پہلے سا سلسلہ نہیں باقی

ایم اے راجا

محفلین
پہلے سا سلسلہ نہیں باقی
اب کسی سے گلہ نہیں باقی

بھرنے دے زخم تو مرے دل کا
جڑنے میں فاصلہ نہیں باقی

رات بھر ڈھونڈتا رہا اسکو
اک نشاں تک ملا نہیں باقی

ساتھ کس کے چلوں بھلا لوگو
راہ میں قافلہ نہیں باقی

شہر سارا تلاشتا ہے جسکو
وہ ادا قاتلہ نہیں باقی

میں نے چاہا جسے زمانے میں
دوست وہ کا ملہ نہیں باقی

راز کس کو بتاؤں میں راجا
رازداں جو ملا، نہیں باقی
 

دوست

محفلین
پہلے سا سل-سلہ نہیں باقی
2 1 2 2 - 1 2 1 2 1 2
اب کسی سے۔ گلہ نہیں باقی
2 1 2 2۔ 1 2 1 2 1 2

بھرنے دے زخ-م تو مرے دل کا
2 1 2 2 ۔ 1 2 1 2
جڑنے میں فاصلہ نہیں باقی
 

دوست

محفلین
پہلے شعر سے پیٹرن نکالنے کی کوشش کی لیکن دوسرے شعر کے پہلے مصرعے پر ہی اڑ گیا۔ آگے اساتذہ ہی بتائیں گے۔ کہ کونسی بحر ہے۔ ہے بھی یا نہیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
محترم دوست، بحرِ خفیف ہے اور اسکے رکن مندرجہ ذیل ہیں۔

فاعلاتن مفاعلن فعلن
2 1 2 2 1 2 1 2 2 2

مزید اس بحر کے بارے میں آپ اصلاح کے دھاگے میں بحرِ خفیف کے دھاگے کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
اصلاح بعد میں۔۔
شاکر تم غلط تقطیع کر رہے ہو۔
اس کو انگریزی موڈ میں ہی لکھتا ہوں۔
2122121222
جہاں مشکل ہو رہی ہے۔
بھرنے دے زخ-م تو مرے دل کا
2122----1212 22
 
بھئی ویسے تو غزل خوب ہے پر چند ایک باتیں جو مجھے کھٹکیں

شہر سارا تلاشتا ہے جسکو
شاید
شہر سارا تلاشتا ہے جسے
لکھنا چاہا ہے۔

اس کے علاوہ تذکیر و تانیث کے مسائل بھی دکھے ویسے ایک آخری بات جو کہ مجھے نہیں کہنی چاہئے۔ اگر قافیہ باقی کے بجائے کوئی ہوتا تو میرے خیال میں شروع کے کئی مصرعوں کی معنویت زیادہ بہتر ہوتی۔
 

مغزل

محفلین
قافیے کے بارے میں سعود کا خیال درست ہے۔
اس کے علاوہ تذکیر و تانیث کے مسائل بھی دکھے ویسے ایک آخری بات جو کہ مجھے نہیں کہنی چاہئے۔ اگر قافیہ باقی کے بجائے کوئی ہوتا تو میرے خیال میں شروع کے کئی مصرعوں کی معنویت زیادہ بہتر ہوتی۔

