راشد اشرف
محفلین
پورے، آدھے، ادھورے ۔عابد سہیل کے خاکے
راشد اشرف، کراچی۔3 فروری 2016
----------
انگریز ی ادب میں
light essay
کے نام سے رائج صنف ادب اردو زبان میں خاکہ کہلاتی ہے۔ شخصی خاکہ........ایک دلچسپ صنف ادب جس میں مصنف لطیف انداز میں اپنی بات کہہ دے۔یہ نہ ہو کہ خاکہ لکھنے بیٹھے اور خاکہ اڑانے پر تان ٹوٹے۔ یہاں کراچی میں ایک ایسا واقعہ بھی دیکھا کہ لکھنے والے نے خاکوں کی کتاب لکھی اور اس میں ایک صحافی ، ادیب و مترجم پر ’’ربڑ کا مگر مچھ ‘‘ کے نام سے خاکہ لکھ دیا۔ مگر مچھ کے بجائے اگر مصنف انہیں ’’اگر مچھ‘‘ کا نام دے دیتا تو بات مبہم ہوجاتی.... بلا ٹل جاتی۔جن صاحب کا خاکہ تھا انہیں بہت برا لگا اور وہ عدالت چلے گئے۔ لکھنے والے کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ نوواردانِ بساط ادب کو بھی کان ہوئے کہ لکھتے وقت زیادہ ترنگ میں آنا مناسب نہیں ہوتا۔ کھال میں رہنا ہی مناسب .......اپنی کھال میں .....مگر مچھ کی کھال میں نہیں۔
صاحبو! یہ تمہید یوں باندھی کہ کچھ تمہید تو باندھنی ہی تھی۔
ہند سے کتابوں کے تازہ موصول شدہ پارسل کو کھولنے کی دیر تھی کہ رنگ ہی رنگ بکھر گئے۔ ایسا ہی ایک رنگ جناب لکھنؤ کے عابد سہیل کے خاکوں کی حالیہ کتاب ’’پورے ،آدھے، ادھورے‘‘ کا بھی ہے۔ سرورق کا کیا کہیئے، بنانے والے نے اپنے فن کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ کرب میں مبتلا کئی چہرے نظر آتے ہیں۔ (سرورق کا لنک پوسٹ کے آخر میں درج کردیا گیا ہے)
بھارت میں شخصی خاکے و تذکرے بہت لکھے گئے۔
اس صنف ادب میں بڑے بڑے نام ہمارے پیش نظر ہیں: رشید احمد صدیقی ،خواجہ حسن نظامی، عبد الرزاق کان پوری، جگن ناتھ آزاد، مالک رام، علی جواد زیدی، کشمیری لال ذاکر، مجتبیٰ حسین، اسلوب احمد انصاری، سید اعجاز حسین، انیس قدوائی، باقر مہدی، انور ظہیر خان،ندا فاضلی، نند کشور وکرم، یوسف ناظم، پروانہ ردولوی، حامد اللہ ندوی، حفیظ نعمانی، خواجہ احمد عباس، دور آفریدی، رفعت سروش، سلیمان اطہر جاوید، سید صباح الدین عبدالرحمن، سید محمد حسنین، سید محمود الحسینی، صالحہ عابد حسین، عارف جمیل، عبدالحفیظ قتیل، عنوان چشتی، عوض سعید،غلام رضوی گردش،قیصر عثمانی ۔مظفر گیلانی اور بہت سے دوسرے۔
اور پھر دلی والے کے تحت چار کتابوں کے سلسلے کو تو نظر انداز کیا ہی نہیں جاسکتا۔
’’پورے ،آدھے، ادھورے‘‘ کا انداز شوخ و شنگ ہے۔ دل لبھاتا ہوا۔ اور کہیں کہیں قدرے سنجیدہ بھی۔ 87 برس کے عابد سہیل نے اس استحقاق کا بھرپور استعمال کیا تھا جو ان کو ایک بزرگ لکھاری کی حیثیت سے حاصل تھا۔ ایک نیک نام صحافی .....ایک معتبر حوالہ۔ کہیں کہیں ان کا دل کیا کہ جو لکھناچاہتے ہیں ، جو دیکھا ہے وہ لکھ دیں ، مگر وہ ایسے کئی موقعوں پر طرح دے گئے۔ اشاروں کنائیوں میں بات کہی جو حیرت و تجسس کے عنصر یا کسی حد تک کہیے کہ
element of surprise
کی وجہ سے او ر زیادہ بھلی معلوم ہوئی۔ ’’پورے ،آدھے، ادھورے‘‘ میں سوانحی، تعارفی، تاثراتی غرضکہ ہر طرح کے خاکے شامل ہیں۔
افسوس کہ ہند کے یہ بزرگ ادیب، صحافی و خاکہ نگار، ماہنامہ کتاب کے مدیر26 جنوری 2016 کی شام کو ممبئی میں انتقال کرگئے جہاں وہ اپنے بھائی سے ملاقات کے لیے لکھنؤ سے گئے تھے۔ چند سال قبل عابد سہیل کی ضخیم خودنوشت ’’جو یاد رہا‘‘ شائع ہوئی تھی۔ اس سے قبل ان کے خاکوں کا ایک مجموعہ ’’کھلی کتاب‘‘ کاکوری پریس لکھنو سے شائع ہوکر اردو دان طبقے کی توجہ حاصل کرچکا تھا۔ ’’کھلی کتاب‘‘ میں 15 شخصیات کے خاکے ہیں جبکہ ایک خاکہ اولڈ انڈیا کافی ہاؤس پر ہے۔ان کی دیگر کتابوں میں غلام گردش، حرف کائنات اور سب سے چھوٹا غم شامل ہیں ۔
’’پورے ،آدھے، ادھورے‘‘ کو دلی کے عرشیہ پبلی کیشنز نے 2015 کے اواخر میں نہایت اہتمام سے شائع کیا ہے۔ عابد سہیل نے جن شخصیات کے بھرپور خاکے لکھے ہیں ان میں شامل ہیں مجاز، احسن فاروقی، سلامت علی مہدی، سید سبط محمد نقوی، صباح الدین عمر،قمر رئیس، نیر مسعود، شمس الرحمان فاروقی اور ڈاکٹرمحمد حسن جبکہ وہ خاکے جو خاکے کم اور تذکرے زیادہ کہلائے جانے کے حق دار ہیں ان میں چند نام یہ ہیں: سریندر کمار مہرا، قیصر تمکین، شوکت صدیقی،عرفان صدیقی، کیفی اعظمی، ہری کرشن گوڑ وغیرہ۔
کتاب کے پیش لفظ میں عابد سہیل لکھتے ہیں کہ :
’’مجنوں گورکھ پوری نے کہا تھا کہ موضوع مصنف کے ذہن میں واضح نہ ہو تو زبان گنجلک ہوجاتی ہے۔ یہ بات سولہ آنے صحیح تو اس وقت معلوم ہوئی مگر ثابت ’کھلی کتاب‘ کی اشاعت کے وقت ہوئی۔ میرے پاس خاکہ نگاری کے بارے میں لکھنے کو تو کچھ خاص نہیں تھا سو میں نے بقراطیت سے کام چلانا چاہا۔ غالب کو شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا تھا، مجھے میری بقراطیت لے ڈوبی۔ ‘‘
