سید انجم شاہ
محفلین
جرم سے پہلے کبھی قانون نہیں ببن سکتا جب جرم ہوتا ہے تب اس ملک کےحکمران اس کی روک تھام کےلئے قانون بناتے ہیں پاکستانمیں جرم ہونے کے بعد جب وہ یا تو کئی انسانوں کی جانیں لے چکا ہوات ہے یا معاشرے کو تباہی کی طرف جا چکا ہوات ہے تو قانون بنتا ہے بیرون ملک رہنے والوں سے جب ہماری بات ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہمیں جب بھی کوئی دشواری پیش آتی ہے تو وہ فوری پولیس سے رابطہ کرتے ہیں جو نہ صرف ہمیں مدد فراہم کرتی ہے بلکہ تسلی کے ساتھ ساتھ قانونی طور پر بھی آخری وقت تک ساتھ دیتی ہے
پاکستان میں شریف شہری کو اگر پولیس سے صرف ایک گھنٹہ کا واسطہ پڑجائے تو وہ اپنی نسلوں کو بھی ان سے دور رہنے کی ہدایت کرتا ہے یہاں پولیس والے کو دیکھ کر شہری مزید خوفزدہ اور خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں
اگر کسی کے ہاں چھوٹی موٹی چوری ہوجائے یا کوئی حادثہ ہو جائے تو کہا جات ہے کہ تھانے جانے سے مزید مال جائے گا بار بار تفتیشی آئے گا یا پھر فون پر بلا کر گھنٹوں تھانے بیٹھا دے گا جو کسی اذیت سے کم نہین اگر حادثاتی طور پر کوئی مجرم پکڑا جائے تو پولیس والے اسے شرفا کے گھروں میں لے جا کر نشاندہی کرانے کے ساتھ ساتھ پورے اہل خانہ کو الرٹ رہنے کی ہدایت کرتے ہیں ہمارے ہاں ایک مزاحیہ مثال دی جاتی ہے کہ اگر کسی ”ہاتھی“کو تھانے لے جا کر اس پر بغیر سوچے سمجھے لاتوں مکوب اور فحش گالیوں کی بارش کی جائے تو وہ بھی کہے گا کہ میں ہاتھی نہیں بکرا ہوں
اگر کوئی شریف شہری پکڑا جائے تو اسے تھانیدار کے خفیہ سیل میں رکھا جاتا ہے پولیس کے مخبر کی اطلاع پر کہ اس شہری کے ورثاء عدالت سے رجوع کر رہے ہیں تو اس شہری کو دوسرے تھانے میں منتقل کر دیا جاتا ہے تاکہ عدالتی بیلف کی آمد پر تھانے سے برآمدگی نہن ہوسکے بات یہی ختم نہں ہوتی شریف شہری کے پکڑے جانے پر ورثاء یا چھوٹی موٹی سیاسی شخصیت کسی اعلی افسر سے رابطی کرتی ہے تو ٹیلی فون سننے والا پوری بات سن کر کہتا ہے کہ ”صاحب“ میٹنگ میں ہیں نہ جانے کب فارغ ہوں گے اور یہ سلسلہ کئی گھنٹوں بلکہ بعض اوقات تو کئی دن چلتا رہتا ہے آخر شریف شہری کے ورثاء جو اذیت کاٹ رہے ہوتے ہیں مک مکا پر مجبور ہوجاتے ہیں اس طرح پولیس کی تنخواہ کے علاوہ ان کی اوپر کی کمائی ہزار گناہ زیادہ ہوجاتی ہے مراعات کی بات پر یاد آیا کہ کبھی کسی حکمران ،سیاستدان،وڈیرے نے توجہ دی ہے کہ انسپکٹر،سب انسپکٹر اے ایس آئی حوالدار یا سپاہی کی تنخواہن سے زیادہ اس کا رہن سہن ہے تنخواہ تو الگ ایک معمولی سپاہی کے پاس بھی گاڑی ہے گھر اگر اپنا نہیں تو اسکی تنخواہ کے برابر کرایہ پر ضرور ہے
یہاں یہ بات بھی مانی جاتی ہے کہ پولیس کے محکمہ میں خاندانی افراد بھی موجود ہیں جنکی زمین جائیداد بہت ہے تو وہ آٹےمیں نمک کے برابر ہیں ہمارے ملک میں بہت سے ایماندار ،ذہین اور اعلی کردار کے مالک پولیس افسران اب بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے محکمہ پولیس کا نام روشن ہے ایسے ہی ایک اعلی کردار کے مالک ایک sp صاحب ہیں جن کے نام کے ساتھ ”امام“ آتا ہے نے ایک روایت قائم کی تمام تھانیداروں کے ساتھ کام کرنے والے کارخاص ختم کر دیئے ان کا موقف تھا کہ یہ کارخاص اصٌ خرابی کی جڑ ہیں ان کےذریعے معاملات طے ہوتے ہییہ سلسلہ کچھ عرصہ تک چلا ایس پی کی ٹرانسفر ہوئی سلسلہ پھر شروع ہو گیا
اسی طرح ایک ایس پی الحاج عمر فاروق بھٹی تھے جن کی پوسٹنگ لاہور میں تھی اور ہارٹ اٹیک ہونے وہ وفات پاگئے مرحوم سے میرا بہت اچھی دوستی تھی اور یہ میرٹ پر فیصلہ کرتے تھے ان کا قول تھا کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خیال رکھا جائے عمر فاروق بھٹی کام کام بس کام کا مشن لئے ہوئے تھے
