پہلوان جنید اور آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام

کسی زمانے میں بغداد میں جنید نامی ایک پہلوان رہا کرتا تھا۔ پورے بغداد میں اس پہلوان کے مقابلے کا کوئی نہ تھا۔ بڑے سے بڑا پہلوان بھی اس کے سامنے زیر تھا۔ کیا مجال کہ کوئی اس کے سامنے نظر ملا سکے۔ یہی وجہ تھی کہ شاہی دربار میں اس کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور بادشاہ کی نظر میں اس کا خاص مقام تھا۔
ایک دن جنید پہلوان بادشاہ کے دربار میں اراکین سلطنت کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا کہ شاہی محل کے صدر دروازے پر کسی نے دستک دی۔ خادم نے آکر بادشاہ کو بتایا کہ ایک کمزور و ناتواں شخص دروازے پر کھڑا ہے جس کا بوسیدہ لباس ہے۔ کمزوری کا یہ عالم ہے کہ زمین پر کھڑا ہونا مشکل ہو رہا ہے۔ اس نے یہ پیغام بھیجا ہے کہ جنید کو میرا پیغام پہنچا دو کہ وہ کشتی میں میرا چیلنج قبول کرے۔ بادشاہ نے حکم جاری کیا کہ اسے دربار میں پیش کرو۔ اجنبی ڈگمگاتے پیروں سے دربار میں حاضر ہوا۔ وزیر نے اجنبی سے پوچھا تم کیا چاہتے ہو۔ اجنبی نے جواب دیا میں جنید پہلوان سے کشتی لڑنا چاہتا ہوں۔ وزیر نے کہا چھوٹا منہ بڑی بات نہ کرو۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جنید کا نام سن کر بڑے بڑے پہلوانوں کو پسینہ آ جاتا ہے۔ پورے شہر میں اس کے مقابلے کا کوئی نہیں اور تم جیسے کمزور شخص کا جنید سے کشتی لڑنا تمہاری ہلاکت کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔ اجنبی نے کہا کہ جنید پہلوان کی شہرت ہی مجھے کھینچ کر لائی ہے اور میں آپ پر یہ ثابت کرکے دکھاؤں گا کہ جنید کو شکست دینا ممکن ہے۔ میں اپنا انجام جانتا ہوں آپ اس بحث میں نہ پڑیں بلکہ میرے چیلنج کو قبول کیا جائے۔ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ شکست کس کا مقدر ہوتی ہے۔
جنید پہلوان بڑی حیرت سے آنے والے اجنبی کی باتیں سن رہا تھا۔ بادشاہ نے کہا اگر سمجھانے کے باوجود یہ بضد ہے تو اپنے انجام کا یہ خود ذمہ دار ہے۔ لٰہذا اس کا چیلنج قبول کر لیا جائے۔ بادشاہ کا حکم ہوا اور کچھ ہی دیر کے بعد تاریخ اور جگہ کا اعلان کر دیا گیا اور پورے بغداد میں اس چیلنج کا تہلکہ مچ گیا۔ ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ اس مقابلے کو دیکھے۔ تاریخ جوں جوں قریب آتی گئی لوگوں کا اشتیاق بڑھتا گیا۔ ان کا اشتیاق اس وجہ سے تھا کہ آج تک انہوں نے تنکے اور پہاڑ کا مقابلہ نہیں دیکھا تھا۔ دور دراز ملکوں سے بھی سیاح یہ مقابلے دیکھنے کے لئے آنے لگے۔ جنید کے لئے یہ مقابلہ بہت پراسرار تھا اور اس پر ایک انجانی سی ہیبت طاری ہونے لگی۔ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر شہر بغداد میں امنڈ آیا تھا۔
جنید پہلوان کی ملک گیر شہرت کسی تعارف کی محتاج نہ تھی۔ اپنے وقت کا مانا ہوا پہلوان آج ایک کمزور اور ناتواں انسان سے مقابلے کے لئے میدان میں اتر رہا تھا۔ اکھاڑے کے اطراف لاکھوں انسانوں کا ہجوم اس مقابلے کو دیکھنے آیا ہوا تھا۔ بادشاہ وقت اپنے سلطنت کے اراکین کے ہمراہ اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے۔ جنید پہلوان بھی بادشاہ کے ہمراہ آ گیا تھا۔ سب لوگوں کی نگاہیں اس پراسرار شخص پر لگی ہوئی تھیں۔ جس نے جنید جیسے نامور پہلوان کو چیلنج دے کر پوری سلطنت میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ مجمع کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اجنبی مقابلے کے لئے آئے گا پھر بھی لوگ شدت سے اس کا انتظار کرنے لگے۔ جنید پہلوان میدان میں اتر چکا تھا۔ اس کے حامی لمحہ بہ لمحہ نعرے لگا کر حوصلہ بلند کر رہے تھے۔ کہ اچانک وہ اجنبی لوگوں کی صفوں کو چیرتا ہوا اکھاڑے میں پہنچ گیا۔ ہر شخص اس کمزور اور ناتواں شخص کو دیکھ کر محو حیرت میں پڑ گیا کہ جو شخص جنید کی ایک پھونک سے اڑ جائے اس سے مقابلہ کرنا دانشمندی نہیں۔ لیکن اس کے باوجود سارا مجمع دھڑکتے دل کے ساتھ اس کشتی کو دیکھنے لگا۔ کشتی کا آغاز ہوا دونوں آمنے سامنے ہوئے۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گئے۔ پنجہ آزمائی شروع ہوئی اس سے پہلے کہ جنید کوئی داؤ لگا کر اجنبی کو زیر کرتے اجنبی نے آہستہ سے جنید سے کہا اے جنید ! ذرا اپنے کام میرے قریب لاؤ۔ میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ اجنبی کی باتیں سن کر جنید قریب ہوا اور کہا کیا کہنا چاہتے ہو۔
اجنبی بولا اے جنید ! میں کوئی پہلوان نہیں ہوں۔ زمانے کا ستایا ہوا ہوں۔ میں آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ سید گھرانے سے میرا تعلق ہے میرا ایک چھوٹا سا کنبہ کئی ہفتوں سے فاقوں میں مبتلا جنگل میں پڑا ہوا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے شدت بھوک سے بے جان ہو چکے ہیں۔ خاندانی غیرت کسی سے دست سوال نہیں کرنے دیتی۔ سید زادیوں کے جسم پر کپڑے پھٹے ہوئے ہیں۔ بڑی مشکل سے یہاں تک پہنچا ہوں۔ میں نے اس امید پر تمہیں کشتی کا چیلنج دیا ہے کہ تمہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے سے عقیدت ہے۔ آج خاندان نبوت کی لاج رکھ لیجئے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آج اگر تم نے میری لاج رکھی تو کل میدان محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھواؤں گا۔ تمہاری ملک گیر شہرت اور اعزاز کی ایک قربانی خاندان نبوت کے سوکھے ہوئے چہروں کی شادابی کے لئے کافی ہوگی۔ تمہاری یہ قربانی کبھی بھی ضائع نہیں ہونے دی جائے گی۔
اجنبی شخص کے یہ چند جملے جنید پہلوان کے جگر میں اتر گئے۔ اس کا دل گھائل اور آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ سیدزادے کی اس پیش کش کو فوراً قبول کرلیا اور اپنی عالمگیر شہرت، عزت و عظمت آل سول صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کی۔ فوراً فیصلہ کر لیا کہ اس سے بڑھ کر میری عزت و ناموس کا اور کونسا موقع ہو سکتا ہے کہ دنیا کی اس محدود عزت کو خاندان نبوت کی اڑتی ہوئی خاک پر قربان کردوں۔ اگر سید گھرانے کی مرجھائی ہوئی کلیوں کی شادابی کے لئے میرے جسم کا خون کام آ سکتا ہے تو جسم کا ایک ایک قطرہ تمہاری خوشحالی کے لئے دینے کے لئے تیار ہوں۔ جنید فیصلہ دے چکا۔ اس کے جسم کی توانائی اب سلب ہو چکی تھی۔ اجنبی شخص سے پنجہ آزمائی کا ظاہری مظاہرہ شروع کر دیا۔