کھلی کتاب کے بارے میں جو کچھ عابد سہیل مرحوم نے کہا تھا وہ شاید سچ ہو مگر ’’پورے ،آدھے، ادھورے‘‘ میں انہوں نے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی رہے۔1962 سے 1975 تک شائع ہونے والے اپنے ماہنامہ ادبی جریدے ’’کتاب‘‘ پر بھی ان کا ایک مضمون ’’پورے ،آدھے، ادھورے‘‘ کے آخر میں شامل ہے ۔
مجاز کے خاکے میں عابد سہیل نے مجاز پر فرحت اللہ انصاری کے ایک اہم اور مشہورمضمون کی نشان دہی کی ہے جو ’’شاعرِ محفل وفا، مطربِ بزمِ دلبراں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ کہاں ، اس بات کی تفصیل بیان نہیں کی گئی ۔ ہند کے احباب اگر اس بارے میں کچھ بتا سکیں تو ان کی عنایت ہوگی۔ مضمون فراہم کرسکیں تو کیا ہی کہنے۔
مجاز نے عابد سہیل کو اپنی ایک غز ل فراہم کی تھی جو ان کے دل پر نقش ہوگئی اور آنے والے وقت میں انہوں نے ہمیشہ اس کلام کو 5 مئی 1955 کے المیے سے منسلک کرکے دیکھا۔ ملاحظہ کیجیے
تری آواز آئی آسماں سے
مگر میں جانبِ دل دیکھتا ہوں
اشارہ ہے ترا طوفاں کی جانب
مگر میں ہوں کہ ساحل دیکھتا ہوں
مجاز اور مئے کدے میں سر بہ زانو
مآلِ زعمِ باطل دیکھتا ہوں
عابد سہیل نے مجاز کی بذلہ سنجی کے دو واقعات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ ایک روز سلام مچھلی شہری کافی ہاؤس میں کچھ اداس اداس بیٹھے تھے۔ وہ اپنی شعری حصولیابیوں سے تو مطمئن تھے لیکن انہیں یہ احساس بھی تھا کہ ان کی عوامی مقبولیت ان کی شعری حیثیت کے پاسنگ بھی نہیں۔ اسی وقت مجاز آگئے۔ ان کے دریافت کرنے پر سلام نے انہیں اپنے دل کی بات بتا دی۔ مجاز کو نسخہ شفا تجویز کرنے میں ذرا دیر نہ لگی۔ اور کہا : اس میں اداس ہونے کی کیا بات ہے۔ تم اپنی تخلیقات کا ترجمہ انگریزی میں کرا لو۔ میں انہیں دوبارہ اردو میں منتقل کردوں گا اور تم راتوں رات مشہور ہوجاؤ گے۔‘‘
**
ایک روز کافی ہاؤس میں سلام مچھلی شہری نے ڈاکٹر عبدالعلیم سے پوچھا : ڈاکٹر صاحب!
Dialectical Materialism
کا ترجمہ کیا ہوگا؟
علیم صاحب نے کہا:جدلیاتی مادیت مرو ج ہے۔ ویسے صحیح ترجمہ تو......انہوں نے داڑھی کھجائی، تھوڑا سا سوچا ۔پھر کہا صحیح ترجمہ تو...
ہر شخص گوش بر آواز ہوگیا۔
علیم صاحب نے ایک بار پھر سوچا اور کہا:صحیح ترجمہ تو فلسفہِ ارتقائے اجتماع بالضدین ہوگا۔
مجاز نے جو بہت دیر سے خاموش بیٹھے تھے معصومیت سے پوچھا: ڈاکٹر صاحب! یہ خواجہ غلام السیدین کے بڑے بھائی تو نہیں ہیں ؟
**
عابد سہیل نے جب مجاز کو دیکھا تو اس وقت مجاز اپنی زندگی کے بہترین دنوں کی بھولی بسری یاد بن چکے تھے۔ مجاز پر کیا کچھ نہیں لکھا گیا۔تلخ اور افسردہ یادوں کا ایک انبار ہے جو مجاز پر لکھی کتابوں میں ملتا ہے۔ عابد سہیل رات گئے گھر واپس جارہے تھے۔ منکی برج پر مکمل سناٹا تھا۔اس سناٹے میں ایک دردناک آواز ابھری ..’’ماں‘‘...اور پھر یہ آواز بار بار ابھری اور ڈوبی۔ یہ مجاز تھے جو اپنی والدہ کو بہ آواز بلند یاد کررہے تھے۔ مجاز کی والدہ نے ایک مرتبہ ڈاکٹر محمد حسن سے، جو مجاز سے ملنے لکھنؤ آئے تھے، بھرائی ہوئی آواز میں کہا تھا: ’’ بھیا! اب تم سب تو چلے گئے۔ یہاں ان کو نئے دوست مل گئے ہیں۔پھر پلانی شروع کردی ہے۔ میں تو ان کے علاج میں تباہ ہوگئی۔ تم ان کو سمجھاؤ۔‘‘
اس تمام عرصے میں مجاز ایک کونے میں بیٹھے بالوں میں انگلیاں پھیرتے رہے تھے۔وہ شراب کے ہاتھوں مجبور تھے۔ایک موقع پر تو انہوں نے ڈاکٹر محمد حسن سے کہہ کر دیوان حافظ سے فال بھی نکلوائی تھی۔ اور یہ شعر سامنے آیا تھا
تاز مے خانہ و مے نام و نشاں خواہد بود
سرِ ما خاکِ رہِ پیرِ مغاں خواہد بود
لال باغ کے ایک دیسی شراب خانے میں 4 دسمبر کی برفانی رات کو تین بجے ان کے دوست ان کو مدہوشی کے عالم میں چھوڑ کر چمپت ہوئے تھے۔ اگلے د ن مئے خانہ کھلا تو وہ چھت پر بے ہوش پائے گئے۔
عصمت چغتائی نے کہا کہ میں نے اکثر مجاز کو اس کی بعض عادتوں پر ڈانٹا اور ایک مرتبہ غصے میں یہ تک کہہ دیا کہ اس سے بہتر تو تھا مجاز کہ تم مرجاتے۔
مجاز نے جیسے منہ پر طمانچہ مار دیا اور کہا کہ: لو میں مر گیا۔ تم اس کو اتنا بڑا کام سمجھتی تھیں ؟
یہاں ہمیں مجتبی حسین (پاکستان والے) کی کتاب نیم رخ میں مجاز کے خاکے کی چند سطور یاد آگئیں۔ مجتبی حسین کی مجاز سے آخری ملاقات کراچی میں ہوئی جہاں مجاز مشاعرہ پڑھنے آئے تھے۔ ہڈیوں کے ڈھانچے کی مانند۔خاصا مجمع تھا، طلبہ کا غلبہ تھا۔ مجاز نے ’’آوارہ ‘‘کے چند بند سنائے مگر پھر نقاہت کے باعث اسے درمیان ہی میں چھوڑ کر اسٹیج پر جابیٹھے۔ ادھر سامعین کا شور کہ وہ مجاز کو سننا چاہتے ہیں۔ مجتبی حسین لکھتے ہیں:
