پڑوسی کے حقوق حدیث نبوی کی روشنی میں

ابن جمال

محفلین


پڑوسی کے حقوق حدیث نبوی کی روشنی میں

--------------------------------------------------------------------------------

پڑوسی کے حقوق قرآن وسنت کی روشنی میں
حافظ ذہبی کا تالیف کردہ ایک مختصر کتابچہ بعنوان حقوق "الجار"ہے میں نے مناسب سمجھاکہ اس کا ترجمہ کردیاجائے۔بعض مقامات پر حافظ ذہبی نے ایک ہی حدیث کو مختلف سندوں کے ساتھ بیان کیاہے تواس کو چھوڑدیاگیاہے۔ترجمہ میں غلطیوں کا امکان ہے۔ اہل علم حضرات سے گزارش ہے کہ اگراس ترجمہ میں کچھ خامی اورخرابی ہے تواس کی نشاندہی کرکے ممنون کریں۔
اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اوردیگر مذاہب کے برعکس جس میں گھربار،بیوی بچے اوررشتہ دار واقرباء سب کچھ چھوڑکر جنگلوں مین نکل جانے اوررہبانیت کی زندگی گزارنے کی تاکید کی گئی ہے۔اس کی جگہ اسلام نے یہ بتایاکہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی بہت ضروری ہیں اوربعض اعتبار سے انہیں حقوق اللہ سے بھی آگے رکھاجاسکتاہے۔کیونکہ قیامت کے دن اللہ پاک اپناحق معاف کردیں گے لیکن اس نفسی نفسی کے عالم میں کوئی کسی کو معاف نہیں کرے گا۔ اس دن ہرایک کواپنی نجات کی فکر ہوگی۔قرآن نے روز حشر کابڑاہولناک نقشہ کھینچاہے کہ اس دن ہرشخص اپنے بھائی،ماں باپ ،بیوی بچے سب سے گریزاں ہوگا ۔
حقوق العباد میںسے ایک اہم حق پڑوسی کا حق ہے جس کی جانب اسلام نے بڑی توجہ دلائی ہے ۔رسول اللہ ۖ کاارشاد ہے کہ جبرئیل نے مجھ کو پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید کی کہ مجھے خدشہ ہوگیاکہ پڑوسیوں کوبھی وراثت میں حقدار قراردے دیاجائے۔()یہ ارشاد رسول ہی اپنے آپ میں یہ بیان کردے رہاہے کہ پڑوسیوں کے حقوق کی کتنی شدت سے تاکید بیان کی گئی ہے۔دوسری طرف اگرہم اپنی زندگی کو دیکھیں اورتھوڑاغورکریں کہ کیاکبھی ہم نے اپنے پڑوسی کے حقوق اداکرنے کی طرف توجہ کی ہے۔ کیااسلام میں پڑوسی کے جوحقوق بیان کئے گئے ہیں اوربطور ایک پڑوسی قرآن وحدیث میں ہم پر جوذمہ داری عائد کی گئی ہے اسے ہم نے پوراکیاہے۔اگرانصاف سے جواب کی تلاش کی جائے توجواب یہی ہوگانہیں؟اوریہی وجہ ہے کہ آج ہماری زندگی سے چین وسکون اٹھ گیاہے۔ہرشخص کواپنی فکر ہے۔پڑوسی پڑوسی کے حالات سے بے خبر ہے اورکوئی ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے کیلئے تیار نہیں۔اگراسلامی تعلیمات کو اپنایاجائے اوربالخصوص پڑوسی کے جوحقوق قرآن وحدیث میں بیان ہوئے ہیں ان کی جانب توجہ دی جائے توشاید ہمارے معاشرے اورسماج سے جوچین وسکون اٹھ گیاہے وہ دوبارہ واپس آجائے اورہماری معاشرت بہت خوبصورت ہوجائے۔
قرآن کریم نے ایک مقام پر پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید ہے اوریہ حسن سلوک کس طرح ہو،اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات گرامی سے واضح کیاہے۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض منصبی ہی یہی تھا کہ لتبین للناس مانزل الیھم کہ قرآن کی آیتوں کو واضح کریں،کھول کر بیان کردیں۔اس کے مفہوم ومعانی سے لوگوں کوآگاہ کریں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نساء میں فرمایا۔واعبدوا اللہ ولاتشرکوابہ شیئا وبالوالدین احسٰناوبذی القربی والیتمی والمسکین والجارذی القربی والجارالجنب والصاحب بالجنب،وابن السبیل،وماملکت ایمٰنکم،ان اللہ لایحب من کان مختالافخورا(سورہ نسائ،36)اور اللہ کی بندگی کرو اورکسی کو اس کا شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور قریبی ہمسایہ اور اجنبی ہمسایہ اورپاس بیٹھنے والے او رمسافر او راپنے غلاموں کے ساتھ بھی نیکی کرو بے شک اللہ اترانے والے بڑائی کرنے والے کو پسند نہیں کرتا ۔اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک وتعالی نے والدین کے ساتھ ساتھ رشتہ داروں،یتیموں،مساکین کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے ساتھ نیکی کرنے یعنی حسن سلوک کرنے کاحکم دیاہے۔الجارذی القربی اورالجارالجنب کے ایک معنی حضرت ابن عباس سے یہ مروی ہیں کہ وہ پڑوسی جس سے تمہاری رشتہ داری ہو اوروہ پڑوسی جس سے تمہاری رشتہ داری نہ ہودونوں کے ساتھ اللہ نے نیکی کرنے کا حکم دیاہے۔ ایک حدیث آگے ذکر ہوگی۔جس میں اسی اعتبار سے پڑوسیوں سے حسن سلوک کرنے کا حکم دیاگیاہے۔(تفصیل کیلئے تفسیر طبری کی جانب رجوع کریں)