کشتی لڑنے کا انداز جاری تھا۔ پینترے بدلے جا رہے تھے۔ کہ اچانک جنید نے ایک داؤ لگایا۔ پورا مجمع جنید کے حق میں نعرے لگاتا رہا جوش و خروش بڑھتا گیا جنید داؤ کے جوہر دکھاتا تو مجمع نعروں سے گونج اٹھا۔ دونوں باہم گتھم گتھا ہو گئے یکایک لوگوں کی پلکیں جھپکیں، دھڑکتے دل کے ساتھ آنکھیں کھلیں تو ایک ناقابل یقین منظر آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ جنید چاروں شانے چت پڑا تھا اور خاندان نبوت کا شہزادہ سینے پر بیٹھے فتح کا پرچم بلند کر رہا تھا۔ پورے مجمع پر سکتہ طاری ہو چکا تھا۔ حیرت کا طلسم ٹوٹا اور پورے مجمعے نے سیدزادے کو گود میں اٹھا لیا۔ میدان کا فاتح لوگوں کے سروں پر سے گزر رہا تھا۔ ہر طرف انعام و اکرام کی بارش ہونے لگی۔ خاندان نبوت کا یہ شہزادہ بیش بہا قیمتی انعامات لے کر اپنی پناہ گاہ کی طرف چل دیا۔
اس شکست سے جنید کا وقار لوگوں کے دلوں سے ختم ہو چکا تھا۔ ہر شخص انہیں حقارت سے دیکھتا گزر رہا تھا۔ زندگی بھر لوگوں کے دلوں پر سکہ جمانے والا آج انہی لوگوں کے طعنوں کو سن رہا تھا۔ رات ہو چکی تھی۔ لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر جنید اپنے بستر پر لیٹا اس کے کانوں میں سیدزادے کے وہ الفاظ بار بار گونجتے رہے۔ “آج میں وعدہ کرتا ہوں اگر تم نے میری لاج رکھی تو کل میدان محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھواؤں گا
جنید سوچتا کیا واقعی ایسا ہوگا کیا مجھے یہ شرف حاصل ہوگا کہ حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے یہ تاج میں پہنوں ؟ نہیں نہیں میں اس قابل نہیں، لیکن خاندان نبوت کے شہزادے نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ آل رسول کا وعدہ غلط نہیں ہو سکتا یہ سوچتے سوچتے جنید نیند کی آغوش میں پہنچ چکا تھا نیند میں پہنچتے ہی دنیا کے حجابات نگاہوں کے سامنے سے اٹھ چکے تھے ایک حسین خواب نگاہوں کے سامنے تھا اور گنبد خضراء کا سبز گنبد نگاہوں کے سامنے جلوہ گر ہوا، جس سے ہر سمت روشنی بکھرنے لگی، ایک نورانی ہستی جلوہ فرما ہوئی، جن کے حسن و جمال سے جنید کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں، دل کیف سرور میں ڈوب گیا در و دیوار سے آوازیں آنے لگیں الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ۔ جنید سمجھ گئے یہ تو میرے آقا ہیں جن کا میں کلمہ پڑھتا ہوں۔ فوراً قدموں سے لپٹ گئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے جنید اٹھو قیامت سے پہلے اپنی قسمت کی سرفرازی کا نظارہ کرو۔ نبی ذادوں کے ناموس کے لئے شکست کی ذلتوں کا انعام قیامت تک قرض رکھا نہیں جائے گا۔ سر اٹھاؤ تمہارے لئے فتح و کرامت کی دستار لے کر آیا ہوں۔ آج سے تمہیں عرفان و تقرب کے سب سے اونچے مقام پر فائز کیا جاتا ہے۔ تمہیں اولیاء کرام کی سروری کا اعزاز مبارک ہو۔
ان کلمات کے بعد حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جنید پہلوان کو سینے سے لگایا اور اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت خواب میں جنید کو کیا کچھ عطا کیا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اتنا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ جب جنید نیند سے بیدار ہوئے تو ساری کائنات چمکتے ہوئے آئینے کی طرح ان کی نگاہوں میں آ گئی تھی ہر ایک کے دل جنید کے قدموں پر نثار ہو چکے تھے۔ بادشاہ وقت نے اپنا قیمتی تاج سر سے اتار کر ان کے قدموں میں رکھ دیا تھا۔ بغداد کا یہ پہلوان آج سید الطائفہ سیدنا حضرت جنید بغدادی کے نام سے سارے عالم میں مشہور ہو چکا تھا۔ ساری کائنات کے دل ان کے لئے جھک گئے تھے۔
(تاریخی واقعہ کی تفصیل ملاحظہ کیجئے کتاب زلف و انجیر صفحہ 72۔)