بارے مجاز ڈائس پر آئے۔انہوں نے ’’اعتراف‘‘ سنانی شروع کی۔ وہ پڑھ نہیں پا رہے تھے۔ ان کی سانس بار بار ٹوٹ جاتی اور وہ رک جاتے۔ انہیں مستقل کھانسی آرہی تھی اور وہ ہر جھٹکے کے ساتھ سینہ تھام لیتے ۔طلبہ کا مجمع کچھ بے چین اور بے کیف ہوا جارہا تھا۔ بعض گوشوں سے ہوٹنگ بھی شروع ہوچکی تھی۔ مگر مجاز سامعین کی اکتاہٹ سے بے خبر ہوکر پڑھے جارہے تھے:
خاک میں آہ ملائی ہے جوانی میں نے
شعلہ زاروں میں جلائی ہے جوانی میں نے
شہر خوباں میں گنوائی ہے جوانی میں نے
خواب گاہوں میں جگائی ہے جوانی میں نے
ان کی آواز میں ایک عجیب حزن آگیا تھا۔ مجاز اپنی بربادی کا مرقع بنے ہوئے نظم پڑھ رہے تھے۔ ان کی لے جس کا سلسلہ کبھی ٹوٹتا نہیں تھا، بیچ میں ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھی۔مگر اس ٹوٹ جانے میں بھی ایک کیفیت تھی۔ ایک عظیم شکست و ریخت کا تاثر تھا۔ رفتہ رفتہ مجمع کی ہنسی رک گئی۔ اور خاموشی چھا گئی۔دفعتاً میرے پاس بیٹھے ہوئے ایک طالب علم نے دوسرے سے پوچھا ’یہ کون شاعر ہے ۔‘
معلوم نہیں اس نے کیا جواب دیا۔ کیا جانے اسے بھی معلوم ہو یا نہ رہا ہو۔ میں اس سوال کے بعد کچھ اور نہیں سن سکا۔ زمانہ اتنا بدل گیا ہے، اس کا احساس مجھے اس وقت ہوا۔ جس مجاز کے نام پر بقول عصمت چغتائی، لڑکیاں قرعے ڈالتی تھیں۔جس کے نام کی قسمیں کھائی جاتی تھیں۔ آج اسے ایک درس گاہ کی ادبی محفل میں طالب علم جانتے بھی نہیں۔
اس کے بعد میں مجاز سے کبھی نہیں مل سکا۔
(نیم رخ، خاکے، مجتبی حسین، پاک پبلشر کراچی-1978 )
مجاز یوں تو بذلہ سنج بھی تھے اور فقرے باز بھی مگر دو واقعے ایسے بھی ہوئے کہ وہ خود بھی سٹپٹا کر رہ گئے۔ ان واقعات کے راوی ڈاکٹر ابو الخیر کشفی ہیں جنہوں نے اسے مجاز کی 'شکست' قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں:
(1)
مجاز بمبئی کے ایک مشاعرے میں اپنا کلام سنانے کھڑے ہوئے۔ لوگ فرمائشیں کرنے لگے۔ کسی نے کہا: 'آوارہ" پڑھیے۔
ایک سریلی آواز نے کہا: 'اعتراف' سنائیے۔
کسی اور نے کہا: 'بتان حرم' سنائیے۔
ایک بمبیا سیٹھ بھی بولے: 'مزاج' صاحب! وہ 'نجم' سنائیے
"رہبری چالو رہی پیگمبری چالو رہی"
مجاز کے قدم مشاعرے کے اسٹیج پر لرز گئے۔ مجاز کی نظم 'خواب ِ سحر' کا ایک مصرع یہ بھی ہے ؎
رہبری جاری رہی پیغمبری جاری رہی
(2)
ایک مجلس میں مجاز اپنی نظمیں سنا رہے تھے۔ اپنے زمانے کی مشہور اداکارہ نگار سلطانہ بھی موجود تھیں۔ جب مجاز نے یہ مصرع پڑھا ؎
میرے لب تک لب لعلین نگار آہی گیا
تو محترمہ چمک کر بولیں: مجاز صاحب! ابھی کہاں آیا۔
مجاز کے ہونٹ خشک ہوگئے۔
(یہ لوگ بھی غضب تھے، ابو الخیر کشفی، فیروز سنز، 1989)
**
عابد سہیل کی کتاب میں چند ایسے اشخاص کے خاکے اور تذکرے بھی ہیں جن کا شعر و ادب سے کوئی تعلق نہ تھا مگر انہوں نے مصنف کسی نہ کسی پہلو سے متاثر ضرور کیا تھا۔ ایسے ہی ایک صاحب اودھ کشور سرن کے مختصر سے تذکرے کا یہ رنگ دیکھیے۔ یونیورسٹی کانوکیشن جاری تھی۔ سی بی گپتا نے نخوت بھرے لہجے میں اگلی قطار میں بیٹھے انتہائی کم صورت کشور سرن کی طرف دیکھا اور حقارت سے پوچھا:
who is he
کسی نے کہا یہ ڈاکٹر سرن ہیں۔
گپتا آہستہ سے بولے :
I will see
یہ سنتے ہی کشور سرن کھڑے ہوگئے۔ ان کا چہرہ غصے سے تپ رہا تھا۔ انہوں نے کہا:
Mr Gupta, what can you see of me? You can take away my cloths, my job, my specs and nothing more. But can you take away my intellect ? Moreover, of what use will that be to you ?
ہر طرف سناٹا چھا گیا۔
**
ایسے ہی ایک عام سے شخص خواجہ محمد فائق کا خاکہ بھی خوب ہے۔ دلچسپیوں سے بھرپور اس خاکے میں عابد سہیل نے اپنے قاری کو چٹکلوں سے محظوظ کیا ہے۔ فائق کو اپنی بیوی سے بہت محبت تھی مگر اس کے باوجود انہوں نے دوسری شادی کرلی تھی۔ نام ان کا فائق تھا اوروہ عورتوں کے شائق تھے۔ دوسری شادی تو کرلی تھی مگر کام کچھ نہ کرتے تھے۔ ایک روز عابد سہیل نے ان سے پوچھا: دوسرے گھر کا خرچہ کیسے چلاتے ہو ؟
ذرا فائق کا جواب توسنیے:
’’ اللہ مسبب الاسباب ہے۔ ’کتا‘ گھر میں گھس آتا ہے تو ہملکڑی کا چیلا ہاتھ میں لے کے بھگاتے بھگاتے دوسری کے گھر تک چلے جاتے ہیں۔ امی کا پاندان کھول کر دو دانے منہ میں ڈال لیتے ہیں تو دو ڈلی جیب میں۔یوں ہی مزے سے کٹ رہی ہے۔‘‘
فائق آزادی کے بعد مشرقی پاکستان چلے گئے تھے۔ عابد سہیل لکھتے ہیں کہ:
’’ وہاں جا کر شاعر بن گئے۔ مشاعروں میں کلام پڑھتے تھے۔مشاعروں میں مقبول ہونے لگے۔ یہاں سے غزلیں منگاتے تھے۔پھر خط آیا کہ اب نئے لوگوں کی چیزیں بھیجا کرو، لوگ آتش اور غالب کو پہلے ہی جان گئے تھے اب جذبی اور مجاز سے بھی واقف ہوگئے ہیں۔فائق بھی غضب کے آدمی تھے۔ نواب سلطان کا مرغ گھر میں آگیا تو پکا کر کھا لیا اور پر میرے کمرے کے سامنے ڈال دیے۔ نواب سلطان بہت ناراض ہوئے۔ ایک تو ان دنوں کنکوے بہت کٹ رہے تھے ،دوسرے ان کا چہیتا مرغ میں کاٹ کے کھا گیا تھا۔ فائق نے انہیں میرے بارے میں سمجھا دیا: ’کمیونسٹ ہیں اللہ رسول کو نہیں مانتے۔ ان کے لیے کیا اچھا کیا برا‘۔ اور لطف یہ کہ یہ سب مجھے ہنس ہنس کر بتا بھی دیا۔‘‘
