محفل پر ایک نہایت ہی محترم رکن نے دوران گفتگو یہ بات کی کہ پنجاب کی نئی نسل اخلاقی انحطاط کا شکار ہوچکی ہے۔ ان کی باتوں کے آغاز میں گالی درمیان میں گالی اور آخر میں بھی گالی ہوتی ہے۔
میں ایک پنجابی ہوں۔ پنجاب کے ایسے شہر کا رہنے والا جو قریبًا پنجاب کے درمیان میں واقع ہے۔ سوچا اس پر کچھ تحقیق کروں۔ محفل پر کچھ احباب نے اوپر دئیے گئے اس بیان پر اعتراض کیا تھا۔ میں نے بھی ایک نہیں لکھ مارا کہ ایسا نہیں۔ لیکن بعد میں جب تسلی سے سوچا تو نتیجہ کچھ اور نکلا۔ میں کوشش کروں گا کہ اس سارے سلسلے کو غیر جانبدار ہوکر دیکھ سکوں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ زبان کا مقدر ہی بدل جانا ہوتا ہے۔ لسانیات کے طالب علم کے طور پر ہمیں یہ سبق سب سے پہلے پڑھایا جاتا ہے کہ زبان کے بدلنے کو روکا نہیں جاسکتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زبان کا بدلنا کس طرح ممکن ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں ایک تو سادہ سی بات ہے کہ الفاظ متروک ہوجاتے ہیں۔ ان کی جگہ نئے الفاظ بنا لیے جاتے ہیں یا دوسری زبانوں سے لے لیے جاتے ہیں۔چچا غالب کے زمانے کے کئی اردو الفاظ جیسے طمنچہ، سلفچی وغیرہ وغیرہ آج شاذ ہی آپ کو کسی کی زبان پر نظر آئیں گے۔
دوسرے اس میں یہ ہوتا ہے کہ الفاظ کے معنی بدل جاتے ہیں۔ پہلے پہل یہ سیاق و سباق کے لحاظ سے کچھ الفاظ کے معنوں میں تبدیلی ہوتی ہے بعد میں یہی تبدیلی مستقل ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ لوگ اس کو پرانے معنوں میں لینا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کی عام سی مثال ایک لفظ "گھٹیا" ہے۔ آپ میں سے کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ گھٹیا اصل میں خنزیر کے بچے کو اردو میں کہا جاتا ہے؟ بالکل اسی طرح جیسے کتے کے بچے کو پلا کہا جاتا ہے۔ اب آتے ہیں اس کے عام استعمال کے حوالے سے۔ آپ دیکھ لیں گھٹیا ایک بڑی بے ضرر سے گالی گنی جاتی ہے۔ کم از کم میرے لیے تو یہ ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے۔ اگر کسی کو گھٹیا کہا بھی جائے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ وہ خنزیر کی اٰل میں سے ہے بلکہ اس سے مراد اس کا برا پن ہوتا ہے۔
یہ بات کرنے کے بعد اب ہم آگے بڑھتے ہیں پنجاب کے حوالے سے۔ آج کے دور میں میڈیا کا کردار بڑا مضبوط ہے۔ میڈیا روایات کو جنم دیتا اور مٹاتا ہے۔ پنجاب میں لوکل میڈیا یعنی سٹیج ڈرامے عمومی کلچر پر بڑی بری طرح سے اثر انداز ہورہے ہیں۔ جگت بازی ہماری روایات میں شامل رہی ہے۔ بھانڈ اور میراثی ہمارے کلچر کا حصہ ہمیشہ سے تھے۔ لیکن اب سٹیج ڈراموں نے مزاح کے نام پر پنجاب اور اہل پنجاب کو جو بدنام کیا ہے وہ کبھی بھی ہمارے کلچر کا حصہ نہیں رہا۔ یہ سٹیج ڈرامے ایک وقت میں صحیح مزاح ہوتے تھے۔ سہیل احمد اور عمر شریف کے ڈرامے کل بھی تھے اور آج بھی مزاح کا بہترین شاہکار ہیں۔ ان کے ڈراموں میں وہی جگت بازی ہوتی ہے جو اندرون لاہور کے لوگوں کا مخصوص انداز ہے نہ کی ایک دوسرے کی ماں بہن ایک کرنا۔
ان سٹیج ڈراموں کو دیکھ دیکھ کر ہمارے نوجوان طبقے میں یہ فیشن سا بن گیا ہے کہ دو چار باتوں میں دوسرے کی مٹی پلید کردینے سے اس کو تمغہ امتیاز مل جائے گا۔ چناچہ جب بھی دو لوگ اکٹھے ہوں تو ہنسی ہنسی میں دو چار جگتیں چل جانا عام سی بات ہے۔ اب یہ جگتیں کتنی "اخلاقی" ہوتی ہیں یہ الگ بات ہے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ الفاظ کے معنی وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پنجاب کے نوجوان جو جگت بازی کو فیشن اور گالی دینے کو جسٹ روٹین سمجھتے ہیں اس کو کیسے لیتے ہیں۔ میں اسی نسل کا نمائندہ ہوں۔ اپنی عام زندگی میں کوئی فرشتہ نہیں۔ اپنے احباب کو دو چار جگتیں لگا دینا میرے لیے معمول کی بات ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ الفاظ جسے گالی کہا جاتا جب ہم اپنی عام گفتگو میں استعمال کرتے ہیں تو ان کا مطلب ہرگز وہ نہیں ہوتا جو کہ "اصل" میں ہے۔ یہ ایسے ہی جیسے کھانے کے لوازمات میں سلاد ہوتو لطف دوبالا ہوجاتا ہے ویسے ہی ہم اپنی عام زندگی میں ان الفاظ کو ذرا "ڈیکوریشن" کے لیے ساتھ ٹانک دیتے ہیں۔
اب آپ کو شاید شدید قسم کا اعتراض ہوکہ ایک غیر اخلاقی بات اور رجحان کو غلط کہنے کی بجائے شاکر اس کی حمایت کررہا ہے۔ جناب میں تو صرف بیان کررہا ہوں کہ چیزیں اس طرح موجود ہیں۔ بطور اس معاشرے کا نمائندہ ہونے کے میں نے جو محسوس کیا اور اس کی جو وجہ میرے سامنے آئی وہ میں نے آپ کے سامنے رکھ دی۔
میں بی بی سی کی اس رپورٹ سے متفق ہوں کہ ہمارے ہاں قومی سطح پر ہتک عزت کرنے والے کئی الفاظ ایجاد کرلیے گئے ہیں جنھیں صدر مملکت اور سیاستدانوں سے لے کر عام لوگ تک کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب اصل میں میرے نزدیک اس فرسٹریشن کا نتیجہ ہے جو ہمارے ارد گرد موجود ہے اور مسلسل بڑھ رہی ہے۔
لیکن اب ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم ہر وقت تیری ماں اور اور تیری بہن کو ۔۔۔ کرتے رہتے ہیں۔ اپنے اساتذہ کے ساتھ، اپنے ماں باپ کے ساتھ، اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ اور عمومی محافل میں ہماری زبان بڑی شائستہ اور صاف ہوتی ہے۔ یہ "غیر اخلاقی پن" اس وقت در آتا ہے جب ہم خالصتًا اپنے ہم عمروں میں بیٹھے ہوں جیسے ہم جماعتوں میں۔ چونکہ ہم عمروں میں بیٹھ کر آپ ذہنی طور پر اپنے آپ کو ان پابندیوں سے آزاد محسوس کرتے ہیں جو احترام کے ذیل میں آپ پر عائد ہوتی ہیں۔
آپ کا میری رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