پڑوسی کااکرام
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ابوشریح العدوی الکعبی الخزاعی نے نقل کیاہے وہ فرماتے ہیں۔سمعت اذنای وابصرت عینای حین تکلم النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال:من کان یومن باللہ والیوم الآخر فلیکرم جارہ(بخاری ،کتاب الادب،باب من کان یومن باللہ والیوم الآخر،مسلم کتاب الایمان ،حدیث76,77،ابن ماجہ کتاب الادب،موطاامام مالک کتاب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم)یہ روایت متعددصحابہ کرام سے منقول ہے۔حافظ ذہبی نے اس روایت کو متواتر المعنی قراردیاہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر چہ اس حدیث کے الفاظ متواتر نہیں ہیں لیکن مجموعی طورپر پڑوسی کے اکرام کے بارے میں جوروایتین متفرق طورپر ہیں وہ اس قدر ہیں کہ وہ درجہ تواتر کو پہنچتی ہیں۔یہ حدیث حضرت ابوایوب انصاری،حضرت خالد الجہنی سے بھی منقول ہے۔
پڑوسی کے ساتھ بہترسلوک کرناحضرت ابوشریخ خزاعی کہتے ہین کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا جواللہ اورقیامت کے دن پر ایمان رکھتاہواسے چاہئے کہ وہ پڑوسی کے ساتھ احسان کا معاملہ کرے۔(الادب المفرد،باب الوصاۃ بالجار،مسلم کتاب الایمان،باب ذلک کلہ من الایمان،سنن الدارمی،کتاب الاطعمہ،باب11)یہ حدیث حضرت ابوہریرہ سے بھی مروی ہے۔(مسلم ،کتاب الایمان باب ذلک کلہ من الایمان)
مومن وہ ہے جو پڑوسی کو تکلیف نہ دے
حضرت ابوہریرہ رسول اللہ ۖ کاارشاد نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا جوشخص اللہ اوراس کے رسول پر ایمان رکھتاہے اسے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔(بخاری کتاب الادب باب من کان یومن باللہ والیوم الآخر فلایوذجارہ،مسلم المصدرالسابق،ابودائود،کتا ب الادب باب فی حق الجوار)
یہ حدیث حضرت ابوہریرہ کے علاوہ حضرت ابوسعید الخدری،حضرت عائشہ اورابن مسعود سے بھی منقول ہے۔
پڑوسی کو تکلیف پہنچانے والاملعون(خداکی رحمت سے دور)ہے
شریک ابوعمر سے اور وہ ابوجحیفہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ۖ کے پاس اپنے پڑوسی کی شکایت کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے سامان لے کرراستے پر آجائو۔راوی کہتے ہیں لوگ راستے سے گزرتے اوراس پر (پوراواقعہ سن کر پڑوسی کو تکلیف پہنچانے والے )لعنت کرتے ۔(شدہ شدہ یہ خبر اس تک پہنچی )وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااورپوچھا اے اللہ کے رسول میں نے ایساکیاکیاکہ لوگ مجھ پر لعنت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔لوگوں کے لعنت کرنے سے پہلے اللہ نے تجھ پر لعنت کی ہے اس شخص نے پڑوسی کو تکلیف نہ دینے کاوعدہ کیا۔جب وہ شخص آیا جواپنے پڑوسی کے ظلم کاشکار تھا توآپ نے فرمایا اپناسامان (راستے سے)اٹھالو اب تم مامون ومحفوظ ہو۔(الادب المفرد،باب شکایۃ الجار ص43/44،کنزالعمال رقم 25510،مستدرک حاکم4/166)
یہ روایت حضرت حضرت ابوہریرہ سے منقول ہے اس میں اس بات کاذکر ہے کہ تکلیف دینے والے پڑوسی نے خود آکر اپنے پڑوسی سے سامان اٹھاکر گھرواپس چلنے کی گزارش کی اورآئندہ کبھی نہ ستانے کابھی وعدہ کیا۔حدیث کے الفاظ ہیں۔''ارجع الی منزلک،فواللہ لااوذیک ابداً''گھرواپس چلئے آئندہ میں کبھی تکلیف نہیں پہنچائوں گا۔(بخاری ادب المفردباب شکایۃ الجار،مجمع الزوائد 8/170,)
جب کہ شہر بن حوشب سے مروی روایت میں اسی واقعہ میں یہ منقول ہے کہ شکایت کرنے والے پڑوسی نے جب اولاًاپنے پڑوسی کے ظلم وستم کی شکایت کی تو فرمایاصبرکرو دوبارہ آیا توفرمایا صبرکرو،جب تیسری مرتبہ اس نے شکایت کی توآپ نے گھرکاسامان راستے پر ڈال دینے کامشورہ دیا۔(کنزالعمال 25607،علی متقی الھندی نے اس روایت کو ابونعیم کی المعرفۃ کی جانب منسوب کیاہے)
براپڑوس قیامت کی نشانیوں میں سے ہے