عابد سہیل نے سبط محمد نقوی کے خاکے میں ایک مشاعرے کی تفصیل بیان کی ہے۔یہ ان کی خوبی ہے کہ شخصی خاکوں میں گرد و پیش کے واقعات کو بھی دلچسپ انداز سے پیش کرتے ہیں۔ مذکورہ مشاعرے کی خاص بات بالترتیب بشیر فاروقی اور عمر انصاری کے وہ دو شعر تھے جنہوں نے مشاعرہ لوٹ لیا تھا
اڑ گیا تو شاخ کا پورا بدن جلنے لگا
دھوپ رکھ دی تھی پرندے نے پروں کے درمیاں
ہوا یہ ہے کہ گزارے نہیں گزرتا ہے دن
سنا یہ تھا کہ نہیں وقت کو ہے کہیں قیام
نقوی صاحب ان اشعار کو سن کر کہیں کھو سے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد ’’واہ‘‘ کہتے ،خاموش ہوجاتے،پھر واہ،واہ کسی قدر بلند آواز سے کہتے۔ایک موقع پر تو انہوں نے سب کی نظریں بچا کر اپنے آنسو بھی صاف کیے تھے۔
**
عابد سہیل کی خاکہ نگاری کا ایک وصف اس وقت سامنے آتا ہے جب وہ اپنے ممدوح کا حلیہ بیان کرتے ہیں۔ سلامت علی مہدی کا خاکہ اس کی بہترین مثال ہے:
’’مولانا حسرت موہانی سے بھی دبتا ہوا قد۔ شبِ دیجور سے چشمکیں کرتا ہوا رنگ۔ چہرے پر چیچک کے داغ، سر کے بال ا س قدر سیاہ کہ لگتا تھا کہ شاید پیدا ہی رنگے رنگائے ہوئے ہیں۔ ‘‘
سلامت علی مہدی بھی عجیب و غریب شخصیت کے مالک تھے۔ ابن صفی مرحوم کے الفاظ میں کہیے تو خالص ’’ترکیبی‘‘ ذہن کے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب ان پر وقت پیمبری آن پڑا تھا۔
اس کڑے وقت میں ایک روز انہوں نے اپنی اہلیہ سے پوچھا’’برقعہ ہے؟‘‘
جواب ملا:اے لو،برقعہ نہیں ہوگا۔ایک نہیں دو، دو ہیں۔
کہا: اور تیری زبیدہ ان پِلّوں [بچوں]کو رکھ لے گی ، دس بارہ دن کے لیے ؟
بیگم: کیوں نہیں ۔
’’تو ٹھیک ہے‘‘۔ سلامت اللہ بولے۔’’ ایک بکسے میں دو چار جوڑے کپڑے ڈال لے اور دو چار میرے بھی اور شیو کا سامان ،بلیڈ، سیفٹی ریز، ایک چپل اور اپنی ضرورت کی چیزیں۔‘‘
ارے کہاں لے جارہے ہو ؟
کہیں نہیں۔بس جو کہتا ہوں بس وہی کر۔
انہوں نے امرتسر کا ٹکٹ کٹایا اور میاں بیوی دوسرے درجے کے ایک عام ڈبے میں بیٹھ گئے۔ امرتسر آنے کو ہوا تو سلامت علی مہدی کے اشارے پر بیوی نے سیٹ کے نیچے سے بکسا کھینچا ،اندر ہاتھ ڈال کے ادھر ادھر ٹٹولا اور برقعہ نکال کر پہنچ لیا۔
میاں بیوی پلیٹ فارم پر اترے تو بھیڑ لگ گئی۔جدھر جاتے بھیڑ پیچھے پیچھے چلتی۔ معاملہ اصل میں یہ تھا کہ آزادی کے بعد کی ایک نسل جوان ہوگئی تھی جس نے کسی چھوٹے موٹے مقبرے کو یوں چلتے پھرتے نہ دیکھا تھاسو ہاتھوں ہاتھ لیے گئے۔
دس بارہ دن کے ارادے سے گئے تھے، سوا مہینے بعد واپسی ہوئی۔ جاتے میں ایک ٹوٹا پھوٹا بکس ساتھ تھا،واپسی پر دو بہت عمدہ بکسوں کا اضافہ ہوگیا تھا جو کپڑوں اور تحفوں سے لبا لب بھرے ہوئے تھے۔ بیوی کے ہاتھ میں خوبصورت پرس تھا اور سلامت اللہ مہدی کی جیبیں سو سو، پچاس پچاس کے نوٹوں سے بھری تھیں۔
جو بولے سو نہال
ست سری اکال
یہی سلامت اللہ مہدی تھے جنہو ں نے کے .آصف کی فلم مغل اعظم کی شوٹنگ کے لیے تیرہ ہاتھیوں کی فراہمی کا ٹھیکہ لیا تھا۔ایڈوانس کی رقم وہ خرچ کربیٹھے تھے۔ادھر مغل اعظم اور شیخو کی فوجیں آمنے سامنے اس انتطار میں تھیں کہ ہاتھی آئیں تو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوں۔ سلامت اللہ مہدی نے کے .آصف کو جو کچھ بتایا تھا اس کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی کہ پہلے دن جب ہاتھی میدان میں ہونے چاہیے تھے تو اس وقت وہ ستائیس میل دور تھے، دوسرے دن بیس میل، تیسرے دن زبردست آندھی کی وجہ سے اسی جگہ، چوتھے دن دس میل اور پانچویں دن جب وہ منزل سے صرف دو میل دور تھے، نہ جانے کیسے بھڑک اٹھے اور جس کا جدھر منہ اٹھا ،وہ اسی سمت بھاگ لیا۔
’’میری فلم کا کیا ہوگا؟‘‘۔ ٹیلی فون پر کے .آصف نے پوچھا۔
’’میں تیرہ ہاتھیوں کی قیمت کہاں سے چکاؤں گا؟‘‘ ۔سلامت مہدی نے جواب دیا۔
کئی مہینوں بعد جب مغل اعظم کا ذکر نکلا تو سلامت اللہ مہدی نے عابد سہیل کو ہنستے ہوئے بتایا کہ’’ ایسے گھمسان کے رن میں بس ایک ہی ہاتھی سونڈ اٹھائے ہوئے کھڑا ہوا ہے ۔‘‘
**
شمیم احمد کرہانی نے خاکے کی تعریف میں کہا تھا: خاکہ نگاری ادب کی ایک صنف ہے جس میں شخصیتوں کی تصویریں اس طرح براہ راست کھینچی جاتی ہیں کہ ان کے ظاہر و باطن دونوں قاری کے ذہن نشین ہوجاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے قاری نے نہ صرف قلمی چہرہ دیکھا ہے بلکہ خود شخصیت کو دیکھا بھالا اور سمجھا بوجھا ہے۔‘‘
عابد سہیل کی یہ کتاب ’’پورے ،آدھے، ادھورے‘‘ شمیم کرہانی کی تعریف پر پوری اترتی ہے۔
آئیے ہم اپنے عہد کے ایک ایمان دار اور بااصول صحافی و ادیب کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے۔
