انگریز نے بس پر سوار ہو کر 36 چک کی راہ لی۔ بس نے اسے جس جگہ اتارا 36 چک وہاں سے ایک گھنٹے کی پیدل مسافت پر تھا۔ انگریز بس سے اتر کر 36 چک کی طرف چل پڑا۔

تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ اس نے ایک کسان کو فصل کاٹ کر اس کے گٹھے بناتے دیکھا۔

انگریز نے پوچھا: oh man تم یہ کیا کرتا؟
کسان نے جواب دیا: گورا صاب! ہم فصل وٹتا۔
انگریز بولا: oh man تم crop کرنا کو what بولتا۔

انگریز آگے چل دیا۔ آگے ایک شخص وان وٹ رہا تھا۔

انگریز نے پوچھا: oh man تم یہ کیا کرتا؟
اس آدمی نے جواب دیا: گورا صاب! ہم وان وٹتا۔
انگریز بولا: oh man تم twist کرنا کو what بولتا۔

انگریز اس شخص کو چھوڑ کر آگے چلا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک دکاندار اداس بیٹھا ہے۔

انگریز نے پوچھا: oh man تم اداس کیوں بیٹھا؟
دکاندار بولا: گورا صاب! سویر دا کج وی نئیں وٹیا۔
انگریز بولا: oh man تم earning کو what بولتا۔

انگریز اسے چھوڑ کر کچھ اور آگے چلا تو ایک شخص کو دیکھا جو پریشانی کے عالم میں آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔

انگریز نے پوچھا: oh man کیا ہوا؟
وہ شخص بولا: گورا صاب اج بڑا وٹ ہے۔
انگریز بولا: oh man تم humidity کو what بولتا۔

انگریز اسے چھوڑ کر آگے چلا۔ سامنے چودھری کا بیٹا کلف لگے کپڑے پہنے چلا آ رہا تھا۔ انگریز اس سے گلے ملنے کے لئے آگے بڑھا۔

وہ لڑکا بولا: گورا صاب! ذرا آرام نال، کپڑیاں نوں وٹ ناں پا دینا۔
انگریز بولا: oh man تم wrinkles کو what بولتا۔

کچھ آگے جا کر انگریز کو ایک شخص پریشانی کے عالم میں لوٹا پکڑے کھیتوں کی طرف بھاگتا ہوا نظر آیا۔

انگریز نے کہا: oh man ذرا بات تو سنو۔
وہ شخص بولا: گورا صاب واپس آ کر سنتا ہوں، بڑے زور کا وٹ پیا ہے۔
انگریز بولا: oh man تم loose motion کو what بولتا۔

تھوڑا آگے جانے پر انگریز کو ایک بزرگ حقہ پکڑے سامنے سے آتا دکھائی دیا۔

قریب آنے پر انگریز نے پوچھا: oh man یہ 36 چک کتنی دور ہے؟
وہ بولا: وٹو وٹ ٹری جاؤ، زیادہ دور نئیں ہے۔
انگریز بولا: oh man تم path کو what بولتا۔

آگے چلا تو کیا دیکھا کہ دو آدمی آپس میں بری طرح لڑ رہے ہیں۔

گورا لڑائی چھڑانے کے لئے آگے بڑھا تو ان میں سے ایک بولا: گورا صاب تسی وچ نہ آؤ میں اج ایدھے سارے وٹ کڈ دیاں گا۔
انگریز بولا oh man تم immorality کو what بولتا۔

انگریز نے لڑائی بند کرانے کی غرض سے دوسرے آدمی کو سمجھانے کی کوشش کی تو وہ بولا: او جان دیو بادشاؤ، مینوں تے آپ ایدھے تے بڑا وٹ اے۔
انگریز بولا: oh man تم mercilessness کو what بولتا۔

قریب ایک آدمی کھڑا لڑائی دیکھ رہا تھا۔

وہ بولا: گورا صاب! تسی اینوں لڑن دیو ایدھے نال پنگا لتا تے تہانوں وی وٹ کے چپیڑ کڈ مارے گا۔
انگریز بولا: oh man تم fighting کو what بولتا۔

