حامد میر کا ایک حقیقت پسندانہ کالم۔
کیا ہم امن کے مستحق ہیں؟... قلم کمان ۔۔۔۔۔حامد میر 2009میں امریکہ کے صدر اوباما کو امن کا نوبل انعام دیا گیا تو مائی ریڈ میگوائر نے سب سے پہلے اس اعلان پر تنقید کی۔ میگوائر کی تنقید کو مغربی میڈیا میں بڑی اہمیت دی گئی کیونکہ اس خاتون کو 1976ء میں امن کا نوبل انعام ملا تھا۔ مائی ریڈ میگوائر کا تعلق شمالی آئر لینڈ کے شہر بلفاسٹ سے ہے۔ شمالی آئر لینڈ میں آئرش ری پبلکن آرمی اور برطانوی فوج میں کئی سال تک لڑائی جاری رہی۔ اس لڑائی میں مائی ریڈ میگوائر کی بہن این میگوائر کے تین چھوٹے چھوٹے معصوم بچے مارے گئے۔ ان بچوں کی موت کے بعد مائی ریڈ میگوائر نے اپنی ایک دوست بٹیی ولیمز کے ساتھ مل کر بلفاسٹ میں ایک تنظیم بنائی جس کا نام ’’ویمن فار پیس‘‘ تھا۔ اس تنظیم نے شمالی آئر لینڈ میں مسیحیوں کے دونوں فرقوں کی خواتین کو امن کے نام پر اکٹھا کرنا شروع کیا کیونکہ آئر لینڈ کی خانہ جنگی کے پیچھے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کے اختلافات تھے۔ ’’ویمن فار پیس‘‘ کے پہلے مظاہرے میں 200خواتین نے شرکت کی۔ یہ وہ خواتین تھیں جن کے بیٹے، بھائی اور خاوند بم دھماکوں یا فائرنگ سے مارے گئے تھے۔ کسی کو آئرش ری پبلکن آرمی کے بم دھماکے نے اڑایا تھا کسی کو برطانوی فوج کی گولی یا بمباری نے موت کی نیند سلایا تھا۔ کچھ ہی عرصے میں ’’ویمن فار پیس‘‘ کے مظاہروں میں ہزاروں عورتوں نے شرکت شروع کر دی۔ یہ عورتیں صرف آئی آر اے پر نہیں بلکہ برطانوی فوج پر بھی تنقید کرتی تھیں۔ ’’ویمن فار پیس‘‘ نے دونوں فریقین سے جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ اس مطالبے کو صرف آئر لینڈ میں نہیں بلکہ پورے برطانیہ میں پذیرائی ملی اور یوں آئرش ری پبلکن آرمی کے برطانوی حکومت سے مذاکرات شروع ہوئے۔ مائی ریڈ میگوائر اور بٹیی ولیمز کو 1976ء میں امن کا نوبل انعام ملالیکن شمالی آئر لینڈ میں ’’گڈ فرائی ڈے ایریمنٹ ‘‘ کے نام سے امن معاہدہ 1998ء میں ہوا۔ امن مذاکرات کئی مرتبہ شروع ہوئے کئی مرتبہ ٹوٹے۔ آئی آر اے کے اندر ہی مذاکرات پر اختلافات تھے اور برطانوی حکومت کے اندر بھی یہ رائے پائی جاتی تھی کہ بم دھماکے کرنے والوں سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ 22سال تک یہ آنکھ مچولی چلتی رہی لیکن 22سال کے بعد مائی ریڈ میگوائر کا خواب حقیقت بن گیا اور اب شمالی آئر لینڈ کا شہر بلفاسٹ امن کا گہوارہ بن چکا ہے۔
منگل کی شام پشاور کے ایک سینما میں دستی بموں سے حملے ہوئے تو میں بنی گالا میں عمران خان کے ساتھ بیٹھا حکومت اور طالبان کے مذاکرات کے مستقبل پر تبادلہ خیال کر رہا تھا۔ عمران خان کو خدشہ تھا کہ ان مذاکرات کو سبوتاژ کر دیا جائے گا۔ گفتگو کے دوران انہوں نے بار بار آئر لینڈ کا حوالہ دیا اور کہا کہ برطانیہ اور آئی آر اے میں مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں تو حکومت پاکستان اور طالبان میں کیوں نہیں؟ بدھ کی صبح اخبارات کے بنڈل کو کھولا بھی نہیں تھا کہ ٹی وی پر خبر نشر ہوئی۔ پشاور کے علاقے ماشو خیل میں امن لشکر کے سربراہ کے گھر پر حملے میں کئی عورتیں اور بچے مارے گئے۔ یہ خبر سنتے ہی طبیعت مضطرب ہو گئی۔ ٹی وی اسکرین پر خون کے دھبے نظر آنے لگے۔ اخبارات کی سرخیوں میں نفرتوں کے سیاہ ناگ لہراتے ہوئے دیکھائی دیئے۔ میں نے آنکھیں موند لیں اور ایک نام میرے ذہن میں بجلی کے بلب کی طرح روشن ہو گیا۔ یہ نام تھا مائی ریڈ میگوائر کا۔ چند دن قبل برادرم سہیل وڑائچ نے بھی اس بہادر عورت کا ذکر کیا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیا پاکستان میں کوئی مائی ریڈ میگوائر موجود ہے جو پاکستان کی عورتوں کو امن کے نام پر اکٹھا کر سکے؟ جو صرف بم دھماکوں میں مرنے والی عورتوں اور بچوں کے قتل کی مذمت نہ کرے، جو صرف پولیو ورکرز پر حملوں کو وحشی پن قرار نہ دے بلکہ میر علی میں ہونے والی حالیہ فضائی بمباری میں ایک ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر ثناء اللہ کے گھر میں سات عورتوں اور بچیوں کی موت پر بھی دکھ کا اظہار کرے۔ ان میں دو بچیاں اسکول کی طالبات تھیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ ملالہ یوسف زئی کتنی خوش قسمت ہے کہ اس پر گولی چلائی گئی تو میرے سمیت پوری دنیا کے صحافی طالبان کی مذمت میں سراپا احتجاج بن گئے لیکن شمالی وزیرستان میں عورتیں اور بچیاں فضائی بمباری میں ماری جائیں تو ہم یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ میڈیا کے پاس شمالی وزیرستان تک جانے کی رسائی نہیں ہے۔
آج پاکستان کو کسی مائی ریڈ میگوائر کی ضرورت ہے جو صرف کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعات کی مذمت نہ کرے بلکہ شمالی وزیرستان میں بے گناہ عورتوں اور بچیوں کی اموات کے ذمہ داروں سے بھی سوال پوچھے۔ جو لوگ حکومت اور طالبان میں مذاکرات کے مخالف ہیں وہ بڑے جذباتی انداز میں یہ کہتے ہیں کہ پچاس ہزار پاکستانیوں کے قاتلوں سے مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں؟ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد قبائلی علاقوں سمیت ملا کنڈ، دیر اور بونیر کے علاوہ صوبہ خیبر پختونخواکے کئی علاقوں میں صرف عسکریت پسندوں کے ہاتھوں بے گناہوں کا قتل نہیں ہوا بلکہ ریاستی اداروں کی بمباری سے بھی لاتعداد بے گناہ پاکستانی مارے گئے، ڈرون حملوں میں بھی سینکڑوں عورتیں اور بچے مارے گئے۔ پچاس ہزار پاکستانیوں میں سے اکثر غیر ریاستی عناصر کے بم دھماکوں میں مارے گئے لیکن کچھ ایسے بھی تھے جو ریاستی اداروں کی اندھی کارروائیوں کا نشانہ بن گئے۔ ہم صحافیوں کو کچھ بولنے اور لکھنے سے پہلے یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ ایک دن ہم نے بھی مرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور ایک ایک لفظ کا حساب دینا ہے۔ ہم پاکستان میں اس وقت تک امن قائم نہیں کر سکتے جب تک ہم مائی ریڈ میگوائر کی طرح دیانتداری کے ساتھ امن کا مطالبہ نہیں کرتے۔
ابھی تک حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی جو تفصیل میڈیا میں آ رہی ہے اس میں کئی باتیں غلط ہیں۔ دونوں مذاکراتی ٹیموں میں کچھ لوگوں کو اپنے چہرے میڈیا پر دکھانے کا بہت شوق ہے۔ ان کا شوق خود نمائی اور ہم صحافیوں کی بے بنیاد خیال آرائی مذاکرات کے لئے بہت مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ کوئی کچھ بھی کہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ طالبان نے آئین پاکستان کے اندر رہ کر مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے اور اسی لئے میں اس مذاکراتی عمل کی کامیابی کیلئے دعا گو طالبان نے یہ ضرور کہا ہے کہ مذاکرات آئین اور قانون کی روشنی میں ہوں لیکن مذاکرات میں شریعت کے نفاذ کی کوئی شرط عائد نہیں کی۔ انہوں نے یہ وضاحت بھی کر دی ہے کہ ان کی کوئی نو رکنی کمیٹی مذاکرات کی مانیٹرنگ نہیں کر رہی سب فیصلے مرکزی شوریٰ کر رہی ہے۔ طالبان نے اپنے سزا یافتہ قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی نہیں کیا بلکہ صرف سوات اور قبائلی علاقوں سے حراست میں لی جانے والی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے جن پر کوئی مقدمات نہیں۔ ان مطالبات کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ طالبان بڑے بے ضرر قسم کے لوگ ہیں۔ انہوں نے کئی بڑی تخریبی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی اور کئی اہم لوگوں کو اغواء کیا۔ حکومت یکطرفہ طور پر اُن کے مطالبات تسلیم نہیں کر سکتی۔ انہیں بھی جنگ بندی کے اعلان کے بعد حملے بند کرانے ہوں گے اور کم از کم ڈاکٹر اجمل خان جیسے قابل احترام استاد کو رہا کر دینا چاہئے۔ اگر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی اور میڈیا مل کر مائی ریڈ میگوائر کی طرح طالبان اور حکومت دونوں سے جنگ بندی کا مطالبہ کریں اور ہر قسم کی ڈبل گیم کو قبل از وقت بے نقاب کرنا شروع کر دیں تو پاکستان میں امن ضرور قائم ہو سکتا ہے۔ امن اسی وقت ملے گا جب امن کی خواہش دیانت پر مبنی ہو گی۔