راشد اشرف، کراچی۔3 فروری 2016
----------
انگریز ی ادب میں
light essay
کے نام سے رائج صنف ادب اردو زبان میں خاکہ کہلاتی ہے۔ شخصی خاکہ........ایک دلچسپ صنف ادب جس میں مصنف لطیف انداز میں اپنی بات کہہ دے۔یہ نہ ہو کہ خاکہ لکھنے بیٹھے اور خاکہ اڑانے پر تان ٹوٹے۔ یہاں کراچی میں ایک ایسا واقعہ بھی دیکھا کہ لکھنے والے نے خاکوں کی کتاب لکھی اور اس میں ایک صحافی ، ادیب و مترجم پر ’’ربڑ کا مگر مچھ ‘‘ کے نام سے خاکہ لکھ دیا۔ مگر مچھ کے بجائے اگر مصنف انہیں ’’اگر مچھ‘‘ کا نام دے دیتا تو بات مبہم ہوجاتی.... بلا ٹل جاتی۔جن صاحب کا خاکہ تھا انہیں بہت برا لگا اور وہ عدالت چلے گئے۔ لکھنے والے کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ نوواردانِ بساط ادب کو بھی کان ہوئے کہ لکھتے وقت زیادہ ترنگ میں آنا مناسب نہیں ہوتا۔ کھال میں رہنا ہی مناسب .......اپنی کھال میں .....مگر مچھ کی کھال میں نہیں۔
صاحبو! یہ تمہید یوں باندھی کہ کچھ تمہید تو باندھنی ہی تھی۔
ہند سے کتابوں کے تازہ موصول شدہ پارسل کو کھولنے کی دیر تھی کہ رنگ ہی رنگ بکھر گئے۔ ایسا ہی ایک رنگ جناب لکھنؤ کے عابد سہیل کے خاکوں کی حالیہ کتاب ’’پورے ،آدھے، ادھورے‘‘ کا بھی ہے۔ سرورق کا کیا کہیئے، بنانے والے نے اپنے فن کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ کرب میں مبتلا کئی چہرے نظر آتے ہیں۔ (سرورق کا لنک پوسٹ کے آخر میں درج کردیا گیا ہے)
بھارت میں شخصی خاکے و تذکرے بہت لکھے گئے۔
اس صنف ادب میں بڑے بڑے نام ہمارے پیش نظر ہیں: رشید احمد صدیقی ،خواجہ حسن نظامی، عبد الرزاق کان پوری، جگن ناتھ آزاد، مالک رام، علی جواد زیدی، کشمیری لال ذاکر، مجتبیٰ حسین، اسلوب احمد انصاری، سید اعجاز حسین، انیس قدوائی، باقر مہدی، انور ظہیر خان،ندا فاضلی، نند کشور وکرم، یوسف ناظم، پروانہ ردولوی، حامد اللہ ندوی، حفیظ نعمانی، خواجہ احمد عباس، دور آفریدی، رفعت سروش، سلیمان اطہر جاوید، سید صباح الدین عبدالرحمن، سید محمد حسنین، سید محمود الحسینی، صالحہ عابد حسین، عارف جمیل، عبدالحفیظ قتیل، عنوان چشتی، عوض سعید،غلام رضوی گردش،قیصر عثمانی ۔مظفر گیلانی اور بہت سے دوسرے۔
اور پھر دلی والے کے تحت چار کتابوں کے سلسلے کو تو نظر انداز کیا ہی نہیں جاسکتا۔
’’پورے ،آدھے، ادھورے‘‘ کا انداز شوخ و شنگ ہے۔ دل لبھاتا ہوا۔ اور کہیں کہیں قدرے سنجیدہ بھی۔ 87 برس کے عابد سہیل نے اس استحقاق کا بھرپور استعمال کیا تھا جو ان کو ایک بزرگ لکھاری کی حیثیت سے حاصل تھا۔ ایک نیک نام صحافی .....ایک معتبر حوالہ۔ کہیں کہیں ان کا دل کیا کہ جو لکھناچاہتے ہیں ، جو دیکھا ہے وہ لکھ دیں ، مگر وہ ایسے کئی موقعوں پر طرح دے گئے۔ اشاروں کنائیوں میں بات کہی جو حیرت و تجسس کے عنصر یا کسی حد تک کہیے کہ
element of surprise
کی وجہ سے او ر زیادہ بھلی معلوم ہوئی۔ ’’پورے ،آدھے، ادھورے‘‘ میں سوانحی، تعارفی، تاثراتی غرضکہ ہر طرح کے خاکے شامل ہیں۔
افسوس کہ ہند کے یہ بزرگ ادیب، صحافی و خاکہ نگار، ماہنامہ کتاب کے مدیر26 جنوری 2016 کی شام کو ممبئی میں انتقال کرگئے جہاں وہ اپنے بھائی سے ملاقات کے لیے لکھنؤ سے گئے تھے۔ چند سال قبل عابد سہیل کی ضخیم خودنوشت ’’جو یاد رہا‘‘ شائع ہوئی تھی۔ اس سے قبل ان کے خاکوں کا ایک مجموعہ ’’کھلی کتاب‘‘ کاکوری پریس لکھنو سے شائع ہوکر اردو دان طبقے کی توجہ حاصل کرچکا تھا۔ ’’کھلی کتاب‘‘ میں 15 شخصیات کے خاکے ہیں جبکہ ایک خاکہ اولڈ انڈیا کافی ہاؤس پر ہے۔ان کی دیگر کتابوں میں غلام گردش، حرف کائنات اور سب سے چھوٹا غم شامل ہیں ۔
’’پورے ،آدھے، ادھورے‘‘ کو دلی کے عرشیہ پبلی کیشنز نے 2015 کے اواخر میں نہایت اہتمام سے شائع کیا ہے۔ عابد سہیل نے جن شخصیات کے بھرپور خاکے لکھے ہیں ان میں شامل ہیں مجاز، احسن فاروقی، سلامت علی مہدی، سید سبط محمد نقوی، صباح الدین عمر،قمر رئیس، نیر مسعود، شمس الرحمان فاروقی اور ڈاکٹرمحمد حسن جبکہ وہ خاکے جو خاکے کم اور تذکرے زیادہ کہلائے جانے کے حق دار ہیں ان میں چند نام یہ ہیں: سریندر کمار مہرا، قیصر تمکین، شوکت صدیقی،عرفان صدیقی، کیفی اعظمی، ہری کرشن گوڑ وغیرہ۔
کتاب کے پیش لفظ میں عابد سہیل لکھتے ہیں کہ :
’’مجنوں گورکھ پوری نے کہا تھا کہ موضوع مصنف کے ذہن میں واضح نہ ہو تو زبان گنجلک ہوجاتی ہے۔ یہ بات سولہ آنے صحیح تو اس وقت معلوم ہوئی مگر ثابت ’کھلی کتاب‘ کی اشاعت کے وقت ہوئی۔ میرے پاس خاکہ نگاری کے بارے میں لکھنے کو تو کچھ خاص نہیں تھا سو میں نے بقراطیت سے کام چلانا چاہا۔ غالب کو شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا تھا، مجھے میری بقراطیت لے ڈوبی۔ ‘‘
