اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے
ایک ڈاکیا ایک چھوٹے سےگاؤں میں بہت دیانتداری سے ڈاک تقسیم کرتا تھا۔بڑی محنت سے وہ تمام ڈاک وقت پرلوگوں تک پہنچاتا تھا۔ گاؤں کی آبادی بڑھی تو محکمہ ڈاک نے اسے سائیکل لے کر دے دی اور ڈاک کی تقسیم وقت پر ہوتی رہی۔ پھر گاؤں کی آبادی مزید بڑھی اور وہ ایک چھوٹے سے شہر میں تبدیل ہوگیاتو محکمے نے ڈاکیے کو ایک موٹر سائیکل لے کر دے دی۔ اور اس طرح ہر بندے کو وقت پر ڈاک ملتی رہی۔
ایک دوسرے گاؤں میں بھی ایک ڈاکیا ڈاک تقسیم کرتا تھا لیکن اپنا فرض دیانتداری سے ادا نہیں کرتا تھا۔لوگوں کو ڈاک بروقت نہیں ملتی تھی ۔ محکمے نے اسے سائیکل لے کر دے دی تاکہ ڈاکیا آسانی سے بر وقت ڈاک پہنچا سکے۔ لیکن کبھی سائیکل پنکچر ہو جاتی کبھی اس کا کوئی پرزہ خراب ہو جاتا اور اس طرح ڈاک کا نظام نہ صرف خراب رہا بلکہ محکمے کو سائیکل کی مرمت کے لیے پیسے بھی ادا کرنے پڑتے تھے۔اسی ڈاکیے کو محکمے نے سائیکل کی جگہ موٹر سائیکل لے کر دے دی۔ لیکن ڈاک کی تقسیم کا نظام پھر بھی ٹھیک نہ ہوسکا ۔ موٹر سائیکل خراب ہونے کے بہانے بھی چلتے رہے اور مرمت پر پہلے سے بھی زیادہ خرچ آنے لگا۔
نتیجہ:۔
ڈاکیے کو ایک محکمہ چلانے والے یا ایک ملک چلانے والے تصور کرلیں اور سائیکل اور موٹر سائیکل کو جدید ٹیکنالوجی تصور کرلیں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر نیت ٹھیک نہیں تو جدید سے جدید ٹیکنالوجی بھی لے آئیں تو صرف خرچ بڑھاکر ملک یا محکمے کو مزید نقصان ہی پہنچائیں گے فائدہ نہیں ہوگا۔