لاچار انگریز آگے چل دیا۔ تھوڑی دور گیا تو کیا دیکھا کہ ایک شخص گم سم بیٹھا ہے۔

انگریز نے پوچھا: یہ آدمی کس سوچ میں ڈوبا ہے؟
جواب ملا: گورا صاب! یہ بڑا میسنا ہے، یہ دڑ وٹ کے بیٹھا ہے۔
انگریز بولا: oh man تم silent کو what بولتا۔

بالآخر انگریز نے یہ کہتے ہوئے واپسی کی راہ لی:
what a comprehensive language, I cant learn it
 

شعیب صفدر

محفلین
خوب

اچھا ہے۔۔کافی اچھا ہے۔۔۔۔ میل میں آپ کی جانب سے ملا تھا اس وقت بھی پڑھ کر اچھا لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
hideingbhindcurtian.gif
 

منہاجین

محفلین
پردے کو رہنے دو ۔ ۔ ۔

اگر واقعی "اچھا ہے" تو پھر آپ کو پردے کے پیچھے چھپنے کی کیا ضرورت ہے؟ ایسی بات میں ندامت کیسی؟ یہی بات آپ سامنے آ کر بھی تو کہہ سکتے ہو۔ :roll:
 

تلمیذ

لائبریرین
شعیب سعید شوبی نے کہا:
بہت عمدہ لطیفہ ہے!۔۔۔۔۔۔۔پڑھ کر بڑا مزا آیا!

میں تو اسے لطیفے سے بڑھ کر پنجابی زبان کی فصاحت اور بلاغت کی ایک بہترین مثال سمجھتا ہوں یعنی ایک لفظ ‘وٹ‘ کے اتنے معانی ۔

منہاجین ، زبردست دریافت ہے آپکی !!
 

منہاجین

محفلین
سراہنے کا شکریہ

سراہنے کا شکریہ، یہ واقعی اس زبان کی وسعت ہے۔ یہ لطیفہ تو مجھے بنا بنایا ملا تھا، البتہ اس میں 3 عدد "وٹ" میری طرف سے اضافہ ہوئے ہیں۔ اگر آپ میں سے کسی صاحب کو کسی ایسے "وٹ" کی خبر ہو جسے یہاں استعمال نہ کیا گیا ہو تو ضرور بتایئے گا تاکہ "وٹ" کی فہرست بقول دوست 36 تک پہنچ سکے۔ شکریہ
 
ایک بہت پرانی یاد تازہ ہو گئی، اگرچہ اس کا تعلق انگریزی سے نہیں ۔
اوکاڑہ سے راوی کے کناروں پر آباد (ہٹھاڑ کے علاقے میں) ایک گاؤں ہے ’’بھوجیاں‘‘۔ میرے کچھ عزیز وہاں رہتے ہیں۔ پہلی بار اُن کے ہاں جانا ہوا۔ راستہ میرے لئے اجنبی تھا۔ ’’نزدیک ترین‘‘ بس سٹاپ سے آگے پگڈنڈی جاتی تھی، مجھے بتایا گیا تھا کہ گاؤں بس سٹاپ سے کوئی ایک کوس (میل، ڈیڑھ میل) کے فاصلے پر ہے۔
میں پگڈنڈی پر چل پڑا، ریتلی اور ہلکی میرا زمین کے سپاٹ ہموار کھیتوں میں کہیں کہیں چھوٹے قد کے درخت تھے، منظر بہت کھلا تھا، نگاہ بہت دور تک جاتی تھی۔ مجھے دور دور تک کسی گاؤں کے آثار دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ اپنے اندازے کے مطابق کوئی دو میل چلنے کے بعد، میں تو پریشان ہو گیا کہ کسی غلط راستے پر تو نہیں آن پڑا؟۔ اور تو اور، رستے میں کہیں کوئی کھالا، نہر، راجباہ، ٹیوب ویل، رہٹ وغیرہ بھی تو کوئیی نہیں آیا۔ اب کوئی بندہ بشر دکھائی دے تو اس سے پوچھوں!۔
خیر، میں چلتا رہا، چلتا رہا۔ مجھے ایک شخص کھیتوں میں کام کرتا ہوا دکھائی دیا۔ مجھے ہٹھاڑھ کے مقامی لہجے سے کچھ کچھ شناسائی رہی ہے۔ میں نے اُس شخص سے پوچھا: ’’او بھائیا! میں بھوجیاں جاونا اے‘‘۔ کہنے لگا: ’’نک دی سیدھ وگیا جا!‘‘۔ کہا: ’’کناں کو پدھ اے؟‘‘ بولا: ’’آہیو کوہ اک ہوسی!‘‘ ۔ یا اللہ ابھی ایک کوس اور باقی ہے؟ یا تو یہاں کے کوس زیادہ بڑے ہیں یا ان لوگوں کے قدم!۔