کھلی کتاب کے بارے میں جو کچھ عابد سہیل مرحوم نے کہا تھا وہ شاید سچ ہو مگر ’’پورے ،آدھے، ادھورے‘‘ میں انہوں نے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی رہے۔1962 سے 1975 تک شائع ہونے والے اپنے ماہنامہ ادبی جریدے ’’کتاب‘‘ پر بھی ان کا ایک مضمون ’’پورے ،آدھے، ادھورے‘‘ کے آخر میں شامل ہے ۔
مجاز کے خاکے میں عابد سہیل نے مجاز پر فرحت اللہ انصاری کے ایک اہم اور مشہورمضمون کی نشان دہی کی ہے جو ’’شاعرِ محفل وفا، مطربِ بزمِ دلبراں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ کہاں ، اس بات کی تفصیل بیان نہیں کی گئی ۔ ہند کے احباب اگر اس بارے میں کچھ بتا سکیں تو ان کی عنایت ہوگی۔ مضمون فراہم کرسکیں تو کیا ہی کہنے۔
مجاز نے عابد سہیل کو اپنی ایک غز ل فراہم کی تھی جو ان کے دل پر نقش ہوگئی اور آنے والے وقت میں انہوں نے ہمیشہ اس کلام کو 5 مئی 1955 کے المیے سے منسلک کرکے دیکھا۔ ملاحظہ کیجیے
تری آواز آئی آسماں سے
مگر میں جانبِ دل دیکھتا ہوں
اشارہ ہے ترا طوفاں کی جانب
مگر میں ہوں کہ ساحل دیکھتا ہوں
مجاز اور مئے کدے میں سر بہ زانو
مآلِ زعمِ باطل دیکھتا ہوں
عابد سہیل نے مجاز کی بذلہ سنجی کے دو واقعات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ ایک روز سلام مچھلی شہری کافی ہاؤس میں کچھ اداس اداس بیٹھے تھے۔ وہ اپنی شعری حصولیابیوں سے تو مطمئن تھے لیکن انہیں یہ احساس بھی تھا کہ ان کی عوامی مقبولیت ان کی شعری حیثیت کے پاسنگ بھی نہیں۔ اسی وقت مجاز آگئے۔ ان کے دریافت کرنے پر سلام نے انہیں اپنے دل کی بات بتا دی۔ مجاز کو نسخہ شفا تجویز کرنے میں ذرا دیر نہ لگی۔ اور کہا : اس میں اداس ہونے کی کیا بات ہے۔ تم اپنی تخلیقات کا ترجمہ انگریزی میں کرا لو۔ میں انہیں دوبارہ اردو میں منتقل کردوں گا اور تم راتوں رات مشہور ہوجاؤ گے۔‘‘
**
ایک روز کافی ہاؤس میں سلام مچھلی شہری نے ڈاکٹر عبدالعلیم سے پوچھا : ڈاکٹر صاحب!
Dialectical Materialism
کا ترجمہ کیا ہوگا؟
علیم صاحب نے کہا:جدلیاتی مادیت مرو ج ہے۔ ویسے صحیح ترجمہ تو......انہوں نے داڑھی کھجائی، تھوڑا سا سوچا ۔پھر کہا صحیح ترجمہ تو...
ہر شخص گوش بر آواز ہوگیا۔
علیم صاحب نے ایک بار پھر سوچا اور کہا:صحیح ترجمہ تو فلسفہِ ارتقائے اجتماع بالضدین ہوگا۔
مجاز نے جو بہت دیر سے خاموش بیٹھے تھے معصومیت سے پوچھا: ڈاکٹر صاحب! یہ خواجہ غلام السیدین کے بڑے بھائی تو نہیں ہیں ؟
**
عابد سہیل نے جب مجاز کو دیکھا تو اس وقت مجاز اپنی زندگی کے بہترین دنوں کی بھولی بسری یاد بن چکے تھے۔ مجاز پر کیا کچھ نہیں لکھا گیا۔تلخ اور افسردہ یادوں کا ایک انبار ہے جو مجاز پر لکھی کتابوں میں ملتا ہے۔ عابد سہیل رات گئے گھر واپس جارہے تھے۔ منکی برج پر مکمل سناٹا تھا۔اس سناٹے میں ایک دردناک آواز ابھری ..’’ماں‘‘...اور پھر یہ آواز بار بار ابھری اور ڈوبی۔ یہ مجاز تھے جو اپنی والدہ کو بہ آواز بلند یاد کررہے تھے۔ مجاز کی والدہ نے ایک مرتبہ ڈاکٹر محمد حسن سے، جو مجاز سے ملنے لکھنؤ آئے تھے، بھرائی ہوئی آواز میں کہا تھا: ’’ بھیا! اب تم سب تو چلے گئے۔ یہاں ان کو نئے دوست مل گئے ہیں۔پھر پلانی شروع کردی ہے۔ میں تو ان کے علاج میں تباہ ہوگئی۔ تم ان کو سمجھاؤ۔‘‘
اس تمام عرصے میں مجاز ایک کونے میں بیٹھے بالوں میں انگلیاں پھیرتے رہے تھے۔وہ شراب کے ہاتھوں مجبور تھے۔ایک موقع پر تو انہوں نے ڈاکٹر محمد حسن سے کہہ کر دیوان حافظ سے فال بھی نکلوائی تھی۔ اور یہ شعر سامنے آیا تھا
تاز مے خانہ و مے نام و نشاں خواہد بود
سرِ ما خاکِ رہِ پیرِ مغاں خواہد بود
لال باغ کے ایک دیسی شراب خانے میں 4 دسمبر کی برفانی رات کو تین بجے ان کے دوست ان کو مدہوشی کے عالم میں چھوڑ کر چمپت ہوئے تھے۔ اگلے د ن مئے خانہ کھلا تو وہ چھت پر بے ہوش پائے گئے۔
عصمت چغتائی نے کہا کہ میں نے اکثر مجاز کو اس کی بعض عادتوں پر ڈانٹا اور ایک مرتبہ غصے میں یہ تک کہہ دیا کہ اس سے بہتر تو تھا مجاز کہ تم مرجاتے۔
مجاز نے جیسے منہ پر طمانچہ مار دیا اور کہا کہ: لو میں مر گیا۔ تم اس کو اتنا بڑا کام سمجھتی تھیں ؟
یہاں ہمیں مجتبی حسین (پاکستان والے) کی کتاب نیم رخ میں مجاز کے خاکے کی چند سطور یاد آگئیں۔ مجتبی حسین کی مجاز سے آخری ملاقات کراچی میں ہوئی جہاں مجاز مشاعرہ پڑھنے آئے تھے۔ ہڈیوں کے ڈھانچے کی مانند۔خاصا مجمع تھا، طلبہ کا غلبہ تھا۔ مجاز نے ’’آوارہ ‘‘کے چند بند سنائے مگر پھر نقاہت کے باعث اسے درمیان ہی میں چھوڑ کر اسٹیج پر جابیٹھے۔ ادھر سامعین کا شور کہ وہ مجاز کو سننا چاہتے ہیں۔ مجتبی حسین لکھتے ہیں:
بارے مجاز ڈائس پر آئے۔انہوں نے ’’اعتراف‘‘ سنانی شروع کی۔ وہ پڑھ نہیں پا رہے تھے۔ ان کی سانس بار بار ٹوٹ جاتی اور وہ رک جاتے۔ انہیں مستقل کھانسی آرہی تھی اور وہ ہر جھٹکے کے ساتھ سینہ تھام لیتے ۔طلبہ کا مجمع کچھ بے چین اور بے کیف ہوا جارہا تھا۔ بعض گوشوں سے ہوٹنگ بھی شروع ہوچکی تھی۔ مگر مجاز سامعین کی اکتاہٹ سے بے خبر ہوکر پڑھے جارہے تھے:
خاک میں آہ ملائی ہے جوانی میں نے
شعلہ زاروں میں جلائی ہے جوانی میں نے
شہر خوباں میں گنوائی ہے جوانی میں نے
خواب گاہوں میں جگائی ہے جوانی میں نے
ان کی آواز میں ایک عجیب حزن آگیا تھا۔ مجاز اپنی بربادی کا مرقع بنے ہوئے نظم پڑھ رہے تھے۔ ان کی لے جس کا سلسلہ کبھی ٹوٹتا نہیں تھا، بیچ میں ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھی۔مگر اس ٹوٹ جانے میں بھی ایک کیفیت تھی۔ ایک عظیم شکست و ریخت کا تاثر تھا۔ رفتہ رفتہ مجمع کی ہنسی رک گئی۔ اور خاموشی چھا گئی۔دفعتاً میرے پاس بیٹھے ہوئے ایک طالب علم نے دوسرے سے پوچھا ’یہ کون شاعر ہے ۔‘
معلوم نہیں اس نے کیا جواب دیا۔ کیا جانے اسے بھی معلوم ہو یا نہ رہا ہو۔ میں اس سوال کے بعد کچھ اور نہیں سن سکا۔ زمانہ اتنا بدل گیا ہے، اس کا احساس مجھے اس وقت ہوا۔ جس مجاز کے نام پر بقول عصمت چغتائی، لڑکیاں قرعے ڈالتی تھیں۔جس کے نام کی قسمیں کھائی جاتی تھیں۔ آج اسے ایک درس گاہ کی ادبی محفل میں طالب علم جانتے بھی نہیں۔
اس کے بعد میں مجاز سے کبھی نہیں مل سکا۔
(نیم رخ، خاکے، مجتبی حسین، پاک پبلشر کراچی-1978 )
مجاز یوں تو بذلہ سنج بھی تھے اور فقرے باز بھی مگر دو واقعے ایسے بھی ہوئے کہ وہ خود بھی سٹپٹا کر رہ گئے۔ ان واقعات کے راوی ڈاکٹر ابو الخیر کشفی ہیں جنہوں نے اسے مجاز کی 'شکست' قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں:
(1)
مجاز بمبئی کے ایک مشاعرے میں اپنا کلام سنانے کھڑے ہوئے۔ لوگ فرمائشیں کرنے لگے۔ کسی نے کہا: 'آوارہ" پڑھیے۔
ایک سریلی آواز نے کہا: 'اعتراف' سنائیے۔
کسی اور نے کہا: 'بتان حرم' سنائیے۔
ایک بمبیا سیٹھ بھی بولے: 'مزاج' صاحب! وہ 'نجم' سنائیے
"رہبری چالو رہی پیگمبری چالو رہی"
مجاز کے قدم مشاعرے کے اسٹیج پر لرز گئے۔ مجاز کی نظم 'خواب ِ سحر' کا ایک مصرع یہ بھی ہے ؎
رہبری جاری رہی پیغمبری جاری رہی
(2)
ایک مجلس میں مجاز اپنی نظمیں سنا رہے تھے۔ اپنے زمانے کی مشہور اداکارہ نگار سلطانہ بھی موجود تھیں۔ جب مجاز نے یہ مصرع پڑھا ؎
میرے لب تک لب لعلین نگار آہی گیا
تو محترمہ چمک کر بولیں: مجاز صاحب! ابھی کہاں آیا۔
مجاز کے ہونٹ خشک ہوگئے۔
(یہ لوگ بھی غضب تھے، ابو الخیر کشفی، فیروز سنز، 1989)
**
عابد سہیل کی کتاب میں چند ایسے اشخاص کے خاکے اور تذکرے بھی ہیں جن کا شعر و ادب سے کوئی تعلق نہ تھا مگر انہوں نے مصنف کسی نہ کسی پہلو سے متاثر ضرور کیا تھا۔ ایسے ہی ایک صاحب اودھ کشور سرن کے مختصر سے تذکرے کا یہ رنگ دیکھیے۔ یونیورسٹی کانوکیشن جاری تھی۔ سی بی گپتا نے نخوت بھرے لہجے میں اگلی قطار میں بیٹھے انتہائی کم صورت کشور سرن کی طرف دیکھا اور حقارت سے پوچھا:
who is he
کسی نے کہا یہ ڈاکٹر سرن ہیں۔
گپتا آہستہ سے بولے :
I will see
یہ سنتے ہی کشور سرن کھڑے ہوگئے۔ ان کا چہرہ غصے سے تپ رہا تھا۔ انہوں نے کہا:
Mr Gupta, what can you see of me? You can take away my cloths, my job, my specs and nothing more. But can you take away my intellect ? Moreover, of what use will that be to you ?
ہر طرف سناٹا چھا گیا۔
**
ایسے ہی ایک عام سے شخص خواجہ محمد فائق کا خاکہ بھی خوب ہے۔ دلچسپیوں سے بھرپور اس خاکے میں عابد سہیل نے اپنے قاری کو چٹکلوں سے محظوظ کیا ہے۔ فائق کو اپنی بیوی سے بہت محبت تھی مگر اس کے باوجود انہوں نے دوسری شادی کرلی تھی۔ نام ان کا فائق تھا اوروہ عورتوں کے شائق تھے۔ دوسری شادی تو کرلی تھی مگر کام کچھ نہ کرتے تھے۔ ایک روز عابد سہیل نے ان سے پوچھا: دوسرے گھر کا خرچہ کیسے چلاتے ہو ؟
ذرا فائق کا جواب توسنیے:
’’ اللہ مسبب الاسباب ہے۔ ’کتا‘ گھر میں گھس آتا ہے تو ہملکڑی کا چیلا ہاتھ میں لے کے بھگاتے بھگاتے دوسری کے گھر تک چلے جاتے ہیں۔ امی کا پاندان کھول کر دو دانے منہ میں ڈال لیتے ہیں تو دو ڈلی جیب میں۔یوں ہی مزے سے کٹ رہی ہے۔‘‘
فائق آزادی کے بعد مشرقی پاکستان چلے گئے تھے۔ عابد سہیل لکھتے ہیں کہ:
’’ وہاں جا کر شاعر بن گئے۔ مشاعروں میں کلام پڑھتے تھے۔مشاعروں میں مقبول ہونے لگے۔ یہاں سے غزلیں منگاتے تھے۔پھر خط آیا کہ اب نئے لوگوں کی چیزیں بھیجا کرو، لوگ آتش اور غالب کو پہلے ہی جان گئے تھے اب جذبی اور مجاز سے بھی واقف ہوگئے ہیں۔فائق بھی غضب کے آدمی تھے۔ نواب سلطان کا مرغ گھر میں آگیا تو پکا کر کھا لیا اور پر میرے کمرے کے سامنے ڈال دیے۔ نواب سلطان بہت ناراض ہوئے۔ ایک تو ان دنوں کنکوے بہت کٹ رہے تھے ،دوسرے ان کا چہیتا مرغ میں کاٹ کے کھا گیا تھا۔ فائق نے انہیں میرے بارے میں سمجھا دیا: ’کمیونسٹ ہیں اللہ رسول کو نہیں مانتے۔ ان کے لیے کیا اچھا کیا برا‘۔ اور لطف یہ کہ یہ سب مجھے ہنس ہنس کر بتا بھی دیا۔‘‘
