قافیے کے بارے میں سعود کا خیال درست ہے۔
اس کے علاوہ تذکیر و تانیث کے مسائل بھی دکھے ویسے ایک آخری بات جو کہ مجھے نہیں کہنی چاہئے۔ اگر قافیہ باقی کے بجائے کوئی ہوتا تو میرے خیال میں شروع کے کئی مصرعوں کی معنویت زیادہ بہتر ہوتی۔
مجھے حیرت ہے کہ آپ ردیف کو قافیہ کہہ رہے ہیں ۔ اور وارث صاحب نے شکریہ کے ساتھ تصدیق کی مہر ثبت کی ہے۔ جہاں میرے محدود علم کی حد ہے اس میں وہ لفظ جو مصرعے کے آخر میں تکرار کی طرح آتا ہے ۔ ردیف کہلاتی ہے۔ غیرمردف کلام میں قوافی آخر میں ہوتے ہیں ۔ یہاں صاحبِ کلام نے ’’’ سلسلہ ، گلہ ، ملا ،فاصلہ ، قافلہ ‘‘‘ بطور قوافی استعمال کیے ہیں ، خیر راجہ صاحب نے مطلع میں قافیہ کے آزاد ہونے کا اعلان نہیں کیا سلسلہ گلہ باندھا جب کے دو ایک مصرعو ں میں قافیہ الف کا استعمال کیا ہے ، جہاں تک مجھے میری
جہالت اجازت دیتی ہے اس حساب سے مطلع میں ایطا شائیگاں ہے کہ ‘‘ مطلع یا ایک سے زیادہ ہم قافیہ کا ابیات کے کسی قافلے یا قافیے کے کسی جزو (لاحقے وغیرہ) کا اعادہ (یہ قافیے کا عیب ہے) ’’ / قافیے میں حرف روی کا اعادہ، شائگاں، جیسے : گریاں اور خنداں (اعادہ لاحقہ حالیہ) مستانہ اور صفانہ (اعادہ لاحقہ نسبت)، بڑھتا، جلتا (اعادہ لاحقہ حالیہ ناتمام)۔۔
غزل کی طرف آتے ہیں دیگر اشعار تو خیر جیسے ہیں اس بات کرنا اور وقت کی سہی، لیکن کچھ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ غزل ٹھیک طرح سے مجھ پر کھلے ۔۔ ’’ دوست وہ کا ملہ نہیں باقی ‘‘ ۔۔ ’’ کاملہ ‘‘ ؟؟ ---- ’’ وہ ادا قاتلہ نہیں باقی ‘‘ -- آپ ادائے قاتلہ کہنا چاہتے ہیں کیا ؟؟----- ‘‘ تلاشنا ‘‘ ----- کس کا حاصل مصدر ہے ۔ کیا یہ تلاشیدن سے ہے ؟؟ جیسے تراش سے تراشیدن ؟؟ ۔۔۔۔ فی الحال تو سوالات ہیں غزل کے دیگر اشعار کے محاسن پر گفتگو اگلے مراسلے میں انشا اللہ تعالی۔
والسلام مع الکرام
‘‘