فیس بک سے اقتباس
 

مہ جبین

محفلین
یہ واقعہ میں جب بھی پڑھتی ہوں تو دل پر ایک رقت طاری ہوجاتی ہے اور حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی قسمت پر بیحد رشک آتا ہے
سبحان اللہ کیا شان ہے آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتوں کی۔۔۔۔ بے شک ان کو جو اونچا مقام ملا کائنات کی ہر دولت اسکے سامنے مکھی کے پر کے برابر حقیقت بھی نہیں رکھتی

یہ رتبہء بلند ملا جس کو مل گیا
سبحان اللہ ۔۔۔ اللہ اکبر

جزاک اللہ سید شہزاد ناصر بھیا
دل کے آئینے پر پڑی گرد صاف ہوگئی اس واقعے سے ۔۔۔۔الحمدللہ
 

عسکری

معطل
ھھھھھھھھھھھھ لو جی انہیں باتوں کی وجہ سے ہماری مت ماری گئی ہے کہ آج ہزاروں لاکھوں لوگ سید ہو کر یا بن کر قوم کو استمال اور استحصال کر رہے ہیں جیسے کہ ہمارے اپنے حلقے کے سید ایم پی اے ایم این اے ۔ سب انسان برابر ہیں بالکل برابر میر نظر میں ایک سید ہو یا ایک مالشی یا ایک دور دراز بستی کا موچی ۔
 

نایاب

لائبریرین
نیت و یقین کے فلسفے کو پوری معنویت سے کھولتی اک ترغیب آمیز حکایت ۔۔۔۔۔۔۔
بہت شکریہ شراکت پر محترم سید بادشاہ
 
یہ واقعہ میں جب بھی پڑھتی ہوں تو دل پر ایک رقت طاری ہوجاتی ہے اور حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی قسمت پر بیحد رشک آتا ہے
سبحان اللہ کیا شان ہے آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتوں کی۔۔۔ ۔ بے شک ان کو جو اونچا مقام ملا کائنات کی ہر دولت اسکے سامنے مکھی کے پر کے برابر حقیقت بھی نہیں رکھتی

یہ رتبہء بلند ملا جس کو مل گیا
سبحان اللہ ۔۔۔ اللہ اکبر

جزاک اللہ سید شہزاد ناصر بھیا
دل کے آئینے پر پڑی گرد صاف ہوگئی اس واقعے سے ۔۔۔ ۔الحمدللہ
جزاک اللہ بہنا
 
ھھھ ھھھ ھھھ ھھھ لو جی انہیں باتوں کی وجہ سے ہماری مت ماری گئی ہے کہ آج ہزاروں لاکھوں لوگ سید ہو کر یا بن کر قوم کو استمال اور استحصال کر رہے ہیں جیسے کہ ہمارے اپنے حلقے کے سید ایم پی اے ایم این اے ۔ سب انسان برابر ہیں بالکل برابر میر نظر میں ایک سید ہو یا ایک مالشی یا ایک دور دراز بستی کا موچی ۔
بے شک سب انسان برابر ہیں مگر کوئی سید اگر ایسا کرتا ہے تو وہ غلط کرتا ہے میرے نزدیک جو بے فیض ہے وہ سید ہی نہیں ہے
 

عسکری

معطل
بے شک سب انسان برابر ہیں مگر کوئی سید اگر ایسا کرتا ہے تو وہ غلط کرتا ہے میرے نزدیک جو بے فیض ہے وہ سید ہی نہیں ہے
وہ تو کہتے ہیں اس شہر مین 1 لاکھ70 ہزار اولیا بستے تھے ہم ان کی نسل ہیں ہاں یہ الگ بات ہے کہ چوری دنگا زمینوں پر قبضہ ڈرگز اسلحہ بیچنا بھی ان کا کام ہے اج کل ۔ میں جانتا ہوں کون کیا ہے اس لیے مین ان باتوں پر زرہ بھی یقین نہین رکھتا سب ایک لائن مین کھڑے ہو جاؤ :grin:
 
وہ تو کہتے ہیں اس شہر مین 1 لاکھ70 ہزار اولیا بستے تھے ہم ان کی نسل ہیں ہاں یہ الگ بات ہے کہ چوری دنگا زمینوں پر قبضہ ڈرگز اسلحہ بیچنا بھی ان کا کام ہے اج کل ۔ میں جانتا ہوں کون کیا ہے اس لیے مین ان باتوں پر زرہ بھی یقین نہین رکھتا سب ایک لائن مین کھڑے ہو جاؤ :grin:
آپ کی اپنی سوچ ہے
 

سید زبیر

محفلین
سید شہزاد ناصر ساحب بہت ہی معلوماتی تحریر شریک محفل کی ہے شکر گزار ہوں ۔
باقی رہا عزیزم عسکری کی بات ، تو وقت اور تجربہ انہیں ' ید بیضا ' کی بھی آگہی دے گا فی الحال انہیں عشق و جنوں ہی کی ضرورت ہے ۔
 

سید زبیر

محفلین
بھائی عسکری !