مجھے حیرت ہے کہ آپ ردیف کو قافیہ کہہ رہے ہیں ۔ اور وارث صاحب نے شکریہ کے ساتھ تصدیق کی مہر ثبت کی ہے۔ جہاں میرے محدود علم کی حد ہے اس میں وہ لفظ جو مصرعے کے آخر میں تکرار کی طرح آتا ہے ۔ ردیف کہلاتی ہے۔ غیرمردف کلام میں قوافی آخر میں ہوتے ہیں ۔ یہاں صاحبِ کلام نے ’’’ سلسلہ ، گلہ ، ملا ،فاصلہ ، قافلہ ‘‘‘ بطور قوافی استعمال کیے ہیں ، خیر راجہ صاحب نے مطلع میں قافیہ کے آزاد ہونے کا اعلان نہیں کیا سلسلہ گلہ باندھا جب کے دو ایک مصرعو ں میں قافیہ الف کا استعمال کیا ہے ، جہاں تک مجھے میری جہالت اجازت دیتی ہے اس حساب سے مطلع میں ایطا شائیگاں ہے کہ ‘‘ مطلع یا ایک سے زیادہ ہم قافیہ کا ابیات کے کسی قافلے یا قافیے کے کسی جزو (لاحقے وغیرہ) کا اعادہ (یہ قافیے کا عیب ہے) ’’ / قافیے میں حرف روی کا اعادہ، شائگاں، جیسے : گریاں اور خنداں (اعادہ لاحقہ حالیہ) مستانہ اور صفانہ (اعادہ لاحقہ نسبت)، بڑھتا، جلتا (اعادہ لاحقہ حالیہ ناتمام)۔۔
غزل کی طرف آتے ہیں دیگر اشعار تو خیر جیسے ہیں اس بات کرنا اور وقت کی سہی، لیکن کچھ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ غزل ٹھیک طرح سے مجھ پر کھلے ۔۔ ’’ دوست وہ کا ملہ نہیں باقی ‘‘ ۔۔ ’’ کاملہ ‘‘ ؟؟ ---- ’’ وہ ادا قاتلہ نہیں باقی ‘‘ -- آپ ادائے قاتلہ کہنا چاہتے ہیں کیا ؟؟----- ‘‘ تلاشنا ‘‘ ----- کس کا حاصل مصدر ہے ۔ کیا یہ تلاشیدن سے ہے ؟؟ جیسے تراش سے تراشیدن ؟؟ ۔۔۔۔ فی الحال تو سوالات ہیں غزل کے دیگر اشعار کے محاسن پر گفتگو اگلے مراسلے میں انشا اللہ تعالی۔
والسلام مع الکرام
‘‘
 
ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا

یہ بھی خوب رہی آج میرے اجہل الجاہلین ہونے کا راز فاش ہو ہی گیا۔ :grin:

اب اگر میں عذر لنگ پیش بھی کروں کہ بے توجہی کے باعث ایسا ہوا تو سب سے پہلا سوال یہی ہونا چاہئیے کہ ایسی فاش غلطی تو نیند کے عالم میں پوچھے جانے پر بھی نہیں ہونی چاہئے۔
 
نہیں بھئی مغل بھیا میں نے یہ کب کہا کہ آپ کوئی غیر مناسب بات کہی۔

بھئی یہ تو سیکھنے کا عمل ہے۔ اب اتنا مذاق بھی نہیں ہوگا تو مصیبت ہو جائے گی۔ اور بھلا آپ کو کچھ کہنے سے کون روکتا ہے۔ بصد شوق۔
 

مغزل

محفلین
نہیں بھئی مغل بھیا میں نے یہ کب کہا کہ آپ کوئی غیر مناسب بات کہی۔

آپ نے کہا تو نہیں ، بس ذرا محتاط ہوچلا ہوں ، آج کل میرے ستارے گردش میں ہیں ناں ، اور یوں بھی زیرِ عتاب ہوں،
سو پوچھنا بہتر لگا ، آپ خیال مت کیجے گا۔ والسلام
 

محمد وارث

لائبریرین
مغل صاحب نے خوب بات پکڑی سعود صاحب، حالانکہ میں صرف نظر کر گیا تھا کہ ٹائپنگ کا مسئلہ ہے، مجھے لگتا ہے اب شکریے کےاستعمال کی بھی 'راشننگ" کرنی پڑی گی کہ بطور سند 'کوٹ' ہونا شروع ہو گیا ہے ;)
 
ہا ہا ہا ہا ہا ہا

اصل میں معاملہ ٹائپنگ کا نہیں تھا وارث بھائی بس بے توجہی کہہ لیجئے۔ در اصل عام بات چیت میں جتنی بار قافیہ لفظ استعمال ہوتا ہے اس کے تناسب میں ردیف لفظ بہت کم بولا جاتا ہے تو انگلیوں پر چڑھ سا گیا ہے۔ یا تو ردیف قافیہ دونوں ایک ساتھ کہیں گے یا خالی قافیہ۔ :grin:
 

محمد وارث

لائبریرین
خیر راجہ صاحب نے مطلع میں قافیہ کے آزاد ہونے کا اعلان نہیں کیا سلسلہ گلہ باندھا جب کے دو ایک مصرعو ں میں قافیہ الف کا استعمال کیا ہے ، جہاں تک مجھے میری جہالت اجازت دیتی ہے اس حساب سے مطلع میں ایطا شائیگاں ہے کہ ‘‘ مطلع یا ایک سے زیادہ ہم قافیہ کا ابیات کے کسی قافلے یا قافیے کے کسی جزو (لاحقے وغیرہ) کا اعادہ (یہ قافیے کا عیب ہے) ’’ / قافیے میں حرف روی کا اعادہ، شائگاں، جیسے : گریاں اور خنداں (اعادہ لاحقہ حالیہ) مستانہ اور صفانہ (اعادہ لاحقہ نسبت)، بڑھتا، جلتا (اعادہ لاحقہ حالیہ ناتمام)۔۔

