حمیرا عدنان
محفلین
سب انسپیکٹر شاہدہ ان بہت سی نوجوان لڑکیوں میں سے ہیں جنہوں نے حال ہی میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں کامیابی حاصل کر کے راولپنڈی پولیس فورس میں شمولیت اختیار کی ہے۔ وہ باضمیر، تعلیم یافتہ اور پر اعتماد ہیں، بالکل ویسی ہی جیسی پاکستان کو ضرورت ہے جس کی آبادی زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
مردوں کے اس معاشرے میں پولیس فورس میں اتنی بڑی تعداد میں لڑکیوں کی بھرتی نے مجھے حیران کر دیا۔ میں اتنا حیران ہوا کہ مجھے ایک لحظے کے لیے لگا کہ شاید حکومت نے محکمہء پولیس کی نجکاری کر دی ہے۔
شاہدہ کے ساتھ میری دلچسپ بات چیت تب ہوئی جب میں چند دن قبل اپنے ایک پولیس سپرانٹینڈینٹ دوست سے ملنے کے لیے گیا تھا۔ راولپنڈی پولیس ہیڈکوارٹر میں داخلے پر میں نے وردی میں ملبوس دو نوجوان لڑکیوں کو دیکھا جو بہت پروفیشنل نظر آ رہی تھیں۔
ان کی وردی کا رنگ ان کے مرد ساتھیوں کی وردی جیسا ہی تھا مگر ایک اور چیز نے میری توجہ حاصل کر لی۔ وہ سب پتلونوں میں ملبوس تھیں۔
بلاشبہ میں نے پنجاب پولیس کی خواتین اہلکاروں کو پینٹ میں ملبوس دیکھنے کی توقع نہیں کی تھی کیونکہ وہ عام طور پر شلوار قمیض پہنتی ہیں۔
میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر یہ خواتین دوسری اہلکاروں سے کیسے مختلف ہیں۔ جب میں نے اپنے دوست سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ نئی بھرتی شدہ یہ لڑکیاں ایک سخت پولیس ٹریننگ سے گزری ہیں جس میں ایلیٹ کمانڈو ٹریننگ بھی شامل ہے۔
ایلیٹ ٹریننگ؟ میں حیران تھا۔ پولیس کا یہ کورس صرف خواتین کے لیے ہی نہیں بلکہ مردوں کے لیے بھی بہت مشکل ہوتا ہے، اور یہ فوج کے اسپیشل سروس گروپ کی ٹریننگ جیسا ہی سخت کہلاتا ہے۔ "انہوں نے یہ کیسے کیا؟" میں نے پوچھا تو میرے دوست نے مشورہ دیا کہ میں خود ان سے معلوم کر لوں۔
میں اس کے کمرے سے نکل کر پولیس اسٹیشن کے وسیع و عریض ورانڈے کی طرف بڑھا جہاں نوجوان خواتین پولیس اہلکار اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھیں۔ اپنے کمروں میں بیٹھی وہ شکایات سن رہی تھیں اور مکمل پروفیشنلزم کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔
خواتین پولیس افسران کو دو کیڈرز میں بھرتی کیا جاتا ہے: افسر اور رینک۔ افسروں کو گریڈ 17 سے اسسٹنٹ سپرینٹنڈنٹ آف پولیس کی حیثیت سے بھرتی کیا جاتا ہے جبکہ رینکس کی خواتین کو گریڈ 14 سے بحیثیت سب انسپیکٹر بھرتی کیا جاتا ہے۔
پنجاب پولیس کی تاریخ میں پہلی بار گذشتہ سال 76 خواتین نے سب انسپیکٹر کی حیثیت سے پولیس فورس میں شمولیت اختیار کی۔
میری ملاقات صبرینہ سے ہوئی جنہوں نے مجھے بتایا کہ وہ روزانہ ٹیکسلا سے راولپنڈی آتی ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ مگر ایک عورت کو پولیس کی وردی میں تصور کریں جو روزانہ ٹیکسلا سے راولپنڈی اور واپس گھر جی ٹی روڈ جیسی مصروف سڑک پر ڈرائیو کرتی ہے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ کیا انہیں کبھی خوف محسوس ہوتا ہے یا وہ ہتھیار ساتھ رکھتی ہیں۔ تو ان کا کہنا تھا کہ "میں خود ہتھیار ہوں۔"
ان کا اعتماد بلا کا تھا۔ ایک منٹ کے لیے مجھے ایسا لگا جیسا میں مشہور بدھ جنگجو اور "آرٹ آف وار" کے مصنف سن زو سے بات کر رہا ہوں۔ وہ بہت پرسکون انداز میں خود اعتمادی سے گفتگو کر رہی تھیں۔
اور صرف وہی نہیں، تمام نوجوان خواتین افسران ایسی ہی پرعزم دکھائی دیں۔ یہ میرے لیے ایک نایاب تجربہ تھا۔ ان کی خود اعتمادی کے لیے کریڈٹ اس ٹریننگ کو بھی جاتا ہے جو ان اہلکاروں کو دی گئی ہے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ ان کے گھر والوں کو ان کے کام کے اوقات کے بارے میں کیسا لگتا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ ان کے خاندان ان کی پوری حمایت کرتے ہیں۔ نئی نسل اپنے خاندانوں کی طرح پنجاب کی ترقی کرتی معیشت سے ملنے والے مواقع سے زیادہ سے زیادہ فوائد اٹھانا چاہتی ہے۔ ان کے نزدیک پنجاب پولیس میں کام کرنا ایک محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے۔
پنجاب پولیس میں مرد اکثریت میں ہیں اور یہ صوبہ بھی مردانہ حاکمیت کا سخت کلچر رکھتا ہے۔ یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ زیادہ تر تعیناتیاں اور بھرتیاں، صرف پولیس نہیں بلکہ دیگر محکموں میں بھی، سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے مجھے ایک چیز پر حیرت ہوتی ہے کہ کیا خواتین بھی کبھی عام تھانوں میں (صرف خواتین تھانوں میں نہیں) ایس ایچ او تعینات ہو سکتی ہیں؟
کیا ان خواتین کو کبھی مرکزی دھارے کی پولیسنگ میں بھی لایا جائے گا؟
کیا یہ واقعی معاشرے کے عورتوں کے ساتھ رویے میں مثبت تبدیلی لا سکیں گی؟
ایک ادارے کے کلچر اور ماحول کی وجہ سے خواتین کی کچھ حدود ہوتی ہیں اور اس میں ان کی غلطی نہیں۔ شبنم کا کہنا تھا کہ "مرد ایک ساتھ آفس میں گھنٹوں بیٹھ سکتے ہیں۔ وہ اپنے باسز کے ساتھ دوستی کر سکتے ہیں، مگر ہم نہیں۔ ہم اپنے سینیئرز کے ساتھ دوستانہ رویہ نہیں رکھ سکتے۔"
انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں محکمے میں اونچے عہدوں پر موجود خواتین کو دیکھ کر مزید اعتماد ملتا ہے۔ "چیزیں ابھی بھی مشکل ہیں، مگر وقت بدل رہا ہے اور ہمیں اپنے مرد ساتھیوں سے بہت ہمت افزائی ملتی ہے۔"
ان تھانوں میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ میں وہاں جن مردوں سے ملا وہ رینک اور عمر کے اعتبار سے زیادہ سینیئر تھے لیکن مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وہ نوجوان لڑکیوں کی پولیس فورس میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
طاہر نقوی، 50، نے مجھے نئے بھرتی ہونے والی خواتین کے ساتھ اپنے تجربے کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ محرم کے ایک دن کے دوران سکیورٹی ہائی الرٹ پر تھی اور ایک جلوس نے گزرنا تھا۔ ٹریفک بلاک تھی اور رکاوٹیں لگی ہوئی تھیں۔ اس وقت ایک خاتون پولیس افسر نے، جو حال ہی میں پولیس میں شامل ہوئی تھیں، نے ایک جرأت مندانہ فیصلہ لیا۔ انہوں نے ٹریفک سارجنٹ کو کہا کہ وہ ٹریفک کو گزرنے دے کیونکہ لوگ کافی دیر سے بچوں کے ساتھ پھنسے ہوئے تھے۔
وہ یہ سن کر حیران رہ گیا اور پوچھا کہ "آپ جانتی ہیں آپ کیا کر رہی ہیں؟"۔ ان کا جواب تھا "ہاں مجھے اچھی طرح معلوم ہے۔"
طاہر نقوی کا کہنا تھا کہ یہ خواتین ان کی نسل کی طرح نہیں ہیں، بلکہ توانائی سے بھرپور ہیں اور سیکھنے کی لگن رکھتی ہیں۔ "ہم ان کی خوش قسمتی کے لیے دعا گو ہیں۔"
خواتین ہر جگہ تبدیلی کا ذریعہ بن رہی ہیں، چاہے یہ تعلیم کا شعبہ ہو، کھیل، طب، کاروبار، یا محکمہء پولیس۔ یہ ان کی صلاحیتیوں کو نکھارنے اور استعمال کرنے کا درست وقت ہے کیونکہ پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔
پنجاب پولیس خود کو بہتری کی جانب لے جا رہی ہے۔ نوجوان اور تعلیم یافتہ خواتین اور مرد اس کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تھانہ کلچر، جسے گذشتہ نسلیں اچھی طرح جانتی ہیں، جلد ہی تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔
اگر محکمہء پولیس اپنی پالیسیوں کو ثابت قدمی سے جاری رکھے تو کچھ عرصے میں ایک بہتر اور صنفی برابری والے محکمے میں تبدیل ہوجائے گا۔
بشکریہ ڈان نیوز
مردوں کے اس معاشرے میں پولیس فورس میں اتنی بڑی تعداد میں لڑکیوں کی بھرتی نے مجھے حیران کر دیا۔ میں اتنا حیران ہوا کہ مجھے ایک لحظے کے لیے لگا کہ شاید حکومت نے محکمہء پولیس کی نجکاری کر دی ہے۔
شاہدہ کے ساتھ میری دلچسپ بات چیت تب ہوئی جب میں چند دن قبل اپنے ایک پولیس سپرانٹینڈینٹ دوست سے ملنے کے لیے گیا تھا۔ راولپنڈی پولیس ہیڈکوارٹر میں داخلے پر میں نے وردی میں ملبوس دو نوجوان لڑکیوں کو دیکھا جو بہت پروفیشنل نظر آ رہی تھیں۔
ان کی وردی کا رنگ ان کے مرد ساتھیوں کی وردی جیسا ہی تھا مگر ایک اور چیز نے میری توجہ حاصل کر لی۔ وہ سب پتلونوں میں ملبوس تھیں۔
بلاشبہ میں نے پنجاب پولیس کی خواتین اہلکاروں کو پینٹ میں ملبوس دیکھنے کی توقع نہیں کی تھی کیونکہ وہ عام طور پر شلوار قمیض پہنتی ہیں۔
میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر یہ خواتین دوسری اہلکاروں سے کیسے مختلف ہیں۔ جب میں نے اپنے دوست سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ نئی بھرتی شدہ یہ لڑکیاں ایک سخت پولیس ٹریننگ سے گزری ہیں جس میں ایلیٹ کمانڈو ٹریننگ بھی شامل ہے۔
ایلیٹ ٹریننگ؟ میں حیران تھا۔ پولیس کا یہ کورس صرف خواتین کے لیے ہی نہیں بلکہ مردوں کے لیے بھی بہت مشکل ہوتا ہے، اور یہ فوج کے اسپیشل سروس گروپ کی ٹریننگ جیسا ہی سخت کہلاتا ہے۔ "انہوں نے یہ کیسے کیا؟" میں نے پوچھا تو میرے دوست نے مشورہ دیا کہ میں خود ان سے معلوم کر لوں۔
میں اس کے کمرے سے نکل کر پولیس اسٹیشن کے وسیع و عریض ورانڈے کی طرف بڑھا جہاں نوجوان خواتین پولیس اہلکار اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھیں۔ اپنے کمروں میں بیٹھی وہ شکایات سن رہی تھیں اور مکمل پروفیشنلزم کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔
خواتین پولیس افسران کو دو کیڈرز میں بھرتی کیا جاتا ہے: افسر اور رینک۔ افسروں کو گریڈ 17 سے اسسٹنٹ سپرینٹنڈنٹ آف پولیس کی حیثیت سے بھرتی کیا جاتا ہے جبکہ رینکس کی خواتین کو گریڈ 14 سے بحیثیت سب انسپیکٹر بھرتی کیا جاتا ہے۔
پنجاب پولیس کی تاریخ میں پہلی بار گذشتہ سال 76 خواتین نے سب انسپیکٹر کی حیثیت سے پولیس فورس میں شمولیت اختیار کی۔
میری ملاقات صبرینہ سے ہوئی جنہوں نے مجھے بتایا کہ وہ روزانہ ٹیکسلا سے راولپنڈی آتی ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ مگر ایک عورت کو پولیس کی وردی میں تصور کریں جو روزانہ ٹیکسلا سے راولپنڈی اور واپس گھر جی ٹی روڈ جیسی مصروف سڑک پر ڈرائیو کرتی ہے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ کیا انہیں کبھی خوف محسوس ہوتا ہے یا وہ ہتھیار ساتھ رکھتی ہیں۔ تو ان کا کہنا تھا کہ "میں خود ہتھیار ہوں۔"
ان کا اعتماد بلا کا تھا۔ ایک منٹ کے لیے مجھے ایسا لگا جیسا میں مشہور بدھ جنگجو اور "آرٹ آف وار" کے مصنف سن زو سے بات کر رہا ہوں۔ وہ بہت پرسکون انداز میں خود اعتمادی سے گفتگو کر رہی تھیں۔
اور صرف وہی نہیں، تمام نوجوان خواتین افسران ایسی ہی پرعزم دکھائی دیں۔ یہ میرے لیے ایک نایاب تجربہ تھا۔ ان کی خود اعتمادی کے لیے کریڈٹ اس ٹریننگ کو بھی جاتا ہے جو ان اہلکاروں کو دی گئی ہے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ ان کے گھر والوں کو ان کے کام کے اوقات کے بارے میں کیسا لگتا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ ان کے خاندان ان کی پوری حمایت کرتے ہیں۔ نئی نسل اپنے خاندانوں کی طرح پنجاب کی ترقی کرتی معیشت سے ملنے والے مواقع سے زیادہ سے زیادہ فوائد اٹھانا چاہتی ہے۔ ان کے نزدیک پنجاب پولیس میں کام کرنا ایک محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے۔
پنجاب پولیس میں مرد اکثریت میں ہیں اور یہ صوبہ بھی مردانہ حاکمیت کا سخت کلچر رکھتا ہے۔ یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ زیادہ تر تعیناتیاں اور بھرتیاں، صرف پولیس نہیں بلکہ دیگر محکموں میں بھی، سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے مجھے ایک چیز پر حیرت ہوتی ہے کہ کیا خواتین بھی کبھی عام تھانوں میں (صرف خواتین تھانوں میں نہیں) ایس ایچ او تعینات ہو سکتی ہیں؟
کیا ان خواتین کو کبھی مرکزی دھارے کی پولیسنگ میں بھی لایا جائے گا؟
کیا یہ واقعی معاشرے کے عورتوں کے ساتھ رویے میں مثبت تبدیلی لا سکیں گی؟
ایک ادارے کے کلچر اور ماحول کی وجہ سے خواتین کی کچھ حدود ہوتی ہیں اور اس میں ان کی غلطی نہیں۔ شبنم کا کہنا تھا کہ "مرد ایک ساتھ آفس میں گھنٹوں بیٹھ سکتے ہیں۔ وہ اپنے باسز کے ساتھ دوستی کر سکتے ہیں، مگر ہم نہیں۔ ہم اپنے سینیئرز کے ساتھ دوستانہ رویہ نہیں رکھ سکتے۔"
انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں محکمے میں اونچے عہدوں پر موجود خواتین کو دیکھ کر مزید اعتماد ملتا ہے۔ "چیزیں ابھی بھی مشکل ہیں، مگر وقت بدل رہا ہے اور ہمیں اپنے مرد ساتھیوں سے بہت ہمت افزائی ملتی ہے۔"
ان تھانوں میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ میں وہاں جن مردوں سے ملا وہ رینک اور عمر کے اعتبار سے زیادہ سینیئر تھے لیکن مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وہ نوجوان لڑکیوں کی پولیس فورس میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
طاہر نقوی، 50، نے مجھے نئے بھرتی ہونے والی خواتین کے ساتھ اپنے تجربے کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ محرم کے ایک دن کے دوران سکیورٹی ہائی الرٹ پر تھی اور ایک جلوس نے گزرنا تھا۔ ٹریفک بلاک تھی اور رکاوٹیں لگی ہوئی تھیں۔ اس وقت ایک خاتون پولیس افسر نے، جو حال ہی میں پولیس میں شامل ہوئی تھیں، نے ایک جرأت مندانہ فیصلہ لیا۔ انہوں نے ٹریفک سارجنٹ کو کہا کہ وہ ٹریفک کو گزرنے دے کیونکہ لوگ کافی دیر سے بچوں کے ساتھ پھنسے ہوئے تھے۔
وہ یہ سن کر حیران رہ گیا اور پوچھا کہ "آپ جانتی ہیں آپ کیا کر رہی ہیں؟"۔ ان کا جواب تھا "ہاں مجھے اچھی طرح معلوم ہے۔"
طاہر نقوی کا کہنا تھا کہ یہ خواتین ان کی نسل کی طرح نہیں ہیں، بلکہ توانائی سے بھرپور ہیں اور سیکھنے کی لگن رکھتی ہیں۔ "ہم ان کی خوش قسمتی کے لیے دعا گو ہیں۔"
خواتین ہر جگہ تبدیلی کا ذریعہ بن رہی ہیں، چاہے یہ تعلیم کا شعبہ ہو، کھیل، طب، کاروبار، یا محکمہء پولیس۔ یہ ان کی صلاحیتیوں کو نکھارنے اور استعمال کرنے کا درست وقت ہے کیونکہ پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔
پنجاب پولیس خود کو بہتری کی جانب لے جا رہی ہے۔ نوجوان اور تعلیم یافتہ خواتین اور مرد اس کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تھانہ کلچر، جسے گذشتہ نسلیں اچھی طرح جانتی ہیں، جلد ہی تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔
اگر محکمہء پولیس اپنی پالیسیوں کو ثابت قدمی سے جاری رکھے تو کچھ عرصے میں ایک بہتر اور صنفی برابری والے محکمے میں تبدیل ہوجائے گا۔
بشکریہ ڈان نیوز