حضرت ابوہریرہ مرفوعاً(یعنی ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثت سے)روایت کرتے ہیں کہ قیامت کی علامتوں مین سے براپڑوس اورقطع رحمی (رشتہ داروں کے حقوق کاادانہ کرنا)بھی ہے۔جب کہ ایک دوسری روایت جوحضرت ابوہریرہ سے ہی منقول ہے اس میں قرب قیامت کی علامتوں مین سے ایک ترک جہاد بھی ہے۔(الادب المفرد ص41،اس میں من اشراط الساعۃ کی جگہ لاتقوم الساعۃ ہے کہ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک یہ باتیں ظہور پذیر نہ ہوجائیں)
پڑوسی کو تکلیف پہنچانے والا جنت میں نہیں جائے گاحضرت انس فرماتے ہین کہ مین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناہے۔وہ مومن نہیں ہے جس کاپڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہو۔(حدیث کے الفاظ ہیں غوائلہ ،جب کہ ایک دوسری روایت میں بوائقہ کا لفظ ہے دونوں کا معنی قریب قریب ایک ہی ہے۔شر ،برائی تکلیف،مستدرک حاکم،4/165،کنزالعمال24905)
یہ روایت حضرت انس سے بھی منقول ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہین کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک کہ اس کاپڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہو،ہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول ،بوائق کاکیامطلب ہے آپ نے فرمایا اس کاغصب اوراس کاظلم۔(مسند احمد بن حنبل۔4/336،مجمع الزوائد 8/169)
یہ روایت حضرت ابوشریح الخزاعی سے بھی منقول ہے جس میں آپ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔خداکی قسم وہ مومن نہیں ہوسکتا خداکی قسم وہ مومن نہیں ہوسکتا خداکی قسم وہ مومن نہیں ہوسکتا،صحابہ نے عرض کیایارسول اس سے مراد کون ہے۔آپ نے فرمایا وہ پڑوسی جس کے بوائق سے اس کا پڑوسی مامون نہ ہو،صحابہ نے عرض کیابوائق کاکیامطلب ہے۔فرمایااس کی برائی۔(بخاری کتاب الادب باب اثم من لایامن جارہ بوائقہ ،امام بخاری نے بوائق کی تفسیر ہلاکت سے کی ہے۔یوبقھن یہلکھن موبقا مھلکا)
حضرت انس مرفوعاًنقل کرتے ہین مومن وہ ہے جس سے اس کاپڑوسی مامون ہو اوراس کے شر کااس کوخوف نہ ہو۔
حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے پتوں میں سے ایک پتہ پر لکھوایا(اصل لفظ کتب ہے )شروع اللہ کے نام سے جو بڑامہربان اورنہایت رحم کرنے والاہے۔وہ شخص الللہ اورروزقیامت پرایمان نہیں رکھتاجس کاپڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہو۔(مستدرک حاکم 4/165،حاکم نے اس حدیث کے بارے میں کہاہے کہ وہ صحیحین کی شرط پر ہے)
پڑوسی کے اہلخانہ پربری نظررکھناح
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیا سب سے بڑاگناہ کون ساہے۔آپۖ نے فرمایا اللہ کے ساتھ کسی کوشریک کرناجب کہ تجھ کو اللہ نے ہی پیداکیاہے۔میں نے پوچھاپھرکون ساگناہ،فرمایا:اپنی اولاد کواس خوف سے قتل کرنا کہ اس کو بھی اپنے ساتھ کھلاناپڑے گا۔میں نے پوچھا،پھرکون ساگناہ ،فرمایا ۔اپنی پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زناکرنا۔جب کہ اللہ تبارک وتعالی کاارشاد ہے ،اورجولوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے خداکو نہیں پکارتے،اورنہ کسی نفس کو قتل کرتے ہیں جس کو اللہ نے حرام قراردیاہو مگر حق کے ساتھ اورنہ زناکرتے ہیں۔(بخاری کتاب التفسیر،کتاب الادب،باب قتل الولد خشیۃ ان یاکل معہ،کتاب الحدود باب20،مسلم کتاب الایمان 141،ابودائود کتاب الطلاق باب50،سنن الترمذی،کتاب التفسیر ،تفسیر سورة25،نسائی کتاب التحریم باب4،مسند احمد بن حنبل،1/380،1/431)
(نوٹ :اس روایت کے ایک دوسرے سند میں اس کی وضاحت ہے کہ سوال شروع سے حضرت عبداللہ بن مسعود نے ہی پوچھاتھا۔الفاظ ہیں۔عن عمرو بن شرحبیل عن عبداللہ قال:سالتُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،یعنی سوال کرنے والے شروع سے ہی حضرت عبداللہ بن مسعود تھے جب کہ جوحدیث پیش کی گئی اس کی سند میں ہے ۔عن عمرو بن شرحبیل،عن عبداللہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم سئل ۔یعنی اولاسوال کسی اورنے کیاتھابعد میں سوال انہوں نے کئے تھے۔)
حضرت مقداد بن الاسود کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا۔چوری کے بارے میں تمہاراکیاخیال ہے۔ہم نے عرض کیا ۔حرام ہے اس کو اللہ نے حرام قراردیاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دس گھروں سے چوری کرنے کرنے سے زیادہ برایہ ہے کہ اپنے پڑوسی کے گھر میں چوری کرے۔(پھرفرمایا)تم زنا کے بارے میں کیاکہتے ہو؟ہم نے عرض کیا اس کو اللہ اوراس کے رسول نے حرام قراردیاہے اوروہ حرام ہے۔فرمایا دس عورتوں کے ساتھ زناکرنے سے زیادہ برایہ ہے کہ کوئی شخص اپنی پڑوس کی عورت سے زناکرے۔(مسند احمد بن حنبل6/8،مجمع الزوائد،8/16
