بیری کے شجر کے حوالے سے ایک زاویہ یہ بھی ہے محترم
فہد اشرف
سدا بہار
بیری پر جب بیر آتے ہیں
بچے بالے پتھر لے کر
زور زور سے پتھر مار مار کے
بیری کو زخمی کرتے ہیں
بیری پتھر کھا کھا کر بھی
زور زور سے ہنستی ہے
اور اپنے میٹھے میٹھے پھل سے
سب بچوں کی خالی جھولیاں بھر دیتی ہے
بچے اپنی جھولیاں بھر کر
رات کی گود میں سو جاتے ہیں
آنے والے کل کی کھوج میں کھو جاتے ہیں
بیری اپنے دُکھتے بازو سہلاتی ہے
ویراں جسم پہ آنے والے موسم کے پیوند لگا کر
دامن میں پھر تازہ خوشے بھر لاتی ہے
ہر موسم میں زخم پہ زخم سجا کر بھی وہ
آنے والی نسلوں سے کہتی ہے
"آؤ مجھے کو پتھر مارو
میرے سب پھل پھول اُتار دو
کل جو کیا تھا آج بھی کر لو
اپنی خالی جیبیں، پھیلے دامن بھر لو"
جمیل ملک ۔۔۔ رسالہ نقوش، لاہور 1985