میرا اپنا تجزیہ ہے کہ آج کے حملے میں افغانستان سے تعلق رکھنے والوں کا استعمال کیا گیا۔ اگرچہ ابھی تک حکومت واضح بیان نہیں دے رہی اور شاید دے گی بھی نہیں لیکن آثار اسی بات کے ہیں کہ اس میں ہندوستانی ایجنسیاں شامل ہیں۔ اب اس کی تفصیلات میں جائیں تو بحث بڑھ جائے گی ۔
عبدالمجید صاحب ، آپ کے جذبات کا ہمیں پاس ہے لیکن حقیقت سے آنکھیں چرانا بھی دانشمندی نہیں ہے۔ سب افغانی دہشت گرد نہیں ہیں لیکن ان میں ایسے گروہ بلا شبہ موجود ہیں جو ماضی میں پاکستان کی طرف سے طالبان کی حمایت کے انتقام کے طور پہ اپنے جذبات کا اظہار تشدد سے کرتے ہیں اور پاکستان دشمن طاقتیں ان کے لئیے تربیت اور معاونت فراہم کرتی ہیں۔
یہ بات تسلیم نہیں کی جا سکتی کہ کوئی ناراض پاکستانی گروہ یا علیحدگی پسند تنظیم اس حملے میں ملوث ہو ۔
مجھے ان لوگوں کی عقل پہ حیرانی ہوتی ہے جو اسے صرف مذہبی جماعتوں کا کام کہہ دیتے ہیں۔ مذہبی عناصر اس میں موجود تو ہو سکتے ہیں لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہی مذہبی عناصر تو بقول ہندوستان کے مقبوضہ وادی کشمیر میں بھی لڑ رہے ہیں تو پھر یہ عجیب بات نہیں ہے کہ وہاں تو یہ لوگ خود کش حملہ نہیں کرتے اور پاکستان کہ جس پہ ان کی مدد کا الزام لگایا جاتا ہے ان کی دہشت گردی کا شکار ہے۔ گویا کہ یہ اسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں جس پہ ان کا بسیرا ہے۔
نہیں صاحب ، معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ یہ گیم اب ایک نئے طریقے سے کھیلی جا رہی ہے ۔ چور مچائے شور کا مطلب تو ہم سب سمجھتے ہیں بس یہی سمجھ لیجئیے کہ بغل میں چھری منہ میں رام رام کی کہاوت مجسم حالت میں ہمارے سامنے ہے۔ انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔ فوری طور پہ نیٹو اور امریکی سپلائی سے ہاتھ روک لیا جائے تو شاید ابھی بھی بچنے کی سبیل نکل آئے۔ امریکی مشیروں اور فوجی ماہرین کو ان کے گھر بھیج دیا جائے تو امن کی چند سانسیں میسر آ سکتی ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ معاملات میں اپنے مؤقف پہ نظر ثانی کرنی چاہئیے۔ اس سے انکار نہیں کہ ہر پاکستانی ہندوستان کے ساتھ اچھی ہمسائیگی چاہتا ہے لیکن یہ عمل دو طرفہ ہونا چاہئیے۔
بہت کچھ لکھنے والا تھا لیکن لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے مختصر کر رہا ہوں۔ پھر کبھی سہی۔