نوٹ:اس روایت کو ذکرکرنے کے بعد حافظ ذہبی لکھتے ہیں محمد بن سعید(جواس روایت کاایک راوی ہے )وہ متہم ہے۔اس روایت کو ذکرکرنے کے بعد حافظ ہیثمی لکھتے ہیں۔اس کے تمام رواۃ ثقہ ہیں۔
حضرت سلمی اپنے والد حضرت ابوبریدہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :''جس نے کسی مسلمان سے اس کی بیوی اورپڑوسی کے بارے میں دھوکہ کیاتووہ ہم میں سے نہیں ہے۔(کنزالعمال 7830)
پڑوسی کوکھانے میں سے کچھ بھیج دیناا
حضرت ابوذر سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب تم شوربہ بنائو تواس میں پانی زیادہ کردو ،پھر اپنے پڑوسیوں کے اہلخانہ کو دیکھو اوران کو اس میں سے کچھ پہنچادو۔(مسلم ،کتاب البروالصلۃ،143،ابن ماجہ کتاب الاطعمہ باب58،سنن الدارمی کتاب الاطعمہ باب37،سنن الترمذی کتاب الاطعمہ 30،مسند احمد بن حنبل 5/161)
حضرت جابر سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم مین سے کوئی گوشت پکائے تو تواس میں شوربہ زیادہ کردے اورکچھ پڑوسیوں کے یہاں بھی بھجوادے۔(الادب المفرد ،باب مایکثر ماء المرق فیقسم فی الجیران ص40)
(نوٹ:حافظ ذہبی اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں یہ حدیث اس سند سے منکر ہے لیکن متن صحیح ہے )
علقمہ بن عبداللہ المزنی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔جب تم میں سے کوئی گوشت خریدے تواس میں شوربہ زیادہ کردے ۔اگر کسی کو گوشت نہ مل سکے تو(کم سے کم)شوربہ مل جائے گا اور وہ بھی گوشت کاہی ایک حصہ ہے۔(سنن الترمذی کتاب الاطعمہ باب ماجاء فی اکثار ماء المرقۃ۔امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث غریب ہے۔کنزالعمال40733)
حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہامرفوعاًروایت کرتی ہیں کہ جب تم میں سے کوئی گوشت پکائے تواس میں شوربہ زیادہ کرے اورکچھ پڑوسی کو بھی دے۔(مجمع الزوائد 8/165۔حافظ ہیثمی فرماتے ہیں کہ اس روایت میں عبیداللہ بن سعید قائد الاعمش ہے جس کی توثیق ابن حبان نے کی ہے جب کہ دوسرے محدثین نے اس کو ضعیف قراردیاہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسیوں کیلئے بہترہے اوراللہ کے نزدیک سب سے بہترین ساتھی وہ ہے جواپنے ساتھیوں کیلئے سب سے بہترہے۔(مسند احمد بن حنبل2/168،سنن الترمذی کتاب البروالصلہ28،سنن الدارمی کتاب السیر باب3،مستدرک حاکم 4/168،الادب المفرد ،باب خیرالجیران ص41/42)
پڑوسیوں میں زیادہ حق دار کون ہے
طلحہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ سے عرض کیا۔اے اللہ کے رسول ۖ میرے دوپڑوسی ہیں تومیں (ہدیہ تحفہ وغیرہ)میں کس سے شروعات کروں۔آپ صلی اللی علیہ وسلم نے فرمایاجس کا دروازہ زیادہ قریب ہو۔(بخاری باب حق الجوار فی قرب الابواب ،الادب المفرد باب یہدی الی اقربہم بابا،مستدرک حاکم 4/167)
حضرت عائشہ رضی اللہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا میرے دوپڑوسی ہیں تومیں کس سے شروع کروں(یعنی کوئی ہدیہ تحفہ یاکوئی اورچیزلینے دینے کے معاملہ میں کس پڑوسی کو مقدم رکھاجائے)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے شروعات کروجو ہدیہ میں تم سے زیادہ قریب ہو۔
حضرت ابوہریرہ سے مرفوعاًمنقول ہے اپنے پڑوسی کے ساتھ بہتر برتائو کرو مومن بن جائوگے۔(مسند احمد 2/310،سنن الترمذی کتاب الزہدباب2،مجمع الزوائد 8/19،ہیثمی نے اس روایت کے متعلق کہاکہ اس کو احمد نے روایت کیاہے اوراس کے رواۃ صحیح کے ر واۃ ہیں۔
پڑوسی کا حق شفعہ
نوٹ:یہاں ایک وضاحت ضروری ہے کہ شفعہ فقہاء کی اصطلاح میں اس حق کو کہتے ہیں جو پڑوسی کو بطورپڑوسی کے حاصل ہوتاہے کہ اگر کوئی اپنامکان زمین جائیداد بیچنا چاہتاہے تواس کو خریدنے کا پہلا حق پڑوسی کا ہے۔اگر وہ کسی وجہ سے عذر کردیتاہے تو پھردوسرے کو بیچاجاسکتاہے۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ حق شفعہ صرف استحباب کی حد تک ہے لازمی نہیں جب کہ دوسرے کہتے ہیں کہ حق شفعہ لازمی ہے اورپڑوسی کو اعتراض کا حق حاصل ہے۔
