ضیاء حیدری
محفلین
پھر وہی عطار کا لونڈا
میر کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبباسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
دوستوں کی محفل بھی عجب ہوتی ہے، معصومانہ گفتگو بھی بیہودہ رنگ لےلیتی ہے، میر صاحب تو سادگی میں عطار کے لونڈے کا ذکر کر گئے، مگر ہم جنسیت پرست انھیں اپنا گرو بنانے پر تلے بیٹھے ہیں، کوئی صاحب دور کی کوڑی اٹھا لائے کہ میر کے شیعہ بننے کے پیچھے جو لونڈا تھا، اسی لونڈے کا ذکر ہے۔ بہر حال ہم میر کی کیا وکالت کریں، انھوں نے اپنا کیس خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔۔۔۔
کیا اس آتش باز کے لونڈے کا اتنا شوق میر
بہہ چلی ہے دیکھ کر اس کو تمہاری رال کچھ
اس پر اشعار تو ان کے بہت سے ہیں، مگر کیا ذکر کیا جائے اس فعل بد کا قوم لوط اسی چکر میں تباہ ہوئی تھی، موجودہ دور میں بھی بہت سی قومیں تباہی کی طرف رواں دواں ہیں۔
لیکن یہاں ہمارا موضوع کچھ اور ہے، ہم یہاں عطار کے لونڈے سے اسٹیبلشمنٹ مراد نہیں لیتے ہیں، ہمارا اشارہ ان نام نہاد دانشوروں کی طرف ہے جو بقراط بنے بڑے بڑے منصوبے بناتے ہیں، ان کے لئے کثیر سرمائے کا بجٹ مختص کرتے ہیں، پھر جن کو ٹھیکہ دیتےہیں ان سے اپنا کمیشن وصول کرکے، یہ جا وہ جا، اور قوم ان کو پانامہ کے سمندر میں ڈھونڈتی رہتی ہے،
کچھ عرصہ کی گمنامی کے بعد یہ پھر آن موجود ہوتے ہیں اور قوم پھر سے ان کی باری لگاتی ہے اور یہ لوگ بھر اسی عطار کے لونڈے والا سلوک دوبارہ اس قوم سے کررہے ہوتے ہیں، باری پر باری لگ رہی ہوتی ہے اور میثاق جمہوریت کا پیراسائیٹ قوم کا خون پی پی کر طاقتور ہوجاتا ہے،
کیا ایسا نہیں ہوسکتا ہے قوم ان عطار کے لونڈوں سے چھٹکارا حاصل کرکے، ایسے لیڈر کو منتخب کرے جو نہ مغرب کا جوتا چاٹ ہو اور نہ چور و ڈکیت ہو، بلکہ نبی پاک ﷺ کا غلام ہو اور اس ملک پر اللہ کا نظام نافذ کرنے کا جذبہ رکھتا ہو۔