پڑتی ہے دستِ بیوی سے مار التہاب میں

عرفان سعید

محفلین
غزل
(جنابِ غالب سے معذرت کے ساتھ)

پڑتی ہے دستِ بیوی سے مار التہاب میں
رنڈوہ ہوں جو ملتی ہو راحت عذاب میں

کب سے ہُوں۔ کیا بتاؤں مکانِ خراب میں
ویگن کا خرچہ بھی گنیں ہیں وہ حساب میں

تا پھر نہ سوگوار میں نیند آئے عمر بھر
کھانے کا عہد کر گئی آئی جو خواب میں

بیگم کے آتے آتے صفائی بھی کر رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ کہیں گی خطاب میں

زلفوں کی چاندنی بھی تو کالی نہیں ہوئی
بیگم نے کچھ ملا نہ دیا ہو خضاب میں

جو زوجہ کا مرید فریب اس پہ کیا چلے
کیوں بدگماں ہوں سالی سے بیگم کے باب میں

میں مضطرب ہُوں اب کہ یکم کچھ قریب ہے
تنخواہ نے ہے ڈالا عجب پیچ و تاب میں

ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے
ہے اک شکن پڑی ہوئی طرفِ نقاب میں

وہ نالہ بیوی پر بھلا کیسے اثر کرے
جس نالے سے اگر پڑے ہڈی کباب میں

صاحب چُھٹا عتاب پر اب بھی کبھی کبھی
سہتا ہوں روزِ ابر و شبِ ماہتاب میں

عرفان سعید
 

فہد اشرف

محفلین
[QUOTE="عرفان سعید, post: 1935450, member: 987
ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے
ہے اک شکن پڑی ہوئی طرفِ نقاب میں
[/QUOTE]
یہ تو پورا کا پورا شعر غالب کا ہے
 
Top