بات ہو رہی تھی کارخاص کی تو یہ علاقے کئ سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں اکثر ایماندار پولیس افسر یا اہلکار نےآج تک وردی نہیں پہنی پھر ہمارے حکمران اور پولیس والے کہتے ہیں کہ
”پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی“
دوستون آپ کو یاد ہو گا کہ پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک ڈرامہ ””اندھیرا اجالا““ کے نام سے ٹیلی کاسٹ کیا جاتا تھا
جس میں جمیل فخری ہوشیارترین ایس ایچ او اور حوالدار عرفان کھوسٹ جو تھانہ کا محرر تھا انتہای سادہ شخصیت کا مالک ہوتا ہے ہمارے معاشرے میں بھی ایسے کردار موجود ہیں بہت سے پولیس کے ایماندار افسران اور اہلکار اس معاشرے کو سدھارنے میں لگے ہوئے ہیں صرف چند کالی بھیڑوں اور گندی مچھلیوں نے معاملی خراب کر رکھا ہے اگر ہمارے سیاستدان پولیس کو اپنے مخصوص مقاصد کےلئے استعمال نہ کریں اور قانون کی وردی میں چھپا بھیڑیا پکڑا جائے تو اسے نشان عبرت بنا دیا جائے تا کہ معاشرہ درست سمت کی طرف بڑھ سکے اس کےلئےحکومت کو بھی پولیس ملازمین کی ضروریات اور ان کے مسائل کے حل کی طرف توجہ دینی چاہیئے وزیر اعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی حکومت آنے کی گفتگو ہوری تھی اور میں نے بہت سے پولیس افسران کو دیکھا اور کہتے سنا کہ بندے دے پتر بن جائو وزیر اعلی معاف نئی کرنا کسے نوں وی
اور وزیر اعلی کا منصب سنبھالنے کے بعد موجودو وقت میں انہوں نے پولیس کی تنخواہوں میں اضافہ ضرور کیا ہے تا کہ وہ اپنی روزمرہ کی ضروریات کےلئے رشوت نہ لیں کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو ایک شکایت سیل قائم کیا گیا مگر محترم وزیر اعلی صاحب پنجاب کی عوام آپ سے اپیل کرتی ہے کہ تھانوں میں چھاپے مارنے کا سلسہ جاری رکھیں اور کرپشن میں ملوث اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دی جائے
اللہ ہم کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین
پاکستان میں شریف شہری کو اگر پولیس سے صرف ایک گھنٹہ کا واسطہ پڑجائے تو وہ اپنی نسلوں کو بھی ان سے دور رہنے کی ہدایت کرتا ہے یہاں پولیس والے کو دیکھ کر شہری مزید خوفزدہ اور خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں
اگر کسی کے ہاں چھوٹی موٹی چوری ہوجائے یا کوئی حادثہ ہو جائے تو کہا جات ہے کہ تھانے جانے سے مزید مال جائے گا بار بار تفتیشی آئے گا یا پھر فون پر بلا کر گھنٹوں تھانے بیٹھا دے گا جو کسی اذیت سے کم نہین اگر حادثاتی طور پر کوئی مجرم پکڑا جائے تو پولیس والے اسے شرفا کے گھروں میں لے جا کر نشاندہی کرانے کے ساتھ ساتھ پورے اہل خانہ کو الرٹ رہنے کی ہدایت کرتے ہیں ہمارے ہاں ایک مزاحیہ مثال دی جاتی ہے کہ اگر کسی ”ہاتھی“کو تھانے لے جا کر اس پر بغیر سوچے سمجھے لاتوں مکوب اور فحش گالیوں کی بارش کی جائے تو وہ بھی کہے گا کہ میں ہاتھی نہیں بکرا ہوں
اگر کوئی شریف شہری پکڑا جائے تو اسے تھانیدار کے خفیہ سیل میں رکھا جاتا ہے پولیس کے مخبر کی اطلاع پر کہ اس شہری کے ورثاء عدالت سے رجوع کر رہے ہیں تو اس شہری کو دوسرے تھانے میں منتقل کر دیا جاتا ہے تاکہ عدالتی بیلف کی آمد پر تھانے سے برآمدگی نہن ہوسکے بات یہی ختم نہں ہوتی شریف شہری کے پکڑے جانے پر ورثاء یا چھوٹی موٹی سیاسی شخصیت کسی اعلی افسر سے رابطی کرتی ہے تو ٹیلی فون سننے والا پوری بات سن کر کہتا ہے کہ ”صاحب“ میٹنگ میں ہیں نہ جانے کب فارغ ہوں گے اور یہ سلسلہ کئی گھنٹوں بلکہ بعض اوقات تو کئی دن چلتا رہتا ہے آخر شریف شہری کے ورثاء جو اذیت کاٹ رہے ہوتے ہیں مک مکا پر مجبور ہوجاتے ہیں اس طرح پولیس کی تنخواہ کے علاوہ ان کی اوپر کی کمائی ہزار گناہ زیادہ ہوجاتی ہے مراعات کی بات پر یاد آیا کہ کبھی کسی حکمران ،سیاستدان،وڈیرے نے توجہ دی ہے کہ انسپکٹر،سب انسپکٹر اے ایس آئی حوالدار یا سپاہی کی تنخواہن سے زیادہ اس کا رہن سہن ہے تنخواہ تو الگ ایک معمولی سپاہی کے پاس بھی گاڑی ہے گھر اگر اپنا نہیں تو اسکی تنخواہ کے برابر کرایہ پر ضرور ہے
یہاں یہ بات بھی مانی جاتی ہے کہ پولیس کے محکمہ میں خاندانی افراد بھی موجود ہیں جنکی زمین جائیداد بہت ہے تو وہ آٹےمیں نمک کے برابر ہیں ہمارے ملک میں بہت سے ایماندار ،ذہین اور اعلی کردار کے مالک پولیس افسران اب بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے محکمہ پولیس کا نام روشن ہے ایسے ہی ایک اعلی کردار کے مالک ایک sp صاحب ہیں جن کے نام کے ساتھ ”امام“ آتا ہے نے ایک روایت قائم کی تمام تھانیداروں کے ساتھ کام کرنے والے کارخاص ختم کر دیئے ان کا موقف تھا کہ یہ کارخاص اصٌ خرابی کی جڑ ہیں ان کےذریعے معاملات طے ہوتے ہییہ سلسلہ کچھ عرصہ تک چلا ایس پی کی ٹرانسفر ہوئی سلسلہ پھر شروع ہو گیا
اسی طرح ایک ایس پی الحاج عمر فاروق بھٹی تھے جن کی پوسٹنگ لاہور میں تھی اور ہارٹ اٹیک ہونے وہ وفات پاگئے مرحوم سے میرا بہت اچھی دوستی تھی اور یہ میرٹ پر فیصلہ کرتے تھے ان کا قول تھا کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خیال رکھا جائے عمر فاروق بھٹی کام کام بس کام کا مشن لئے ہوئے تھے
بات ہو رہی تھی کارخاص کی تو یہ علاقے کئ سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں اکثر ایماندار پولیس افسر یا اہلکار نےآج تک وردی نہیں پہنی پھر ہمارے حکمران اور پولیس والے کہتے ہیں کہ
”پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی“
دوستون آپ کو یاد ہو گا کہ پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک ڈرامہ ””اندھیرا اجالا““ کے نام سے ٹیلی کاسٹ کیا جاتا تھا
جس میں جمیل فخری ہوشیارترین ایس ایچ او اور حوالدار عرفان کھوسٹ جو تھانہ کا محرر تھا انتہای سادہ شخصیت کا مالک ہوتا ہے ہمارے معاشرے میں بھی ایسے کردار موجود ہیں بہت سے پولیس کے ایماندار افسران اور اہلکار اس معاشرے کو سدھارنے میں لگے ہوئے ہیں صرف چند کالی بھیڑوں اور گندی مچھلیوں نے معاملی خراب کر رکھا ہے اگر ہمارے سیاستدان پولیس کو اپنے مخصوص مقاصد کےلئے استعمال نہ کریں اور قانون کی وردی میں چھپا بھیڑیا پکڑا جائے تو اسے نشان عبرت بنا دیا جائے تا کہ معاشرہ درست سمت کی طرف بڑھ سکے اس کےلئےحکومت کو بھی پولیس ملازمین کی ضروریات اور ان کے مسائل کے حل کی طرف توجہ دینی چاہیئے وزیر اعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی حکومت آنے کی گفتگو ہوری تھی اور میں نے بہت سے پولیس افسران کو دیکھا اور کہتے سنا کہ بندے دے پتر بن جائو وزیر اعلی معاف نئی کرنا کسے نوں وی
اور وزیر اعلی کا منصب سنبھالنے کے بعد موجودو وقت میں انہوں نے پولیس کی تنخواہوں میں اضافہ ضرور کیا ہے تا کہ وہ اپنی روزمرہ کی ضروریات کےلئے رشوت نہ لیں کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو ایک شکایت سیل قائم کیا گیا مگر محترم وزیر اعلی صاحب پنجاب کی عوام آپ سے اپیل کرتی ہے کہ تھانوں میں چھاپے مارنے کا سلسہ جاری رکھیں اور کرپشن میں ملوث اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دی جائے
اللہ ہم کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین