مغزل
محفلین
برادرم طالوت:
اگر ہم کام کرنے پر آمادہ ہیں۔۔ تو ہمیں نہ اسمبلی کی ضرورت ہے اور نہ لوگوں سے ووٹ مانگنے کی۔
یہ جان توڑ اور حوصلہ شکن کام ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں کہ ۔۔ ہم بہتری کی کوشش نہ کرسکیں۔
میں اس وقت شہر (کراچی) کے شعرا میں جونئیر ترین ہوں ۔۔
لیکن میرا اپنے حلقے میں ، دوستوں میں ، شعراء کی بیٹھکوں میں ایک ہی موضوع ہوتا ہے ۔۔
کہ شاعر ادیب معاشرے کی آنکھ ہونے اور حساس ہونے کی اور باشعور ہونے کی تہمت اٹھاتے ہیں تو۔۔
اس ضمن میں ہمکر کیا رہے ہیں۔۔ بشمول سینیئرز کے ہم سب ۔۔ مشاعرہ پڑھنے ۔۔۔ واہ واہ سمیٹنے اور ایک دوسرے
کی ٹانگ کھینچنے کے علاوہ اور کرتے ہی کیا ہیں۔۔۔ میری دوستوں سے یہی گفتگو رہتی ہے ۔۔ کہ ہمیں ہی اب کچھ
کرنا ہے ۔۔ لب و رخسار کی باتیں ۔۔ تسکین طبع کے لیئے ضروری ہے لیکن ۔۔۔ ذہنی جلا کیلئے ہمیں لوگوں میں شعور
بیدار کرنا ہے۔۔۔ اپنا حق مانگنے کا نعرہ جدیدیوں نے لگایا ۔۔ ہم نعرہ کی بجائے کام کرتے ہیں کہ دوسروں کا حق دو۔
بس ایک ایک کام ۔۔ اگر ہم روز کریں تو محض دوسالوں میں ہم کایا پلٹ سکتے ہیں۔
کسی معذور کو سڑک پار کرادیں۔
بس میں بزرگ کو بیٹھنے کی جگہ دیں۔
سڑک پر پان کی پیک نہ تھوکیں۔
ایک گھنٹہ کسی بچے کو دیں ۔۔ نصابی نہیں ۔۔ عملی تعلیم دیں۔
اپنی باری کا انتظار کریں۔
دوستوں میں ۔۔ بیٹھکوں میں بہتری اور شعور کی کوشش کریں۔
عصری آگہی پر مبنی بحث کریں۔
دووسرے کی بات سنیں ۔۔
جیسا بھی ہے قانون کا احترام کریں۔
ہفتے میں ایک گھنٹے کم از کم کسی ہسپتال کے مریض کو وقت دیں۔
یہ تو ہوئے بنیادی نکات :
جن پر عمل کرکے ہم ۔۔ اپنے دل گداز کرسکتے ہیں۔
جب دل گدازہوگا تو ذہن شر کی بجائے بہتری کی سوچے گا۔
واضح رہے کہ تمام کام ہم تنظیم کی بجائے فرداَ فرداَ انجام دیں گے۔
یہی ہماری تنظیم ہے ۔۔ جو عہدوں کی آلائشوں سے پاک ہوگی۔
میری کسی بھی بات سے اختلا ف کی صورت نکل سکتی ہے سو معذرت:
آپ احباب بھی اپنی اپنی آراء اور نکات سے نوازیں۔
واضح رہے کہ بہتری یک دم نہیں آتی ۔۔ لیکن بہتری کا عمل یک دم شروع کیا جاسکتا ہے۔
آئیے ۔۔۔ اپنی اور اپنے جیسے انسانوں کی فلاح کیلئے ۔۔ اپنی اصلاح کریں۔
یاد دکھیں کی فلاح ِ انسانی میں ۔۔۔ ذات پات مذہب ، مسلک ، زبان ، عمر ، قومیت کی کوئی قدغن نہیں۔۔