مجھے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول یاد آگیا کہ
" تم سے پہلے کی قومیں اسی لئے برباد ہوگئیں کہ جب کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے اور جب معمولی آدمی جرم کرتا تو وہ سزا پاتا۔ خدا کی قسم اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ ؓ بھی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ بھی کاٹے جاتے"
یہ الفاظ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ادا کئے تھے جب حضرت اسامہ نے آپ ﷺ سے قبیلہ مخزوم کی ایک عورت فاطمہ کی سفارش کی تھی جس نے چوری کی تھی۔
 

عسکری

معطل
سید شہزاد ناصر ساحب بہت ہی معلوماتی تحریر شریک محفل کی ہے شکر گزار ہوں ۔
باقی رہا عزیزم عسکری کی بات ، تو وقت اور تجربہ انہیں ' ید بیضا ' کی بھی آگہی دے گا فی الحال انہیں عشق و جنوں ہی کی ضرورت ہے ۔
مین اب مزید سوچنا نہیں چاہتا سر جی مجھے بدھ تک بہت کام ہے اس لیے میں ہر آتی ہوئی سوچ کو بھگا رہا ہوں :grin: فلاسفی یا تصوف پر ہمارے دما غ کا ڈھکن کھل جاتا ہے تو ایک ہفتے تک بند نہیں ہوتا پھر :laugh:
 
ھھھ ھھھ ھھھ ھھھ لو جی انہیں باتوں کی وجہ سے ہماری مت ماری گئی ہے کہ آج ہزاروں لاکھوں لوگ سید ہو کر یا بن کر قوم کو استمال اور استحصال کر رہے ہیں جیسے کہ ہمارے اپنے حلقے کے سید ایم پی اے ایم این اے ۔ سب انسان برابر ہیں بالکل برابر میر نظر میں ایک سید ہو یا ایک مالشی یا ایک دور دراز بستی کا موچی ۔
خطبہ حجۃ الوداع میں خود حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا تھا۔
 
سید کو باہرحال دوسروں پر فضیلت ہے کیونکہ اس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا خون ہے۔ سید صحیح العقیدہ مسلمان ہو تو بہرحال قابلِ احترام ہے۔ ہاں اگر کوئی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کا احترام نہ کرے جبکہ یہ اولاد مسلمان بھی ہو تو یہ احترام نہ کرنے والے کا اپنا فعل ہے اللہ خود حساب لے لے گا۔۔۔ رہی بات گُناہ کی تو اگر کوئی سید گناہ کرتا ہے تو اس کا حساب لینے والا اللہ ہے انسان نہیں انسانوں کو اس کا لحاظ کرنا چاہئے۔اس معاملے پر بحث فضول ہے علماء ایک عرصہ سے اس بحث کو لئے آرہے ہیں اور اس کا حل بار بار نکال چُکے ہیں کوئی نہ مانے تو الگ بات۔
 
نبی مکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایسی روایات منسوب کرنا جس کا کوئی ثبوت موجود نا ہو، کیا ایک مناسب بات ہے؟ آئیے اس کا جواب قرآن حکیم سے دیکھتے ہیں۔

سورۃ الاحقاف - آیت 9
46:9
قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ
کہہ دو میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور نہ تمہارے ساتھ میں نہیں پیروی کرتا مگر اس کی جو میری طرف وحی کیا جاتا ہے سوائے اس کے نہیں کہ میں کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں

ہمارے نبی اکرم نے لوگوں کو بتا دیا کہ خود ان کو نہیں پتہ کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا، کہاں کہ وہ دوسروں کے ساتھ دوسری زندگی میں انعام و اکرام کا وعدہ کریں اور کہاں کہ ایک صاحب ان کا حوالہ دے کر دوسری دنیا میں انعام و اکرام کا وعدہ کریں۔۔۔ کچھ تو سمجھاؤ ۔۔۔ یارو۔

یہ سید زادے کس کی اولاد ہیں؟؟؟ جب کہ نبی اکرم کی تو کوئی اولاد نرینہ ہی نہیں تھی؟؟؟
33:40
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور نبیوں کے آخر ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے

والسلام
 

عمرمختارعاجز

لائبریرین
سید شہزاد ناصر صاحب کو ایک ایمان افروز حکایت شامل کرنے پر بہت مبارک باد۔ میں نے سب دوستوں کے بحث پڑھی لیکن حرف آخر کے طور پر عرض کرتا ہوں ۔سادات کا گھرانہ واقعی قابل تعظیم ہے ان کا مرتبہ دوسرے لوگوں سے بڑھ کے ہے ۔جو اپنی کم علمی کی وجہ سے نہیں سمجھ پاتا تو اس کی قسمت ۔بحرحال اھلبیت اطھار علیھم الصلوت والسلام کا مقام بہت اعلی و ارفع ہے۔
 
Top