سید عمران

محفلین
بہت تجربات کیے۔ سب ناکام ہوگئے۔۔۔
پہلے تو معاشرہ کی رواروی دیکھا کیے یعنی روزہ کھولتے ہی سموسے پکوڑے دہی بڑے کھائے اوپر سے شربت روح افزا نوش جاں فرماکر بلانوشوں میں شامل ہوئے۔ لیکن عرصہ تک یہ لاجک سمجھ میں نہ آئی کہ رج کے کھاتے تو مغرب کی نماز جاتی کیونکہ اذان اور نماز میں وقفہ ہی کتنا ہوتا ہے، محض دس منٹ۔ اب آدمی ٹھونسا ٹھانسی کرے یا جماعت سے نماز پڑھے۔افطاری سے قبل وضو بھی کرلیا ہو تو افطاری کے بعد ہاتھ دھونے،منہ صاف کرنے اور مسجد تک جانے میں کم از کم پانچ منٹ تو کہیں نہیں گئے۔ ایک منٹ دستر خوان پر ہاتھ مارنے، من پسند پکوان ٹٹولنے میں لگ گیا۔ کچھ دیر ٹھوس غذا چبانے کے لگا لیجیے۔ لیجیے اب ٹائم ہی کیا رہ گیا۔
گھڑی سے انکھیاں چرائیں تو جماعت جائے، جماعت کی فکر کریں تو پکوڑے جائیں۔ چلیں اچھا مسلمان بنتے ہیں اور جماعت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔ اب دیکھیں کیا شیڈول بنا۔ کھجور ڈالی (منہ میں)، شربت انڈیلا (پیٹ میں)۔ پھر دھڑا دھڑ پکوڑے سموسے اُڑائے، کچھ چبائے کچھ بنا جگالی نگل لیے اور پھر مسجد کو نکل لیے۔ اب جناب سموسے پکوڑے اور شربت کے گلاس پیٹ کی لے رہے ہیں کلاس۔ اسی بھاری پن کے ساتھ گھر آئے تو کھانا سجا ہوا ملا۔ اسے کیسے نظر انداز کریں۔ یہ تو گھور پاپ، نعمتوں کا کھلا اپمان، بولے تو کفرانِ نعمت ہے۔
انٹ سنٹ کھا نگل کر پیٹ بھر لیا تو اسے پیٹنے کی ذمہ داری بھی اپنی خود کی ذاتی ہوتی ہے، چناں چہ پیٹنا پڑا۔اب اس حالت میں تراویح کو جاتے کیا اچھے لگتے، لیکن جانا پڑتاہے۔ رازق کا رزق کھا نگل کر اسے چندسجدے نہ کرنا۔ اب ایسے تو برے حالات نہیں۔
زندگی بھر معاشرہ کے اس ریت رواج سے نکلنے کا آئیڈیا نہ آیا۔ جو چل رہا تھا لکیر کے فقیر کی مانند اسے پیٹ رہے تھے۔ پھر پتا ہے کیا ہوا؟ سچ بتائیں تو ہمیں بھی نہیں پتا کیا ہوا لیکن آہستہ آہستہ شعور انگڑائیاں لینے لگے۔ حالاں کہ شعور کو کسی نے بتایا نہیں تھا کہ یہ انگڑائیاں کیوں لے رہا ہے مگر پھر بھی لیے جارہا تھا (انگڑائیاں)۔ دھیرے دھیرے شعور کو خود ہی شعور آنے لگا کہ یہ انگڑائیاں بیدار ہونے کے لیے لے رہا ہوں۔ ایک دن شعور کا شعور انگڑائیاں لے کر بیدار ہوگیا کہ اب معاشرہ کے ریت رواج کو بدلا جائے۔ اس کے ساتھ ہی تجربات شروع ہوگئے۔ سب سے پہلے سموسوں پکوڑوں سے ہاتھ کھینچے۔ یہ بات ہمیں لکھنے میں اور آپ کو پڑھنے میں جتنی آسان معلوم ہورہی ہے حقیقت میں اتنی ہےنہیں۔
