حسرت موہانی پھر بھی ہے تم کو مسیحائی کا دعویٰ دیکھو (حسرت موہانی)

پھر بھی ہے تم کو مسیحائی کا دعویٰ دیکھو
مجھ کو دیکھو مرے مرنے کی تمنّا دیکھو

جرمِ نظارہ پہ کون اتنی خوشامد کرتا
اب وہ روٹھے ہیں لو اور تماشا دیکھو

دو ہی دن میں وہ بات ہے نہ وہ چاہ نہ پیار
ہم نے پہلے ہی یہ تم سے نا کہا تھا دیکھو؟

ہم نا کہتے تھے بناوٹ سے ہے سارا غصّہ
ہنس کے لو پھر انھوں نے ہمیں دیکھا دیکھو

مستیِ حسن سے اپنی بھی نہیں تم کو خبر
کیا سنو عرض میری،حال میرا کیا دیکھو

گھر سے ہر وقت نکل آتے ہو کھولے ہوئے بال
شام دیکھو نہ میری جان سویرا دیکھو۔۔

خانہِ جان میں نمودار ہے اک پیکرِ نور
حسرتو آؤ رخِ یار کا جلوہ دیکھو۔۔

سامنے سب کے مناسب نہیں ہم پر یہ عتاب
سر سے ڈھل جائے نہ غصّے میں‌ ڈوپٹہ دیکھو

مر مٹے ہم تو کبھی یاد بھی تم نے نہ کیا
اب محبّت کا نہ کرنا کبھی دعویٰ دیکھو

دوستو ترکِ محبّت کی نصیحت ہے فضول
اور نہ مانو تو دلِ زار کو سمجھا دیکھو۔

سر کہیں،بال کہیں،ہاتھ کہیں‌،پاؤں کہیں
اس کا سونا بھی ہے کس شان کا سونا دیکھو

اب وہ شوخی سے یہ کہتے ہیں ستمگر جو ہیں‌ہم
دل کسی اور سے کچھ روز بہلا دیکھو۔۔

ہوَسِ دل مٹی ہے نہ مٹے گی حسرت
دیکھنے کے لیئے چاہو انہیں جتنا دیکھو
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ خالو خلیفہ بہت اچھی غزل ہے اور مولانا بہت اچھے شاعر تھے لیکن اس غزل میں املا کی بہت غلطیاں ہیں - براہِ مہربانی انہیں درست کرلیں -
 
بہت شکریہ خالو خلیفہ بہت اچھی غزل ہے اور مولانا بہت اچھے شاعر تھے لیکن اس غزل میں املا کی بہت غلطیاں ہیں - براہِ مہربانی انہیں درست کرلیں -


پسند کرنے کا شکریہ سخنور صاحب۔۔ہاں مولانا تو بہت اچھے شاعر تھے ۔۔پر شائد میں نے املا کی غلطیاں کرکے انکی غزل کے ساتھ نا انصافی کی ہے ۔۔ان شااللہ غلطیاں درست کرنے کی کو شش کرونگا۔۔اگر پھر بھی کچھ رہ جائے تو آپ بتادیجیئے گا۔۔
 
Top