آپ کا دوست
م۔م۔مغل
اگر ہم کام کرنے پر آمادہ ہیں۔۔ تو ہمیں نہ اسمبلی کی ضرورت ہے اور نہ لوگوں سے ووٹ مانگنے کی۔
یہ جان توڑ اور حوصلہ شکن کام ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں کہ ۔۔ ہم بہتری کی کوشش نہ کرسکیں۔
میں اس وقت شہر (کراچی) کے شعرا میں جونئیر ترین ہوں ۔۔
لیکن میرا اپنے حلقے میں ، دوستوں میں ، شعراء کی بیٹھکوں میں ایک ہی موضوع ہوتا ہے ۔۔
کہ شاعر ادیب معاشرے کی آنکھ ہونے اور حساس ہونے کی اور باشعور ہونے کی تہمت اٹھاتے ہیں تو۔۔
اس ضمن میں ہمکر کیا رہے ہیں۔۔ بشمول سینیئرز کے ہم سب ۔۔ مشاعرہ پڑھنے ۔۔۔ واہ واہ سمیٹنے اور ایک دوسرے
کی ٹانگ کھینچنے کے علاوہ اور کرتے ہی کیا ہیں۔۔۔ میری دوستوں سے یہی گفتگو رہتی ہے ۔۔ کہ ہمیں ہی اب کچھ
کرنا ہے ۔۔ لب و رخسار کی باتیں ۔۔ تسکین طبع کے لیئے ضروری ہے لیکن ۔۔۔ ذہنی جلا کیلئے ہمیں لوگوں میں شعور
بیدار کرنا ہے۔۔۔ اپنا حق مانگنے کا نعرہ جدیدیوں نے لگایا ۔۔ ہم نعرہ کی بجائے کام کرتے ہیں کہ دوسروں کا حق دو۔
بس ایک ایک کام ۔۔ اگر ہم روز کریں تو محض دوسالوں میں ہم کایا پلٹ سکتے ہیں۔
کسی معذور کو سڑک پار کرادیں۔
بس میں بزرگ کو بیٹھنے کی جگہ دیں۔
سڑک پر پان کی پیک نہ تھوکیں۔
ایک گھنٹہ کسی بچے کو دیں ۔۔ نصابی نہیں ۔۔ عملی تعلیم دیں۔
اپنی باری کا انتظار کریں۔
دوستوں میں ۔۔ بیٹھکوں میں بہتری اور شعور کی کوشش کریں۔
عصری آگہی پر مبنی بحث کریں۔
دووسرے کی بات سنیں ۔۔
جیسا بھی ہے قانون کا احترام کریں۔
ہفتے میں ایک گھنٹے کم از کم کسی ہسپتال کے مریض کو وقت دیں۔
یہ تو ہوئے بنیادی نکات :
جن پر عمل کرکے ہم ۔۔ اپنے دل گداز کرسکتے ہیں۔
جب دل گدازہوگا تو ذہن شر کی بجائے بہتری کی سوچے گا۔
واضح رہے کہ تمام کام ہم تنظیم کی بجائے فرداَ فرداَ انجام دیں گے۔
یہی ہماری تنظیم ہے ۔۔ جو عہدوں کی آلائشوں سے پاک ہوگی۔
میری کسی بھی بات سے اختلا ف کی صورت نکل سکتی ہے سو معذرت:
آپ احباب بھی اپنی اپنی آراء اور نکات سے نوازیں۔
واضح رہے کہ بہتری یک دم نہیں آتی ۔۔ لیکن بہتری کا عمل یک دم شروع کیا جاسکتا ہے۔
آئیے ۔۔۔ اپنی اور اپنے جیسے انسانوں کی فلاح کیلئے ۔۔ اپنی اصلاح کریں۔
یاد دکھیں کی فلاح ِ انسانی میں ۔۔۔ ذات پات مذہب ، مسلک ، زبان ، عمر ، قومیت کی کوئی قدغن نہیں۔۔
آپ کا دوست
م۔م۔مغل