شدید بھوک پر گرم سموسوں پکوڑوں کی بھاپ اڑاتی مہک۔ اس سے جان چھڑانا جان جوکھوں کا کام ہے۔ لہٰذا دل کے بہلانے کو ابا کا غصہ یاد کرنے لگے۔ اللہ انہیں جوار رحمت میں جگہ دے اکثر کہا کرتے تھے کہ کون احمق ہے جس نے افطاری میں پکوڑوں چھولوں کو رواج دیا جنہیں کھا کر ضرورت سے زیادہ پیاس لگتی ہے۔
بہرحال ساری اشیاء خورد و نوش سے صرف نظر کرتے ہوئے چند کھجوریں کھائیں، شربت کے کئی گلاس حلق میں انڈیلے اور سوئے مسجد چلے۔لیکن یہ کیا معاملہ تو جوں کا توں رہا۔ واپس لوٹے تو حسب معمول بھوک پیاس نہیں تھی۔ کھانے کا دسترخوان سجا ہے مگر طبیعت میں چنداں رغبت نہیں۔ حسب معمول رواجاً کھایا، چائے پی اور تراویح پڑھنے چلے گئے۔
مجال ہے جو پورے رمضان رات کو سوتے ہوں۔ چناں چہ اصلی تے خالص بھوک رات کو دو بجے لگتی ہے۔ رات کے اس پہر کون اٹھ کر کھانا بنائے مجبوراً نمکو بسکٹ کھا کر گزارا کرنا پڑتا۔ پھر ہوتا یہ کہ بے وقت کھانے سے سحری میں بھوک نہیں لگتی لیکن مجبوراً ٹھونسنا پڑتا۔ سارے دن کی بھوک کا خوف جو سر پر سوار رہتا۔
تو بات ہورہی تھی کہ روٹین بدلی، دل پر جبر کیا سموسوں پکوڑوں سے کنارہ کیا مگر معاملہ وہی مرغے کی ایک ٹانگ رہا۔ یعنی بھوک ندارد۔ بہت سوچا کہ مسئلہ حل کیوں نہ نکلا پھر اچانک ایک نیا آئیڈیا ذہن میں آن وارد ہوا۔ اگلے روز افطاری میں چند کھجوریں کھائیں اور سادہ پانی پیا۔ گھر سے باہر نکلے تو ایسے ہلکے پھلکے جیسے ہواؤں میں اڑ رہے ہوں یا بادلوں پہ چل رہے ہوں۔ مغرب پڑھ کر گھر آئے تو بھوک کی تیزی اور چمک جوبن پر تھی۔ طبیعت میں کوئی بھاری پن نہیں تھا۔ خوب ڈٹ کے کھایا، چائے پی اور پھر بھی ہشاش بشاش رہے۔ جاگتی آنکھوں کھلے کانوں تراویح پڑھی سنی۔ رات کو دو بجے بھوک لگی تو اسنیکس کی بجائے پھلوں سے پیٹ بھرا۔ جب وقت سحر آیا تو جی نہ متلایا، خوب پیٹ کھول کر کھایا ( دل کھول کر کھانے کا لکھنا مناسب معلوم نہ ہوا۔)
یہ تجربہ کامیاب ہوگیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ خالی معدہ میں پانی جائے تو بیس منٹ میں پاس ہوجاتا ہے۔ لیکن پانی کے ساتھ ٹھوس غذا معدہ میں موجود ہو تو پانی کو ہضم ہونے میں، معدہ سے اترنے میں ڈیڑھ دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ کھانا پانی دو گھنٹے آپ کے معدہ میں پھنسا رہتا ہے۔ پانی کی نسبت شربت کا بھی یہی حال ہے کہ وہ دیر سے ہضم ہوتا ہے اوپر سے اس میں موجود شکر آپ کی بھوک مٹا دیتی ہے۔جب سے یہ راز ہاتھ لگا ہم پندرہ بیس منٹ مزید انتظار کرنے لگے۔ انتظار کا یہ عرصہ مغرب کی نماز ادا کرنے میں گزر جاتا۔

اب ہم افطار پر یہی سوچ کر دل کو بہلاتے ہیں کہ جہاں پندرہ گھنٹے صبر کیا پندرہ منٹ اور سہی!!!
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
میں نے ان مسائل کا یہ حل نکالا ہے کہ افطار کے وقت کو کھانے کا وقت تصور کر لیتا ہوں اور نماز مغرب کے بعد ہی جو کچھ کھانا ہوتا ہے، کھا لیتا ہوں۔ یوں سحری کے وقت روزہ رکھنے میں سہولت ہو جاتی ہے۔ آنجناب نے تو افطار سے سحری تک کھاتے ہی چلے جانا ہے تو اس کا کیا علاج!
 

سیما علی

لائبریرین
جب وقت سحر آیا تو جی نہ متلایا، خوب پیٹ کھول کر کھایا ( دل کھول کر کھانے کا لکھنا مناسب معلوم نہ ہوا۔)
یہ تجربہ کامیاب ہوگیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ خالی معدہ میں پانی جائے تو بیس منٹ میں پاس ہوجاتا ہے۔ لیکن پانی کے ساتھ ٹھوس غذا معدہ میں موجود ہو تو پانی کو ہضم ہونے میں
بس کوشش کرنا ہے کہ زندہ رہنے کے لئے غذا ہے نہ کہ غذا کے لئے زندگی !!!اور خالی معدہ سے ہی تو پروردگار ہمارا علاج چاہتا ہے ۔۔۔روح کا علاج بھی اور جسم کا بھی ۔۔۔بس کوشش کرنا ہمارا کام ہے ۔۔۔
 

اکمل زیدی

محفلین
بہت عمدہ عمران بھائی۔۔۔کہاں رہے ۔۔باقی تحریر ہمیشہ کی طرح عمدہ ۔۔۔
خاص کر
ؐ دھیرے دھیرے شعور کو خود ہی شعور آنے لگا کہ یہ انگڑائیاں بیدار ہونے کے لیے لے رہا ہوںؐ
 

فاخر رضا

محفلین
سلام
بہت عمدہ تحریر اور عمدہ طریقہ
اگر تلی ہوئی اشیاء چھوڑ دی جائیں تو آدھا مسئلہ خود بخود حل ہوجائے گا.
ہماری اصل کمزوری تلی ہوئی چیزیں ہی ہیں.
میں نے بس یہ چیزیں چھوڑ دی ہیں.
مغرب کی نماز میں آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے لہٰذا اس کے بعد کھانا اور پھر بس سحری.
سحری میں بھی اندھا دھند پانی پینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے. اس سے بھی پرہیز اچھا ہے
 

سید عمران

محفلین
سلام
بہت عمدہ تحریر اور عمدہ طریقہ
اگر تلی ہوئی اشیاء چھوڑ دی جائیں تو آدھا مسئلہ خود بخود حل ہوجائے گا.
ہماری اصل کمزوری تلی ہوئی چیزیں ہی ہیں.
میں نے بس یہ چیزیں چھوڑ دی ہیں.
مغرب کی نماز میں آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے لہٰذا اس کے بعد کھانا اور پھر بس سحری.
سحری میں بھی اندھا دھند پانی پینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے. اس سے بھی پرہیز اچھا ہے
بہترین!!!
 

اے خان

محفلین
ہمرا تجربہ تو یہ ہے کہ افطاری کے وقت خوب کھائیں پانی وقفے وقفے سے گھونٹ گھونٹ پیا کریں اور منہ میں نسوار رکھ کر مسجد تک جائیں مسجد قریب آکر نسوار تھوکے نماز پڑھ کر واپس گھر آکر کمرے کا دروازہ بند کر کریں اور پھر نسوار رکھ کر چھت کو گھورتے کچھ وقت لیٹے رہے نسوار کا صحیح مزہ لے سب صحیح رہے گا
 

اکمل زیدی

محفلین
ہمرا تجربہ تو یہ ہے کہ افطاری کے وقت خوب کھائیں پانی وقفے وقفے سے گھونٹ گھونٹ پیا کریں اور منہ میں نسوار رکھ کر مسجد تک جائیں مسجد قریب آکر نسوار تھوکے نماز پڑھ کر واپس گھر آکر کمرے کا دروازہ بند کر کریں اور پھر نسوار رکھ کر چھت کو گھورتے کچھ وقت لیٹے رہے نسوار کا صحیح مزہ لے سب صحیح رہے گا
اور باقی شہر وں کے لوگ کیا کریں ۔ ۔ ۔ :unsure:
 

سیما علی

لائبریرین
اور باقی شہر وں کے لوگ کیا کریں ۔ ۔ ۔ :unsure:
اپنے طور طریقے عام دنوں میں بھی درست رکھیں اور خاص طور سے رمضان میں تو نسوار گٹکے اور پان چھالیہ سے دور رہیں ۔کیونکہ دین میں کوئی مذاق نہیں اور رمضان کے احترام کا خاص خیال رکھیں ۔۔۔
اللہ پاک ہمیں ماہِ رمضان کی خصوصیت سے برکتوں سے مالا مال فرمائے اور ہمیں خوب عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
 
آخری تدوین:

اکمل زیدی

محفلین
اپنے طور طریقے عام دنوں میں بھی درست رکھیں اور خاص طور سے رمضان میں تو نسوار گٹکے اور پان چھالیہ سے دور رہیں ۔کیونکہ دین میں کوئی مذاق نہیں اور رمضان کے احترام کا خاص خیال رکھیں ۔۔۔
اللہ پاک ہمیں ماہِ رمضان کی خصوصیت سے برکتوں سے مالا مال فرمائے اور ہمیں خوب عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
الہی آمین ۔ ۔ ۔ آپا یہ تو خان صاحب سے ذرا لائٹ نوٹ پر بات کی تھی ۔ ۔ ۔ باقی آپ کی بات سے سو فیصد اتفاق خدا ہم سب کو بہترین استفادہ کرنے کی توفیق عنایت کرے الہی آمین ۔ ۔
 

اکمل زیدی

محفلین
باقی شہر والوں کے اپنے طریقے ہوں گے
شہر کراچی کی بات کریں تو پان، گٹکا، ماوا، چھالیہ منہ میں رکھیں 😀
بھائی صاحب کراچی شہر کو آپ نے کیا سمجھا ہوا ہے لگتا ہے کراچی کا ذہن میں آتے ہی پچکاری ذہن میں آتی ہوگی ۔ ۔ ۔ آپ نے تو ابھی حال ہی میں چکر لگایا تھا کوئی احوال بھی نہیں لکھا کے کیسا لگا کراچی بس عمران بھائی ملاقات کی روداد میں کچھ بات ہو گئی تھی۔۔۔
 

اے خان

محفلین
بھائی صاحب کراچی شہر کو آپ نے کیا سمجھا ہوا ہے لگتا ہے کراچی کا ذہن میں آتے ہی پچکاری ذہن میں آتی ہوگی ۔ ۔ ۔ آپ نے تو ابھی حال ہی میں چکر لگایا تھا کوئی احوال بھی نہیں لکھا کے کیسا لگا کراچی بس عمران بھائی ملاقات کی روداد میں کچھ بات ہو گئی تھی۔۔۔
سر جی ہم نے کراچی کو کراچی سمجھا ہے ہلکا پھلکا مذاق کررہا ہوں
کراچی ہمیں بہت اچھا لگا مددگار قناعت پسند لوگ، ذائقے دار کھانے، اچھے دوست
 
Top