ریکارڈ کی درستگی کیلیے:

اس غزل کے قوافی صحیح ہیں اور مطلع میں شائگاں یا ایطا نہیں ہے:

سلسِلہ اور گِلہ مطلعے کے قوافی ہیں، ان میں حرفِ روی لام ہے اور روی کے ما قبل کی حرکت (زیر) لانا لازم ہے، یعنی قافیہ "ای لا" ہے یعنی

سلسِلہ
گِلہ
صِلہ
مِلا
قافِلہ
قاتِلہ
کامِلہ


اور یہ بالکل درست ہیں، ایطا یا شائگاں اس صورت میں ہوتا جب مطلع میں حرف روی لام کی بجائے حرف سین ہوتا یعنی سلسلہ کے ساتھ کوئی ایسا قافیہ ہوتا جس میں بھی حرف سین کا اعادہ ہوتا اور بعد والے قوافی یہی ہوتے جو موجودہ ہیں تو یہ ایطا ہوتا۔

دوسری صورت میں اگر کسی بھی قافیہ میں حرف روی 'لام' نہ آتا تو پھر بھی عیب تھا یعنی اگر کسی دوسرے شعر میں قافیہ، ذائقہ یا آئنہ آ جاتا تو حرفِ روی بدلنے کا عیب لازم آتا۔

لیکن راجا صاحب کی غزل میں چونکہ سب قوافی میں حرف روی لام ہی ہے لہذا یہ قافیے بالکل صحیح ہیں۔
 

مغزل

محفلین
اچھا چھوڑیے ۔ ویسے کیا غزل پر اور بات کی گنجائش ہے وارث بھائی ، یا سلسلہ لپیٹ دیا جائے ۔ میر ا تو جی کرتا ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں ؟
 

مغزل

محفلین
ریکارڈ کی درستگی کیلیے:

اس غزل کے قوافی صحیح ہیں اور مطلع میں شائگاں یا ایطا نہیں ہے:

سلسِلہ اور گِلہ مطلعے کے قوافی ہیں، ان میں حرفِ روی لام ہے اور روی کے ما قبل کی حرکت (زیر) لانا لازم ہے، یعنی قافیہ "ای لا" ہے یعنی

سلسِلہ
گِلہ
صِلہ
مِلا
قافِلہ
قاتِلہ
کامِلہ


اور یہ بالکل درست ہیں، ایطا یا شائگاں اس صورت میں ہوتا جب مطلع میں حرف روی لام کی بجائے حرف سین ہوتا یعنی سلسلہ کے ساتھ کوئی ایسا قافیہ ہوتا جس میں بھی حرف سین کا اعادہ ہوتا اور بعد والے قوافی یہی ہوتے جو موجودہ ہیں تو یہ ایطا ہوتا۔

دوسری صورت میں اگر کسی بھی قافیہ میں حرف روی 'لام' نہ آتا تو پھر بھی عیب تھا یعنی اگر کسی دوسرے شعر میں قافیہ، ذائقہ یا آئنہ آ جاتا تو حرفِ روی بدلنے کا عیب لازم آتا۔

لیکن راجا صاحب کی غزل میں چونکہ سب قوافی میں حرف روی لام ہی ہے لہذا یہ قافیے بالکل صحیح ہیں۔

وارث صاحب ،
میرا مطمحِ نظر ’’ گلہ ، قافلہ اور ملا ‘“ سے ہے ، نکاتِ سخن اور دیگر کتب کے تحت اساتذہ نے قافیے کے اعلان پر زور دیا ہے ۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ صوت الف کی ہی ہے۔
جیسے غالب نے ’’ دلَ ناداں تجھے ہوا کیا ہے ، آخر اس در دکی دوا کیا ہے ‘‘ ( بعد کے قوافی ’ وفا ‘ وغیرہ ہیں ) کہا ۔۔ علامہ نیاز فتح پوری سمیت اساتذہ اور ناقدین نے اسے
ایطا قرار دیا ۔ جلی اور خفی ۔ ایطا تو ایطا ہی ہوتا ہے نا ؟؟
 
Top