پنجاب کے فارسی گو شاعر ابوالبرکات منیر لاہوری

حسان خان

لائبریرین
پنجاب سے تعلق رکھنے والے فارسی گو شاعر و ادیب ابوالبرکات منیر لاہوری، معروف بہ ملا منیر لاہوری، ۱۲ رمضان ۱۰۱۹ ہجری بمطابق ۲۸ نومبر ۱۶۱۰ عیسوی کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ عموماً ان کا شمار عہدِ شاہجہانی کے دوران لاہور سے تعلق رکھنے والے تین بزرگ شعراء میں ہوتا ہے۔ منیر جس خاندان سے تعلق رکھتے تھے، وہ خاندان اپنے لطیف شعری ذوق، تہذیبی نفاست اور تقوے کے لیے مشہور تھا۔ اُن کے والد مشہور خطاط تھے جنہیں اکبر نے ملازمت میں رکھا تھا۔ ابوالبرکات نے چودہ سال کی عمر میں منیر بطور تخلص منتخب کیا اور اپنی شاعر کے طور پر زندگی کا آغاز کیا۔ اُن کی ابتدائی تخلیقات زیادہ تر فلکی، سنائی اور انوری کے اشعار کی تقلید پر مشتمل تھیں۔ ۱۶۳۵ء میں وہ اکبرآباد کے حاکم اور ملکہ ممتاز محل کے برادرِ نسبتی سیف خان کی خدمت میں آئے۔ اُن کے اپنے مطابق، سیف خان کی ادبی مجالس کے علماء نے اُن کا اچھا استقبال کیا۔
۱۶۳۹ء میں اپنے مربی کی وفات کے بعد منیر نے حاکمِ جونپور کے دربار سے وابستگی اختیار کی، لیکن کچھ ہی عرصے بعد وہ اکبرآباد لوٹ گئے، جہاں کے درباری شعراء کے خصوصی حلقے میں وہ شامل کر لیے گئے۔ ۷ رجب ۱۰۵۴ھ بمطابق ۹ ستمبر ۱۶۴۴ء کو اُن کا جوانی ہی میں انتقال ہو گیا اور وہ لاہور میں دفنائے گئے۔
منیر کثیر گو شاعر تھے، اور اُنہوں نے ایک لاکھ اشعار کہنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اُنہوں نے شاعری کی تقریباً تمام اصناف پر طبع آزمائی کی ہے، لیکن اُن کی شہرت کا سبب بنیادی طور پر اُن کی مثنویاں ہیں، جن میں سوادِ اعظم، مظہرِ گل، آب و رنگ، ساز و برگ، میخانہ و مرآۃ الخیال، اور بیت المعمور کا نام لیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے سب سے مشہور مثنوی مظہرِ گل ہے، جسے مثنوی در صفاتِ بنگالہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ۱۶۳۹ء میں ایک ہی ہفتے میں مکمل ہونے والی اس مثنوی میں بنگال کی آب و ہوا اور ماحول کا وضاحت سے نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس مثنوی میں بنگال کی تعریف کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں شاعر کی اس خطے سے ناپسندیدگی کے بھی لطیف اشارے ملتے ہیں۔ لکھنؤ میں یہ مثنوی ۱۸۸۹ء میں پہلی بار شائع ہونے کے بعد اب تک کئی بار شائع ہو چکی ہے۔
منیر کی اپنی اشعار کے بارے میں اعلیٰ رائے سے اُن کے معاصرین بھی متفق نظر آتے ہیں۔ چندربھان برہمن نہ صرف اُنہیں اُس دور کے سب سے زیادہ قابل شاعر سمجھتے تھے، بلکہ اُن سے اپنے اشعار کی اصلاح بھی لیا کرتے تھے۔ جبکہ محمد صالح کمبوہ نے منیر کی مدح سرائی یہ کہہ کر کی ہے کہ فیضی کے بعد منیر ہی وہ شاعر ہیں جنہیں تمام اصنافِ شاعری پر یکساں عبور حاصل ہے۔ منیر کی شاعرانہ مہارت اُن استعاروں اور صنائعِ لفظی و معنوی کے عمدہ استعمال پر قائم ہے جو سبکِ ہندی کی خصوصیات سمجھے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ یامین خان نے اپنی کتاب تاریخِ شعر میں منیر کو سبکِ ہندی میں جدت لانے والا شاعر بتایا ہے۔
اپنے نثری اسلوب میں منیر نے شعوری طور پر ابوالفضل کی تقلید کرنے کی کوشش کی، البتہ اُنہیں ابوالفضل جیسی کامیابی نہ مل سکی۔ اُن کی اہم نثری نگارشات مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ انشائے منیر؛ یہ کتاب مسجع و مقفیٰ نثر میں لکھے گئے منیر کے رقعات اور پچپن خطوط کا مجموعہ ہے۔
۲۔ رقعاتِ منیر
۳۔ نوبادہ
۴۔ کارستان؛ آراستہ نثر میں ایک رومانی داستان جس میں خیالی شہزادے والہ اختر اور اُس کے کارناموں کا احوال ہے۔ یہ کتاب ۱۶۴۰ء میں جونپور میں مکمل ہوئی تھی اور شاہجہاں کے نام منسوب کی گئی تھی۔
۵۔ تذکرۂ شعراء؛ اس میں شعراء کی سوانح اور اُن کی شاعری کا تنقیدی جائزہ ہے۔
۶۔ شرحِ قصائدِ عرفی
۷۔ کارنامہ؛ ۱۶۴۰ء میں لکھا گیا ایک رسالہ جس میں عرفی، ظہوری، زلالی اور طالب آملی کی شاعری میں نقص نکالے گئے ہیں۔
منیر لاہوری کی تصنیفات کی معاصرانہ اور مسلسل اہمیت کے باوجود اُن کی زیادہ تر کتب تا حال مخطوطوں کی شکل میں ہیں اور طبع و انتشار کی راہ دیکھ رہی ہیں۔

(ماخذ: انسائیکلوپیڈیا ایرانیکا)

محمد وارث محمود احمد غزنوی تلمیذ سیدہ شگفتہ سید عاطف علی کاشفی
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بہت شکریہ اس تحریر کے لیے۔

اس کا مطلب کہ ان کے مخطوطے بھی منتشر ہوں گے کسی ایک جگہ جمع نہیں ہوں گے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
منیر لاہوری کے دو اشعار

صُوفی و غمِ جبّہ و دستار و دگر ھیچ
ما و ہوسِ دیدنِ دلدار و دگر ھیچ

صوفی ہے اور صرف جبہ و دستار کا غم ہے اور کچھ بھی نہیں، ہم ہیں اور صرف دلدار کی دید کی ہوس ہے اور باقی سب کچھ ھیچ ہے!

مستیم منیر از مئے میخانۂ معنی
داریم بکف نسخۂ اشعار و دگر ھیچ

منیر، میں میخانۂ معنی کی مے سے مست ہوں، ہاتھ میں نسخۂ اشعار (دیوان) ہے اور باقی سب کچھ ھیچ ہے۔
 
Top