کوئی میل پر فاصلہ اور طے کیا۔ وہی فاخ ویرانی، کسی بستی یا گاؤں کے کوئی آثار نہیں! البتہ ایک ٹیوب ویل دکھائی دیا۔ میں نے سب سے پہلے تو جی بھر کے پانی پیا، اور وہاں موجود ایک نوجوان سے پوچھا: ’’بھائیا! بھوجیاں نوں آہیو راہ ویہندا اے؟‘‘ بولا: ’’ہاؤ‘‘۔ پوچھا: ’’کناں کو پدھ ہوسی؟‘‘ بولا: ’’آہیو کوہ اک ہوسی!‘‘۔ اپنے تو طوطے چڑیاں سب کچھ اُڑ گئے۔ مگر اور کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔ چلتا رہا، چلتا رہا۔اس نوجوان کا بتایا ہوا ایک کوس ختم ہونے سے پہلے ایک گاؤں کے مکانات دکھائی دئے۔ خاصی بے چینی کے اس عالم میں میرے قدم یقینآ تیز ہو گئے ہوں گے۔
گاؤں میں داخل ہوا تو جو پہلا آدمی ملا اس سے پوچھا ’’ایہ بھوجیاں اے؟‘‘۔ ڈر رہا تھا وہ یہ نہ کہہ دے کہ ’نائیں! بھوجیاں، اگانھ اے‘۔ مگر اس نے کہا ’’ہا! ایہ بھوجیاں اے، کدھے جاونا ای‘‘۔ میں نے اپنے عزیزوں میں بڑے بھائی کا نام بتایا تو وہ شخص میرے ساتھ ہو لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
قصہ باقی!، پھر کبھی سہی۔ !!۔
 
قصہ باقی!، پھر کبھی سہی۔ !!۔

ایک گلی کے موڑ پر شفیع بھائی سے ملاقات ہو گئی۔ علیک سلیک ہوئی اور وہ مجھے لے کر گھر کو واپس ہو لئے۔

اتفاق دیکھئے کہ اُس دِن میں نے سرمئی رنگ کا ہلکا سا کوٹ اور پتلون پہن رکھی تھی۔ راستے میں ایک شخص ملا اور شفیع بھائی سے کہنے لگا: ’’ایہ سپاہٹا کدھاؤں لتھا ای چوہدری؟ خیر اے؟‘‘ (خیریت تو ہے چوہدری؟ یہ پولیس والا کہاں سے نازل ہو گیا؟)۔ شفیع بھائی نے تنک کر جواب دیا: ’’سپاہٹا نہیں اوئے، بھرا اے میرا!‘‘ شفیع بھائی مجھے اس مختصر سی گفتگو کا ترجمہ بتانے والے تھے، میں نے انہیں بتا دیا کہ پوری بات میری سمجھ میں آ گئی ہے۔
اِن جملوں سے آپ اُن لوگوں کی طرزِ معاشرت کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں۔
 
Top