عابد سہیل نے سبط محمد نقوی کے خاکے میں ایک مشاعرے کی تفصیل بیان کی ہے۔یہ ان کی خوبی ہے کہ شخصی خاکوں میں گرد و پیش کے واقعات کو بھی دلچسپ انداز سے پیش کرتے ہیں۔ مذکورہ مشاعرے کی خاص بات بالترتیب بشیر فاروقی اور عمر انصاری کے وہ دو شعر تھے جنہوں نے مشاعرہ لوٹ لیا تھا
اڑ گیا تو شاخ کا پورا بدن جلنے لگا
دھوپ رکھ دی تھی پرندے نے پروں کے درمیاں
ہوا یہ ہے کہ گزارے نہیں گزرتا ہے دن
سنا یہ تھا کہ نہیں وقت کو ہے کہیں قیام
نقوی صاحب ان اشعار کو سن کر کہیں کھو سے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد ’’واہ‘‘ کہتے ،خاموش ہوجاتے،پھر واہ،واہ کسی قدر بلند آواز سے کہتے۔ایک موقع پر تو انہوں نے سب کی نظریں بچا کر اپنے آنسو بھی صاف کیے تھے۔
**
عابد سہیل کی خاکہ نگاری کا ایک وصف اس وقت سامنے آتا ہے جب وہ اپنے ممدوح کا حلیہ بیان کرتے ہیں۔ سلامت علی مہدی کا خاکہ اس کی بہترین مثال ہے:
’’مولانا حسرت موہانی سے بھی دبتا ہوا قد۔ شبِ دیجور سے چشمکیں کرتا ہوا رنگ۔ چہرے پر چیچک کے داغ، سر کے بال ا س قدر سیاہ کہ لگتا تھا کہ شاید پیدا ہی رنگے رنگائے ہوئے ہیں۔ ‘‘
سلامت علی مہدی بھی عجیب و غریب شخصیت کے مالک تھے۔ ابن صفی مرحوم کے الفاظ میں کہیے تو خالص ’’ترکیبی‘‘ ذہن کے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب ان پر وقت پیمبری آن پڑا تھا۔
اس کڑے وقت میں ایک روز انہوں نے اپنی اہلیہ سے پوچھا’’برقعہ ہے؟‘‘
جواب ملا:اے لو،برقعہ نہیں ہوگا۔ایک نہیں دو، دو ہیں۔
کہا: اور تیری زبیدہ ان پِلّوں [بچوں]کو رکھ لے گی ، دس بارہ دن کے لیے ؟
بیگم: کیوں نہیں ۔
’’تو ٹھیک ہے‘‘۔ سلامت اللہ بولے۔’’ ایک بکسے میں دو چار جوڑے کپڑے ڈال لے اور دو چار میرے بھی اور شیو کا سامان ،بلیڈ، سیفٹی ریز، ایک چپل اور اپنی ضرورت کی چیزیں۔‘‘
ارے کہاں لے جارہے ہو ؟
کہیں نہیں۔بس جو کہتا ہوں بس وہی کر۔
انہوں نے امرتسر کا ٹکٹ کٹایا اور میاں بیوی دوسرے درجے کے ایک عام ڈبے میں بیٹھ گئے۔ امرتسر آنے کو ہوا تو سلامت علی مہدی کے اشارے پر بیوی نے سیٹ کے نیچے سے بکسا کھینچا ،اندر ہاتھ ڈال کے ادھر ادھر ٹٹولا اور برقعہ نکال کر پہنچ لیا۔
میاں بیوی پلیٹ فارم پر اترے تو بھیڑ لگ گئی۔جدھر جاتے بھیڑ پیچھے پیچھے چلتی۔ معاملہ اصل میں یہ تھا کہ آزادی کے بعد کی ایک نسل جوان ہوگئی تھی جس نے کسی چھوٹے موٹے مقبرے کو یوں چلتے پھرتے نہ دیکھا تھاسو ہاتھوں ہاتھ لیے گئے۔
دس بارہ دن کے ارادے سے گئے تھے، سوا مہینے بعد واپسی ہوئی۔ جاتے میں ایک ٹوٹا پھوٹا بکس ساتھ تھا،واپسی پر دو بہت عمدہ بکسوں کا اضافہ ہوگیا تھا جو کپڑوں اور تحفوں سے لبا لب بھرے ہوئے تھے۔ بیوی کے ہاتھ میں خوبصورت پرس تھا اور سلامت اللہ مہدی کی جیبیں سو سو، پچاس پچاس کے نوٹوں سے بھری تھیں۔
جو بولے سو نہال
ست سری اکال
یہی سلامت اللہ مہدی تھے جنہو ں نے کے .آصف کی فلم مغل اعظم کی شوٹنگ کے لیے تیرہ ہاتھیوں کی فراہمی کا ٹھیکہ لیا تھا۔ایڈوانس کی رقم وہ خرچ کربیٹھے تھے۔ادھر مغل اعظم اور شیخو کی فوجیں آمنے سامنے اس انتطار میں تھیں کہ ہاتھی آئیں تو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوں۔ سلامت اللہ مہدی نے کے .آصف کو جو کچھ بتایا تھا اس کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی کہ پہلے دن جب ہاتھی میدان میں ہونے چاہیے تھے تو اس وقت وہ ستائیس میل دور تھے، دوسرے دن بیس میل، تیسرے دن زبردست آندھی کی وجہ سے اسی جگہ، چوتھے دن دس میل اور پانچویں دن جب وہ منزل سے صرف دو میل دور تھے، نہ جانے کیسے بھڑک اٹھے اور جس کا جدھر منہ اٹھا ،وہ اسی سمت بھاگ لیا۔
’’میری فلم کا کیا ہوگا؟‘‘۔ ٹیلی فون پر کے .آصف نے پوچھا۔
’’میں تیرہ ہاتھیوں کی قیمت کہاں سے چکاؤں گا؟‘‘ ۔سلامت مہدی نے جواب دیا۔
کئی مہینوں بعد جب مغل اعظم کا ذکر نکلا تو سلامت اللہ مہدی نے عابد سہیل کو ہنستے ہوئے بتایا کہ’’ ایسے گھمسان کے رن میں بس ایک ہی ہاتھی سونڈ اٹھائے ہوئے کھڑا ہوا ہے ۔‘‘
**
شمیم احمد کرہانی نے خاکے کی تعریف میں کہا تھا: خاکہ نگاری ادب کی ایک صنف ہے جس میں شخصیتوں کی تصویریں اس طرح براہ راست کھینچی جاتی ہیں کہ ان کے ظاہر و باطن دونوں قاری کے ذہن نشین ہوجاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے قاری نے نہ صرف قلمی چہرہ دیکھا ہے بلکہ خود شخصیت کو دیکھا بھالا اور سمجھا بوجھا ہے۔‘‘
عابد سہیل کی یہ کتاب ’’پورے ،آدھے، ادھورے‘‘ شمیم کرہانی کی تعریف پر پوری اترتی ہے۔
آئیے ہم اپنے عہد کے ایک ایمان دار اور بااصول صحافی و ادیب کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے۔
آخری تدوین: