F@rzana
محفلین
بھارتی ٹیلی وژن کے مشہور و معروف ڈائریکٹر چندر پرکاش درویدی نے فلم پنجر پنجاب کی مشہور شاعرہ اور مصنفہ امرتا پریتم کے اسی عنوان والے ناول پر بنائی ہے۔
ناول انیس سو سینتالیس میں ہونے والی تقسیم کے پس منظر میں لکھا گیا تھا۔
درویدی کے مطابق پنجر پاک بھارت تقسیم کے دوران ہونے والی قتل و غارت کو دکھاتی تو ہے مگر اصل میں یہ کہانی ہے سرحد کے دونوں طرف ان ہندو، سکھ اور مسلمان عورتوں کے غم کی داستان کی جنہیں تقسیم کے دوران ہونے والے فساد میں اغوا کر لیا گیا تھا۔
درویدی نے پاکستان کے شہر لاہور اور بھارت کے شہر امرتسر کے درمیان سرحدی چوکی واہگہ پر اپنی فلم کا سنگیت ریلیز کیا۔
موسیقی کی ریلیز کے لئے واہگہ چوکی کو چننے کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم لوگوں کے لئے واہگہ ایک بہت اہم جگہ ہے۔
’میں جس جگہ کھڑا ہوں وہاں مجھے انیس سو سینتالیس کا منظر یاد آ رہا ہے جب لاکھوں مسلمان اسی جگہ سے بھارت سے پاکستان گئے اور لاکھوں ہندو پاکستان سے بھارت آئے۔ ان کے ساتھ کئی کہانیاں تھیں، آنسو تھے، درد تھے۔ ٹوٹے سپنوں کے ساتھ وہ ایک نئے وطن کی تلاش میں آگے بڑھ رہے تھے۔ اس مٹی میں ان کے بہت سارے آنسو، بہت ساری یادیں اور بہت ساری سسکیاں دبی ہوئی ہیں۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ جنہوں نے تقسیم کے اس درد کو پڑھا اور سنا ہے وہ ان سسکیوں کو سن سکیں گے۔‘
فلم ڈائریکٹر کے لئے واہگہ اس لئے بھی اہم جگہ ہے کہ بٹوارے کے بعد اسی راستے دونوں ملکوں میں اغوا کی گئی عورتوں کو اپنے اپنے خاندانوں کو دوبارہ سونپا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایسے لوگ چاہتے تھے جن کو پنجاب یا اس کے کلچر کے بارے میں سمجھ ہو۔
مگر پنجر میں کوئی بھی اداکار پنجابی نہیں ہے۔ فلم میں ایک لڑکی پارو کا اہم کردار مشہور اداکارہ ارمیلا متوندکر نے کیا اور ان کے ساتھ ایشا گوپیکر اور منوج بھاجپئی ہیں۔
واہگہ پہنچنے پر ارمیلا نے لوگوں کے سامنے دونوں ملکوں کے تعلقات اور انسانی رشتوں کے موضوع پر ایک نہایت خوبصورت نظم پڑھی جسے سناتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں۔
نظم کچھ اس طرح سے ہے۔
صبح صبح اک خواب کی دستک پر دروازہ کھولا
دیکھا، سرحد کے اس پار سے کچھ مہمان آئے ہیں
آنکھوں سے مانوس تھے سارے
چہرے سارے سنے سنائے
پاؤں دھوئے، ہاتھ دھلائے
آنگن میں آسن لگوائے
اور تنور پہ مکی کے کچھ
موٹے موٹے روٹ پکائے
پوٹلی میں مہمان
مرے پچھلے سالوں کی فصلوں کا گڑ لائے تھے
آنکھ کھلی تو گھر میں کوئی نہیں تھا
ہاتھ لگا کر دیکھا تو تنور ابھی تک بجھا نہیں تھا
اور ہونٹوں پر میٹھے گڑ کا ذائقہ ابھی تک چپک رہا تھا
خواب تھا شاید، خواب ہی ہو گا
سرحد پر کل رات سنا ہے چلی تھی گولی
سرحد پر کل رات سنا ہے کچھ خوابوں کا خون ہوا ہے
ارمیلا نظم کی آخری سطریں پڑھتے ہوئے خود پر قابو نہ رکھ سکیں اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔
اس جذباتی منظر کو بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورس بی ایس ایف اور سرحد پار پاکستان کی ستلج رینجرز کے جوانوں نے بھی دیکھا۔ سرحد کے دونوں پار لوگوں کی بھی ایک بڑی تعداد ارمیلا اور ان کے ساتھی اداکاروں کو دیکھنے کے لئے جمع تھی۔
فلم کے ڈائریکٹر درویدی نے کہا ہے ان کی فلم پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو بہتر کرنے کی جانب ایک اور قدم ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومتِ پاکستان کی جانب سے اجازت ملی تو وہ اس فلم کا ایک پریمیئر شو لاہور یا اسلام آباد میں بھی ضرور کرنا چاہیں گے۔
“بشکریہ بی بی سی“
ناول انیس سو سینتالیس میں ہونے والی تقسیم کے پس منظر میں لکھا گیا تھا۔
درویدی کے مطابق پنجر پاک بھارت تقسیم کے دوران ہونے والی قتل و غارت کو دکھاتی تو ہے مگر اصل میں یہ کہانی ہے سرحد کے دونوں طرف ان ہندو، سکھ اور مسلمان عورتوں کے غم کی داستان کی جنہیں تقسیم کے دوران ہونے والے فساد میں اغوا کر لیا گیا تھا۔
درویدی نے پاکستان کے شہر لاہور اور بھارت کے شہر امرتسر کے درمیان سرحدی چوکی واہگہ پر اپنی فلم کا سنگیت ریلیز کیا۔
موسیقی کی ریلیز کے لئے واہگہ چوکی کو چننے کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم لوگوں کے لئے واہگہ ایک بہت اہم جگہ ہے۔
’میں جس جگہ کھڑا ہوں وہاں مجھے انیس سو سینتالیس کا منظر یاد آ رہا ہے جب لاکھوں مسلمان اسی جگہ سے بھارت سے پاکستان گئے اور لاکھوں ہندو پاکستان سے بھارت آئے۔ ان کے ساتھ کئی کہانیاں تھیں، آنسو تھے، درد تھے۔ ٹوٹے سپنوں کے ساتھ وہ ایک نئے وطن کی تلاش میں آگے بڑھ رہے تھے۔ اس مٹی میں ان کے بہت سارے آنسو، بہت ساری یادیں اور بہت ساری سسکیاں دبی ہوئی ہیں۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ جنہوں نے تقسیم کے اس درد کو پڑھا اور سنا ہے وہ ان سسکیوں کو سن سکیں گے۔‘
فلم ڈائریکٹر کے لئے واہگہ اس لئے بھی اہم جگہ ہے کہ بٹوارے کے بعد اسی راستے دونوں ملکوں میں اغوا کی گئی عورتوں کو اپنے اپنے خاندانوں کو دوبارہ سونپا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایسے لوگ چاہتے تھے جن کو پنجاب یا اس کے کلچر کے بارے میں سمجھ ہو۔
مگر پنجر میں کوئی بھی اداکار پنجابی نہیں ہے۔ فلم میں ایک لڑکی پارو کا اہم کردار مشہور اداکارہ ارمیلا متوندکر نے کیا اور ان کے ساتھ ایشا گوپیکر اور منوج بھاجپئی ہیں۔
واہگہ پہنچنے پر ارمیلا نے لوگوں کے سامنے دونوں ملکوں کے تعلقات اور انسانی رشتوں کے موضوع پر ایک نہایت خوبصورت نظم پڑھی جسے سناتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں۔
نظم کچھ اس طرح سے ہے۔
صبح صبح اک خواب کی دستک پر دروازہ کھولا
دیکھا، سرحد کے اس پار سے کچھ مہمان آئے ہیں
آنکھوں سے مانوس تھے سارے
چہرے سارے سنے سنائے
پاؤں دھوئے، ہاتھ دھلائے
آنگن میں آسن لگوائے
اور تنور پہ مکی کے کچھ
موٹے موٹے روٹ پکائے
پوٹلی میں مہمان
مرے پچھلے سالوں کی فصلوں کا گڑ لائے تھے
آنکھ کھلی تو گھر میں کوئی نہیں تھا
ہاتھ لگا کر دیکھا تو تنور ابھی تک بجھا نہیں تھا
اور ہونٹوں پر میٹھے گڑ کا ذائقہ ابھی تک چپک رہا تھا
خواب تھا شاید، خواب ہی ہو گا
سرحد پر کل رات سنا ہے چلی تھی گولی
سرحد پر کل رات سنا ہے کچھ خوابوں کا خون ہوا ہے
ارمیلا نظم کی آخری سطریں پڑھتے ہوئے خود پر قابو نہ رکھ سکیں اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔
اس جذباتی منظر کو بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورس بی ایس ایف اور سرحد پار پاکستان کی ستلج رینجرز کے جوانوں نے بھی دیکھا۔ سرحد کے دونوں پار لوگوں کی بھی ایک بڑی تعداد ارمیلا اور ان کے ساتھی اداکاروں کو دیکھنے کے لئے جمع تھی۔
فلم کے ڈائریکٹر درویدی نے کہا ہے ان کی فلم پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو بہتر کرنے کی جانب ایک اور قدم ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومتِ پاکستان کی جانب سے اجازت ملی تو وہ اس فلم کا ایک پریمیئر شو لاہور یا اسلام آباد میں بھی ضرور کرنا چاہیں گے۔
“بشکریہ بی بی سی“