انہوں نے کہا کہ ملک کی موجودہ صورتحال اور طالبانائزیشن کی یلغار کو روکنے کے لیے پنجابی زبان نہ صرف موثرثابت ہو گی بلکہ ملائیت کے خاتمے کا بھی سبب بنے گی۔
ملک کی موجودہ صورتحال وغیرہ وغیرہ سے نکلنے میں پنجابی کیسے موثر ہوسکتی ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ کسی قوم کے اندر اپنی شناخت کا شعور جب بھی پختہ ہوتا ہے وہ غیرملکی اثرات کے خلاف جدوجہد پر خودبخود آمادہ ہو جاتی ہے۔ پنجاب میں اس وقت طالبانی عناصر کے عروج کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پنجاب باقی صوبوں کی بہ نسبت اپنی ثقافتی اور لسانی پہچان سب سے زیادہ کھو چکا ہے۔ پرانے پنجاب سے (خادمِ اعلیٰ کے بقول) پیرس تک کے سفر میں جو تہذیبی خلا پیدا ہوا ہے اس نے خارجی عناصر کو پاؤں جمانے میں بہت مدد دی ہے۔
اگر پنجابی تہذیب کے احیا کا بیڑا کسی بھی صورت میں اٹھایا جاتا ہے تو گمان کیا جا سکتا ہے کہ یہ شعور اہلِ پنجاب میں دوبارہ سے جڑ پکڑ لے گا کہ مذہبی شدت پسندی کبھی بھی ہمارا خاصہ نہیں رہی۔ پنجابی زبان میں تعلیم لازمی طور پر سماجی عصبیت (social solidarity) کو فروغ دے گی جو فتنہ پردازوں کے حق میں سمِ قاتل ثابت ہو سکتی ہے۔ ماہرینِ عمرانیات اس بات پر متفق ہیں کہ سماج کا تانا بانا جب مضبوط ہوتا ہے تو بیرونی عناصر سے اثر پزیری ایک صحت مند حد میں رہتی ہے۔ اور ہمارے خیال میں یہ بات سمجھنے کے لیے خود ماہرِ عمرانیات ہونا کچھ ایسا ضروری بھی نہیں۔
بالکل اسی طرح دوسرے لوگوں کو بھی حق حاصل ہو کہ وہ اپنی اولاد کے لیے پنجابی کی بجائے اردو یا انگریزی ذریعہ تعلیم کا انتخاب کریں۔
حق حاصل ہونا اور بات ہے، عثمان بھائی، اور ریاستی ذمہ داری اور۔ کیا کینیڈا کے سرکاری تعلیمی اداروں میں کسی شخص کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تعلیم کے لیے مثلاً عبرانی زبان کا انتخاب کر لے؟
مقامی زبانوں کا فروغ اور ان کی بقا کے اقدامات ریاستی ذمہ داری ہیں۔ انھیں فردِ واحد کے ارادے یا خواہش پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔
پنجاب اور اہل پنجاب سے روا رکھا گیا بغض پہلے کالا باغ ڈیم کی وجہ سے عیاں ہوا تھا اور اب سی پیک منصوبوں کی وجہ سے کھل کر سامنے آ رہا ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ اہلِ پنجاب کی جتنی حق تلفی ہوئی ہے اس سے کہیں زیادہ انھوں نے دوسروں کی کی ہے۔
بڑے سیدھے، بڑے اچھے کہیں کے
ذرا دھبے تو دیکھو آستیں کے ! ! !
چینی زبان سیکھانے کے لیے پنجاب حکومت جس طرح کوششیں کر رہی ہے ویسے ہی اگر خلوص نیت سے کام کریں تو اتنی تعداد تیار کرنا بالکل بھی مشکل نہیں ہے۔
دو صد فی صد متفق!
مادری زبان کو سکھانے کے لیے کسی مصنوعی ماحول کی ضرورت نہیں ہوتی.
مادری زبان سکھانا مقصود نہیں۔ مادری زبان کی خواندگی بہتر بنانا مدعا ہے۔ میں ٹھیٹھ پنجابی ہونے کے باوجود پنجابی لکھنے پڑھنے میں بےحد دقت محسوس کرتا ہوں۔ غزالاں تم تو واقف ہو!
پنجابی میں موجود تصوف اور امن کا درس نوجوان نسل کے لیے سمجھنا زیادہ ضروری ہے اس لیے اعلٰی تعلیم میں پنجابی کا شامل ہونا زیادہ ضروری ہے بہ نسبت ابتدائی تعلیم کے پنجابی زبان میں ہونے کے..
بہت عمدہ خیال ہے!
پہلے نظام،تعلیم،شعوراور قومی زبان کو ہی بہتر کرلیجئے پھر باقی علاقائی زبانیں خود سنبھل جائیں گی۔
اہم نکتہ ہے۔ میری رائے میں بھی یہی منہاجِ عمل (course of action) بہتر ہے۔ مگر کیا کیجیے کہ باقی صوبوں میں صوبائی زبانیں تعلیمی اداروں میں بار پا چکی ہیں۔ اہلِ پنجاب کا بھی پرائمری تک تو حق اب تسلیم کر لیا جانا چاہیے۔
جو لوگ اس سلسلے میں سنجیدہ ہیں انہیں چاہیے کہ وہ مواد کی تیاری پر کام شروع کریں اور یوں جب ایک مناسب حد تک بنیادی کام مکمل کر لیا جائے تو اپنی تجویز کو منوانے کے لیے اگلا قدم اٹھائیں۔
آپا، یہ کہنے کو آسان ہے مگر کرنے کو تقریباً ناممکن۔ میرا خیال ہے کہ فردِ واحد تو ایک طرف رہا، کوئی جماعت بھی سرکاری سرپرستی کے بغیر ایسا مواد آزادانہ تیار نہیں کر سکتی جسے بعدازاں تدریس کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس میں نظریاتی سے لے کر معاشی تک بہت سی رکاوٹیں سامنے آ سکتی ہیں۔ اگر مواد کی تیاری سے مراد انتخاب ہے تو پنجابی ادب کچھ ایسا بھی ہیچ مایہ نہیں۔ حکومت اشارہ کرے تو دنوں میں نصاب تیار کیا جا سکتا ہے۔ مگر اربابِ اختیار کی دلچسپی بہرحال شرط ہے۔