محمد وارث
لائبریرین
آج، 17 دسمبر کے "دی نیوز" میں پنجاب میں بچوں کی تعلیمی استعداد کے متعلق ایک رپورٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔
یہ رپورٹ Punjab Education Assessment System نے تیار اور شائع کی ہے۔ اسکے مطابق پنجاب میں سرکاری اسکولوں کے درجہ چہارم کے طالب علموں کی چار مضامین، ریاضی، سائنس، معاشرتی علوم اور اردو میں تعلیمی قابلیت کا جائزہ لیا گیا، اسکے کچھ نتائج اسطرح سے ہیں۔
- شہری طالب علموں کی قابلیت دیہاتی طالب علموں کے مقابلے میں بہتر پائی گئی۔
- لڑکیوں کی تعلیمی قابلیت چاروں مضامین میں لڑکوں کے مقابلے میں بہتر پائی گئی۔
- ان بچوں کی تعلیمی قابلیت جن کو گھر میں انکے والدین یا اساتذہ پڑھاتے ہیں دوسروں کے مقابلے میں بہتر پائی گئی۔
- چالیس فی صد بچوں نے کہا کہ وہ نصاب کے علاوہ غیر نصابی کتب/کہانیاں بھی پڑھتے ہیں لیکن ان بچوں کی تعلیمی قابلیت دوسروں بچوں کے مقابلے میں کم پائی گئی۔ رپورٹ میں اس حوالے سے یہ نتیجہ بھی نکالا گیا ہے کہ بچوں کو مہیا ہونیوالی غیر نصابی کتب انتہائی غیر معیاری ہیں جس سے انکے شعور میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔
- 78 فی صد بچوں نے کہا کہ انہیں جسمانی سزا نہیں دی جاتی، 20 فی صد نے کہا کہ انکو کبھی کبھار جسمانی سزا دی جاتی ہے جب کہ 1٫4 فی صد بچوں نے کہا انہیں بہت زیادہ اور متواتر جسمانی سزا دی جاتی ہے۔
- جسمانی سزا پانے والے بچوں کی قابلیت دوسروں کے مقابلے میں کم پائی گئی۔
- سرائیکی بولنے والے بچوں نے ریاضی، سائنس اور معاشرتی علوم میں پنجابی بولنے والے بچوں کے مقابلے میں بہتر قابلیت کا مظاہرہ کیا۔
- مزید نتائج کے مطابق، ٹیکنیکل نوکریوں والے لوگ اور اچھی تنخواہ یا آمدن والے لوگ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں نہیں پڑھاتے۔
پورے پاکستان اور پنجاب میں سرکاری اسکولوں کی حالت انتہائی نا گفتہ بہ ہے جسکا کوئی پرسانِ حال نہیں اور اگر کوئی کام ہوتا بھی ہے تو صرف اشک شوئی کیلیئے۔ پنجاب میں تعلیم کے حوالے سے سابق وزیر اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے کئی اقدامات کئے تھے جیسے سرکاری اسکولوں میں مفت تعلیم اور مفت کتابیں وغیرہ اور ایک نعرہ بھی دیا تھا "پڑھا لکھا پنجاب"۔ ان اقدامات نے پنجاب میں شرح خواندگی بہتر کرنے میں کس حد تک کردار ادا کیا ہے یہ تو شاید کچھ عرصہ کے بعد علم ہوگا لیکن بقول عمران خان کے کہ جتنی رقم انہوں نے تعلیم پر صرف کی اس سے دس گنا اپنی تشہیر پر صرف کردی اور یہ بات صحیح بھی ہے۔
"پڑھا لکھا پنجاب" کے حوالے سے چند ماہ قبل کا ایک کارٹون یاد آگیا، رمضان میں پنجاب میں آٹے کا بحران چل رہا تھا (آج کل پھر چل رہا ہے)، ایک سیکرٹری صاحب وزیر اعلٰی کو فرماتے ہیں کہ سر لوگوں کے پاس کھانے کیلیئے آٹا نہیں ہے تو جواب ملتا ہے کہ میں نے "پڑھا لکھا پنجاب" کہا تھا "کھاتا پیتا پنجاب" نہیں۔
۔
یہ رپورٹ Punjab Education Assessment System نے تیار اور شائع کی ہے۔ اسکے مطابق پنجاب میں سرکاری اسکولوں کے درجہ چہارم کے طالب علموں کی چار مضامین، ریاضی، سائنس، معاشرتی علوم اور اردو میں تعلیمی قابلیت کا جائزہ لیا گیا، اسکے کچھ نتائج اسطرح سے ہیں۔
- شہری طالب علموں کی قابلیت دیہاتی طالب علموں کے مقابلے میں بہتر پائی گئی۔
- لڑکیوں کی تعلیمی قابلیت چاروں مضامین میں لڑکوں کے مقابلے میں بہتر پائی گئی۔
- ان بچوں کی تعلیمی قابلیت جن کو گھر میں انکے والدین یا اساتذہ پڑھاتے ہیں دوسروں کے مقابلے میں بہتر پائی گئی۔
- چالیس فی صد بچوں نے کہا کہ وہ نصاب کے علاوہ غیر نصابی کتب/کہانیاں بھی پڑھتے ہیں لیکن ان بچوں کی تعلیمی قابلیت دوسروں بچوں کے مقابلے میں کم پائی گئی۔ رپورٹ میں اس حوالے سے یہ نتیجہ بھی نکالا گیا ہے کہ بچوں کو مہیا ہونیوالی غیر نصابی کتب انتہائی غیر معیاری ہیں جس سے انکے شعور میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔
- 78 فی صد بچوں نے کہا کہ انہیں جسمانی سزا نہیں دی جاتی، 20 فی صد نے کہا کہ انکو کبھی کبھار جسمانی سزا دی جاتی ہے جب کہ 1٫4 فی صد بچوں نے کہا انہیں بہت زیادہ اور متواتر جسمانی سزا دی جاتی ہے۔
- جسمانی سزا پانے والے بچوں کی قابلیت دوسروں کے مقابلے میں کم پائی گئی۔
- سرائیکی بولنے والے بچوں نے ریاضی، سائنس اور معاشرتی علوم میں پنجابی بولنے والے بچوں کے مقابلے میں بہتر قابلیت کا مظاہرہ کیا۔
- مزید نتائج کے مطابق، ٹیکنیکل نوکریوں والے لوگ اور اچھی تنخواہ یا آمدن والے لوگ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں نہیں پڑھاتے۔
پورے پاکستان اور پنجاب میں سرکاری اسکولوں کی حالت انتہائی نا گفتہ بہ ہے جسکا کوئی پرسانِ حال نہیں اور اگر کوئی کام ہوتا بھی ہے تو صرف اشک شوئی کیلیئے۔ پنجاب میں تعلیم کے حوالے سے سابق وزیر اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے کئی اقدامات کئے تھے جیسے سرکاری اسکولوں میں مفت تعلیم اور مفت کتابیں وغیرہ اور ایک نعرہ بھی دیا تھا "پڑھا لکھا پنجاب"۔ ان اقدامات نے پنجاب میں شرح خواندگی بہتر کرنے میں کس حد تک کردار ادا کیا ہے یہ تو شاید کچھ عرصہ کے بعد علم ہوگا لیکن بقول عمران خان کے کہ جتنی رقم انہوں نے تعلیم پر صرف کی اس سے دس گنا اپنی تشہیر پر صرف کردی اور یہ بات صحیح بھی ہے۔
"پڑھا لکھا پنجاب" کے حوالے سے چند ماہ قبل کا ایک کارٹون یاد آگیا، رمضان میں پنجاب میں آٹے کا بحران چل رہا تھا (آج کل پھر چل رہا ہے)، ایک سیکرٹری صاحب وزیر اعلٰی کو فرماتے ہیں کہ سر لوگوں کے پاس کھانے کیلیئے آٹا نہیں ہے تو جواب ملتا ہے کہ میں نے "پڑھا لکھا پنجاب" کہا تھا "کھاتا پیتا پنجاب" نہیں۔
۔