باباجی
محفلین
پھر سُن رہا ہوں گزرے زمانے کی چاپ کو
بُھولا ہوا تھا دیر سے میں اپنی آپ کو
رہتے ہیں کچھ ملُول سے چہرے پڑوس میں
اتنا نہ تیز کیجئے ڈھولک کی تھاپ کو
اشکوں کی ایک نہر تھی جو خشک ہوگئی
کیوں کر مٹاؤں دل سے تیرے غم کی چھاپ کو
پہلے تو میری یاد سے آئی حیا اُنہیں
پھر آئینے میں چُوم لیا اپنی آپ کو
تعریف کیا ہو قامتِ دلدار کی "شکیب"
تجسیم کردیا ہے کسی نے الاپ کو