حضرت جابر سے مرفوعامنقول ہے پڑوسی اپنے قرب کی وجہ سے زیادہ حقدار ہے۔(بخاری کتاب الشفعہ،باب2،ابودائود کتاب البیوع باب73،سنن النسائی کتاب البیوع ،باب19،ابن ماجہ کتاب الشفعہ باب2مسند احمد بن حنبل6/10)
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔جب تم میں سے کوئی جائیداد بیچنے کا ارادہ کرے تواس کوتب تک نہ بیچے جب تک کہ اپنے پڑوسی سے اس کی اجازت نہ لے لے۔(ابن ماجہ کتاب الشفعہ باب من باع رباعا فلیوذن شریکہ )
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :پڑوسی اپنے پڑوسی کے شفع کا زیادہ حقدار ہے۔وہ اس کا انتظار کرے اگر وہ غائب ہو جب کہ دونوں کاراستہ ایک ہو۔اس کو سنن اربعہ کے مولفین نے روایت کیاہے۔(ابودائود کتاب البیوع باب73،ترمذی کتاب الاحکام باب 32،ابن ماجہ کتاب الشفعہ باب1,2،مسند احمد 3/303)
حضرت ابن عباس رضی سے مرفوعاًروایت ہے کہ جس کے پاس کوئی زمین ہو ااور وہ اس کو بیچناچاہئے تواس (بیع کو پہلے پہل)پڑوسی کے سامنے رکھے۔اس روایت کو قزوینی نے بیان کیاہے۔(کنزالعمال 18692)
حضرت سمرہ بن جندب سے مرفوعا منقول ہے :گھر کا پڑوسی گھر کا زیادہ حقدار ہے۔(سنن الترمذی کتاب الاحکام باب31/33،امام ترمذی نے اس حدیث کے بارے میں فرمایا یہ حدیث حسن صحیح ہے،ابودائود کتاب البیوع باب73)
پڑوسی کے حق میں سے ایک اس کو اپنے دیوار پر لکڑی گاڑنے کا حق بھی دینا ہے اس بارے میں حضرت ابوہریرہ کی روایت صحیح ہے اوریہی قول امام احمد بن حنبل کا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد نقل کرتے ہیں کہ جب تم میں سے کسی سے اس کا پڑوسی اس کی دیوار میں لکڑی گاڑنے کی اجازت مانگے تواس کومنع نہ کرے۔متفق علیہ(بخاری کتاب المظالم باب20،مسلم کتابا لمساقاة حدیث 136،ترمذی کتاب الاحکام باب18،ابن ماجہ کتاب الاحکام باب15،موطاامام مالک کتاب الاقضیہ33)
کیاتم جانتے ہو پڑوسی کا حق کیاہے
نہربن حکیم اپنے والد سے کے واسطے سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا میرے پڑوسی کا مجھ پر کیاحق ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اگر وہ بیمارپڑے تو اس کی عیادت کرو،اوراگرمرجائے تو جنازے کے ساتھ چلو،اگر تم سے قرض مانگے تو اسے قرض دو،اگر اسے کوئی خوشی اوربھلائی حاصل ہو تواس کو مبارکباد دو،اوراگراسے کوئی رنج اورتکلیف پہنچے تواس کی تعزیت کرواوراپنے عمارت اس سے اونچی نہ بنائوتاکہ اس کے ہوامیںرکاوٹ نہ پہنچے۔اوراپنے ہانڈی کی بو سے اس کو تکلیف مت پہنچائوہاں مگریہ کہ کچھ اس کو بھی پہنچادو۔اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد حافظ ذہبی کہتے ہیں بیکار سند ہے۔(الاحیاء فی علوم الدین 2/213،حافظ عراقی جنہوں نے احیاء کے احادیث کی تخریج کی ہے وہ کہتے ہیں یہ حدیث ضعیف ہے۔)
عمروبن شعیب اپنے والد کے واسطے سے اپنے دادا سے نقل کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کیاتم جانتے ہو کہ پڑوسی کا حق کیاہے؟اگر وہ تم سے مدد مانگیے تواس کی مدد کرو،اگر تم سے قرض مانگے تواس کو قرض دو اوراگر وہ بیمارپڑے تواس کی عیادت کرو اوراپنی عمارت کو زیادہ اونچی نہ بنائو کہ اس کوہواکے پہنچے میں رکاوٹ ہو مگرپڑوسی کی اجازت سے۔اوراگر تم میوہ خریدو توکچھ اس کو بھی ہدیہ کرو،اگر ایسانہ کرسکو توپوشیدہ طورپر گھر لے جائواورتمہارابیٹامیوہ لے کر باہر نہ جائے کہ کہیں اس کے بیٹے کو رنج ہو۔اوراپنے ہانڈی کی بو سے ا س کو تکلیف نہ دو مگر یہ کہ کچھ اس کو بھی پہنچادوآپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر پڑوسی کے ساتھ خیرخواہی کے بارے میں بیان کرتے رہے یہاں کہ میں نے گمان کرلیاکہ آپ صلی اللہ پڑوسی کو وراثت میں حقدار قراردے دیں گے۔
(اس حدیث کی تخریج پہلے ہی گزر چکی ہے اس میں سوید بن عبدالعزیز السلمی کو محدثین نے ضعیف قراردیاہے۔)
وہ مومن نہیںجو خودتوشکم سیر ہوکر رات گزارے اوراس کا پڑوسی بھوکاہو
حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :وہ مومن نہیں ہے جو خود توپیٹ بھرکر سوئے اوراس کا پڑوسی بھوکاہو۔اس حدیث کے ایک راوی حکیم بن جبیر کو محدثین نے ضعیف قراردیاہے اوران پر جرح کی ہے لیکن اس حدیث دیگر شواہد ہیں۔(الفردوس للدیملی5/20،مستدرک حاکم4/167،سنن کبری للبیہقی 3/10،طبرانی فی الکبیر12/104،الترغیب والترہیب 3/358،امام منذری اس حدیث کوبیان فرماکرکہتے ہیں کہ اس حدیث کو طبرانی اورابویعلی نے روایت کیاہے اوراس کے رواۃ ثقہ ہیں)
حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ مومن نہیں ہے جوخودتوشکم سیر ہو اوراس کے بازو میں اس کاپڑوسی بھوکاہو۔(الادب المفرد باب لایشبع دون جارہ ص40،مسند احمد1/55،مجمع الزوائد8/167،حافظ ہیثمی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو طبرانی اوربزار نے بھی روایت کیاہے اوربزار کی سند حسن درجے کی ہے)حضرت انس
فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جوشخص خود شکم سیررہے اوراس کے بازو میں اس کاپڑوسی بھوکاہواوروہ اس کے حال سے واقف بھی ہوتواس نے مجھ پر ایمان نہیں لایا۔اس روایت کے ایک راوی اثرم کو ابوزرعہ نے ضعیف قراردیاہے اوریہ حدیث منکر ہے۔(مجمع الزوائد 8/167،اس حدیث کو حافظ ہیثمی نے نقل کرنے کے بعد کہاہے کہ اس کو بزارنے بھی روایت کیاہیاوراس کی سن حسن ہے۔اس حدیث کے ایک راوی اثرم کے بارے میں مزید معلومات کیلئے الکامل لابن عدی کی جانب رجوع کیاجائے۔الکامل لابن عدی6/291)
رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے ایک شخص سے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سناہے :آدمی پڑوسی کوبھوکاچھوڑکرخودشکم سیر نہ ہو۔اس کی سند ضعیف ہے۔(کنزالعمال حدیث 14331)
پڑوسی کوتکلیف دینے والی عورت جہنم میں جائے گی
حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاگیا فلانی عورت رات بھرنماز پڑھتی اوردن کوروزہ رکھتی ہے لیکن اپنے پڑوسی کو اپنی زبان سے تکلیف بھی پہنچاتی ہے (ایسی عورت کے بارے میں آپ کیافرماتے ہیں)آپ صلی اللہ علیہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جہنمی ہے۔صحابہ نے کہااورفلاں عورت صرف فرض نمازیں پڑھتی ہے اورتھوڑاپنیرصدقہ کرتی ہے لیکن اپنے پڑوسی کوتکلیف نہیں پہنچاتی ہے (ایسی عورت کے بارے میںآپۖ کیافرماتے ہیں)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ جنتی ہے۔(مسند احمد2/440،مستدرک حاکم4/166،مجمع الزوائد 8/169،حافظ ہیثمی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں۔)
اچھاپڑوسی
حضرت عبدالحارث فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدمی کی خوش نصیبی میں سے اچھاپڑوسی بھی ہے۔(مسند احمد 3/407،الادب المفرد باب الجار الصالح ص41،تھوڑی سی زیادتی اوراختلاف کے ساتھ،اسکے الفاظ ہیں کہ ایک مسلمان کی نیک بختی میں سے کشادہ گھر،نیک پڑوسی اورعمدہ سواری شامل ہیں۔مستدرک حاکم4/167،امام حاکم کہتے ہیں یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
حضرت انس سے مرفوعامنقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔پڑوسی گھر سے پہلے ہے۔(مسند الفردوس للدیلمی 2624،والطبرانی کمافی مجمع الزوائد 8/164،حافظ ہیثمی کہتے ہیںکہ اس میں ایک راوی ابان بن لمحبر ہے )اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کہیں بھی گھر خریدنے بنانے سے قبل پڑوس کو دیکھناچاہئے اگر پڑوسی صالح اورنیک ہوں توپھروہاں قیام کافیصلہ کرے ورنہ اس مقام کو چھوڑدے۔
حضرت انس سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے پڑوسی اوراپنے بھائی کیلئے وہی چیز پسند نہ کرے جس کو وہ خودکیلئے پسند کرتاہو۔(صحیح مسلم ،کتاب الایمان باب الدلیل علی ان من خصال الایمان،کنزالعمال24886)
اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب بننے کاطریقہ
عبدالرحمن بی ابی قراد نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس کسی کو یہ بات پسند ہو کہ وہ اللہ اوراس کے رسول کا محبوب بنے تووہ اپنے پڑوس والوں کے ساتھ حسن سلوک کامعاملہ کرے۔حافظ ذہبی فرماتے ہیں کہ اس کی سند جید ہے۔(شعب الایمان للبہیقی201/2،رقم 1533۔اس سند میں ایک راوی حارث بن فضل ہے امام احمد نے ان کو ضعیف قراردیاہے جب کہ ابن معین اورنسائی نے ان کو ثقہ قراردیاہے۔حافظ ذہبی کے طرز عمل اوران کے اس حدیث کو جیدقراردینے سے یہ پتہ چلتاہے کہ اس راوی کے بارے میں ان کی بھی رائے ابن معین اورامام نسائی کے ساتھ ہے۔الاوسط للطبرانی 6/320،رقم6517)
پڑوسی کوحقیر سمجھنے سے بچو[/COLOR
]حضرت ابوہریرہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔اے مسلمان عورتو!تم میں سے کوئی اپنے پڑوسی کو حقیر نہ سمجھے اگر چہ وہ بکری کے کھر ہی کیوں نہ بھیجے۔(مراد اس حدیث سے یہ ہے کہ اپنے پڑوسیوں اوران کے ہدایااورتحائف کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ بظاہروہ معمولی اوربے حیثیت ہی کیوں نہ ہو۔
نوٹ:حافظ ذہبی کہتے ہیں کہ اس حدیث کے ایک راوی لیث کی متابعیتابومعشرالسندی نے بھی کی ہے جب کہ لیث ایسے ثقہ راوی ہیں کہ ان کو متابعت کی ضرورت نہیں۔(بخاری کتاب الھبۃ وفضلھاباب1،مسلم کتاب البر باب الوصیۃ بالجار،حدیث143،سنن الدارمی کتاب الزکاۃ 33،موطاامام مالک کتاب الصدقہ 4،مسند احمد 2/264)
عمروبن معاذالاشھلی اپنی دادی سے نقل کرتے ہیں وہ کہتی ہیں کہ مین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرماتے ہوئے سناہے۔اے مومنہ عورتو! تم میں سے کوئی اپنی پڑوسن کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ بکری کے جلے ہوئے پائے ہی کیوں نہ ہو۔
مراد اس حدیث کی بھی وہی ہے کہ اپنے پڑوسی کے ہدایااورتحائف بظاہر کتنے ہی معمولی کیوںنہ نظرآئیں لیکن اس کی وجہ سے اپنے پروسی کو حقیر نہ سمجھے۔
(مسند احمد 4/64،5/377)
حضرت جابر سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:پڑوسی تین طرح کے ہیں۔ایساپڑوسی جس کا صرف ایک حق ہے ایساپڑوسی جس کے دوحق ہین اورایساپڑوسی جس کا تین حق ہے اور تینوں طرح کے پڑوسیوںمیں بہتر اورافضل وہی ہے۔بہرحال وہ پڑوسی جس کاصرف ایک حق ہے تو وہ مشرک پڑوسی ہے جس کوئی رشتہ داری نہ ہو۔ صرف پڑوس کا حق ہو۔اور وہ پڑوسی جس کا دوحق ہے تووہ مسلم پڑوسی ہے جس سے کوئی قرابت داری نہ ہو۔اس کیلئے اسلام اورپڑوس کاحق ہے۔اوروہ پڑوسی جس کے تین حق ہیں تو وہ مسلم قرابت دارپڑوسی ہے اس کا ایک تو اسلام کا حق ہے دوسرے پڑوس کا حق ہے اورتیسرے قرابت داری کا حق ہے ۔اورپڑوسی کا ایک دوسرے پڑوسی پر کمتر حق یہ ہے کہ وہ اس کو اپنے ہانڈی کی خوشبو سے تکلیف نہ پہونچائے۔(مراد یہ ہے کہ کچھ اچھاپکایاگوشت وغیرہ یاکوئی اورچیز تواس کی خوشبو کو باہر نہ پھیلنے دے تاکہ پڑوسی جو اس کی استطاعت نہیں رکھتااسے تکلیف نہ ہو۔)ہاں یہ کہ اس میں سے کچھ تھوڑااس کو بھی پہنچادے۔
(مجمع الزوائد 8/164،حافظ ہیثمی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو بزار نے بھی اپنے شیخ عبداللہ بن محمد الحارثی سے نقل کیاہے اور وہ روایتیں گھڑنے والے ہیں۔
نوٹ:صاحب مجمع الزوائد نے اس حدیث کو ایک طریقہ سے نقل کرکے اس کے راوی کو وضاع قراردیاہے لیکن یہ حدیث اس کے علاوہ دوسرے طرق سے بھی منقول ہے جس پر ضعیف کا حکم لگایاجاسکتاہے۔علاوہ ازیں یہ حدیث جتنے طرق سے منقول ہے اس سے کم از کم یہ حدیث حسن لغیرہ کے درجہ میںپہنچ جاتی ہے۔
مختصر تفصیل حسب ذیل ہے۔
1الراوی: جد عمرو بن شعیب المحدث: ابن عدی - المصدر: الکامل فی الضعفائ، الصفحۃ و الرقم: 6/292
خلاصۃ حکم المحدث: [فیہ] عثمان بن عطا ہو ممن یکتب حدیثہ
2 - الراوی: جابر بن عبداللہ النصاری المحدث: ابو نعیم - المصدر: حلیۃ الاولیاء ۔ الصفحۃ و الرقم: 5/235
خلاصۃ حکم المحدث: غریب من حدیث عطا
3الراوی: عبداللہ بن عمرو بن العاص المحدث: البیہقی - المصدر: شعب الایمان -الصفحة و الرقم: 7/3136
خلاصۃ حکم المحدث: [فیہ] سوید بن عبد العزیز وعثمان بن عطاء وابوہ ضعفا ،ولکنہم غیر متہمین بالوضع
4الراوی: جد عمرو بن شعیب المحدث: ابن القیسرانی - المصدر: ذخیرۃ الحفاظ - الصفحۃ و الرقم: 4/2216
خلاصۃ حکم المحدث: [فیہ] عثمان بن عطا ضعیف
5الراوی: جابر بن عبداللہ و عبداللہ بن عمر المحدث: العراقی - المصدر: تخریج الاحیاء -الصفحۃ و الرقم: 2/265
خلاصۃ حکم المحدث: اسنادہ ضعیف
6الراوی: جابر بن عبد اللہ النصاری المحدث: العجلونی - المصدر: کشف الخفاء - الصفحة و الرقم: 1/393
خلاصۃ حکم المحدث: ضعیف
7الراوی: جابر بن عبداللہ المحدث: الالبانی - المصدر: ضعیف الجامع - الصفحة و الرقم: 2674
خلاصۃ حکم المحدث: ضعیف
8الراوی: جابر بن عبداللہ المحدث: الالبانی - المصدر: السلسلۃ الضعیفۃ - الصفحۃ و الرقم: 3493
خلاصۃ حکم المحدث: ضعیف
اگرپڑوسی کبیرہ گناہوںکا مرتکب ہوتوکیاکرے؟
اگرپڑوسی کبیرہ گناہوںکا مرتکب ہو تودوحال سے خالی نہ ہوگاایک یہ کہ وہ پوشیدہ طورپرگناہ کرتاہوگا۔اگر وہ پوشیدہ طورپر گناہ کرتاہے تواس سے اعراض کرے اورچشم پوشی کرے۔اگریہ ممکن ہوکہ اس کو تنہائی میں نصیحت کیاجائے تواس کو اچھے طورپر نصیحت کرے ۔اگر وہ کھلم کھلااورعلانیہ گناہ کرتاہو جیسے چنگی وصول کرنے والایارشوت لینے والاتو تواس کودورہوجائے۔ایسے ہی اگر پروسی اکثراوقات نماز چھوڑنے والاہوتواس کو امربالمعروف کرے یعنی نیک باتوں کاحکم کریے اوربرائیوں سے رکنے کی نصیحت کرتارہے اگرنہ مانے تواس سے خداکی خاطر اس کو چھوڑدے۔شاید وہ اس طورپر گناہوں سے باز آئے۔تعلقات منقعطع کرنے کے یہ معنی نہیں ہیں۔ کہ اس سے سلام وکلام ترک کرلیاجائے اورہدیہ وتحائف کی بندش کردی جائے۔
لیکن اگرتم دیکھوکہ وہ سرکش ضدی ہے اوربھلائی سے دور ہے تواس سے اعراض کرواورکوشش کرو کہ اس کے پڑوس سے ہٹ جائو۔اس لئے کہ قبل ازیں گزرچکاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیامیں برے پڑوسی سے پناہ مانگی ہے۔
اگر پڑوسی دیوث(بے غیرت )ہو
اگر پڑوسی دیوث یابے غیرت ہو یااس کے گھروالے راہ راست سے ہٹے ہوئے ہوں تواس سے دور ہوجائو اورکوشش کرو کہ تمہارے گھروالے ان کے گھر والوں سے کوئی تعلقات نہ رکھیں کیونکہ اس صورت میں بہت زیادہ بگاڑ کا اندیشہ ہے۔اوراپنے آپ پر قانع رہتے ہوئے اس سے میل جول بالکل نہ رکھو ۔اگرتم نے میری یہ نصیحت نہ مانی توہوسکتاہے کہ تم کسی طمع یالالچ کے زیراثرآکریااپنے نفس یااپنے بیٹے یاخادم یابہن کے دبائو میں آکر مجبور ہوجائوگے۔اگرتم ان کو اپنے پڑوس سے ہٹنے کیلئے مجبور کرسکو توہرممکن طورپر کرو۔
اگرپڑوسی یہودی یا نصرانی ہو
اگر تمہاراگھریلو پڑوسی یابازارکاپڑوسی یاباغات کا پڑوسی یہودی یانصرانی ہو تواس سے بہترطریقے سے پیش آئواوراس سے اس کی حیثیت اورقدر سے زیادہ دوستی نہ رکھو۔عید وتہوار وغیرہ کے موقع پر اس کاہدیہ قبول کرنے کے بارے میں مجھے معلوم نہیں میں کیاکہوں؟اگریہ پوری عمر میں ایک دومرتبہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن جوکوئی ان کی دعوت قبول کرتارہے اوران سے خلط ملط رکھے تویہ ارشاد ربانی کے خلاف ہے اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے۔ لاتجد قومایومنون باللہ والیوم الآخر یوادون من حاداللہ ورسولہ ولوکانواآبائھم اوابنائھم اواخوانھم اوعشیرتھم اولئک کتب فی قلوبھم الایمان وایدھم بروح منہ (المجادلہ 22)لیکن اگر پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ذی رحم قرابت دار ہو تو یہ دوسراحق ہے اسی طرح والدین میں سے کوئی ایک اگر ذمی ہو تو والدین کیلئے اوررشتہ داروں کے حقوق پڑوسیوں کے حقوق سے بڑھ چڑھ کر ہیں۔پس ہرحق دار کو اس کا حق دو۔اسی طرح سلام کے جواب دینے کا معاملہ ہے۔ ان میں سے کسی کو از خود سلام نہ کرو اوراگر وہ سلام کریں تو جواب میں صرف وعلیکم کہاکرو۔ لیکن اس معاملہ میں والدین کے ساتھ اگر اسے سے بڑھ کر کچھ کیاجائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔اوراس میں بھی خیال رکھے کہ اسراف اورمبالغہ نہ کرے ۔اللہ تبارک وتعالی کاارشاد ہے۔فسوف یاتی اللہ بقوم یحبھم ویحبونہ اذلۃ علی المومنین اعزۃ علی الکافرین( المائدہ54)
مومن مومن کے ساتھ متواضع ہوتاہے اوران کے سامنے جھکارہتاہے۔اورکافروں پر سخت ہوتاہے اوران پر کمزور نہیں پڑتااسلام کے احترام اورتعظیم کی وجہ سے اوردین کو عزت بخشنے کیلئے ۔لیکن اس میں خیال رکھاجائے کہ ان کو تکلیف نہ پہنچایاجائے اورنہ ان کے ساتھ مومنوں جیسی دوستی اورمحبت رکھی جائے واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
 

عندلیب

محفلین
پڑوسیوں کے حقوق کی طرف توجہ مبذول کروانے کا بہت شکریہ ابن جمال بھائی۔
ورنہ آج کے تیزرفتاردور میں ہم اتنے خود غرض ہوگئے ہیں کہ ہمیں یہ تک معلوم نہیں ہوتا ہمارے پڑوس میں کون رہتا ہے ۔
 

گرائیں

محفلین
کاش رمضان ، محرم اور ربیع الاول میں مساجد کے لاؤڈ سپیکر کا بے رحمی سے استعمال کرنے والے حضرات اس مراسلے کو پڑھ لیں۔
 
Top