پہلے نظم کی تمہید

الف عین

لائبریرین
میں نو آموز ادیب تو ہوں نہیں اس لئے اب تک اس فورم میں پوسٹ نہیں کر رہا تھا، مگر اب سرور راز صاحب نے بھی ابتدا کی ہے جو میرے بھی بڑے بھائی ہیں۔ پھر یہ بھی خیال آیا کہ اردو کی پہلی آن لاٗن طویل نظم کے طور پر اس چوپال کا کچھ نام ہی روشن ہو۔ تو چلّئے اپنی طویل نظم بھی یہاں قسطوں میں سنا کر آپ حضرات کو بور کرنے کا کچھ سامان کیا جائے۔ اس نظم کا عنوان ہے 'صاد'۔ یہ 'ورڈ داکیومنٹ 'کی صورت میں یاہو اردو رائٹرس گروپ کے فائل سکشن میں بھی موجود ہے۔، بے صبری ہو تو وہاں سے ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھ لیں۔ یہاں تو میں ہر ہفتے دو تین صفحات ہی پوسٹ کروں گا۔
 

Sarwar A. Raz

محفلین
مکرمی اعجاز صاحب:آداب
یہ بھی آپ نے خوب کہی کہ اب تک یہاں اس لئے پوسٹ نہیں کر رہے تھے کہ آپ :کوئی نو آموز ادیب تو ہیں نہیں:! گویا یہاںصرف نو آموز ہی پوسٹ کریں تو بہتر ہے، پختہ مشق لوگوں کا یہاں کیا کام؟ کاش آپ نے یہ لکھنے سے پہلے سوچ لیا ہوتا تو آپ کی پختہ مشقی کی لاج رہ جاتی!
یہاں ہی نہیں بلکہ ہر چوپال میں ہر شخص کو لکھنے کی ضرورت ہے۔ نو آموز اپنی ترقی کی خاطر اور پختہ مشق لوگوں کی مدد کی خاطرلکھیں تو محفل کا کام اچھا چل سکتا ہے۔ امید ہے کہ آپ اس سے اتفاق کریں گے!
سرور عالم راز :سرور:
 

نبیل

تکنیکی معاون
محترم اعجاز اختر صاحب:
یہ نو آموزی والی بات کر کے آپ نے تو مجھے بھی حیران کر دیا۔ مجھے معلوم نہیں کہ اور اس جیسی کتنی وجوہات کے باعث ہمارے کہنہ مشق لکھنے والے اس فورم پر پوسٹ کرنے سے گریزاں ہیں۔ آپ کی دعا سے ہم جلد ہی آن لائن جریدہ شروع کردیں گے۔ وہاں تجربہ کار اور نو آموزوں کی تفریق واضح رہے گی۔
 

ثناءاللہ

محفلین
محترم جناب اعجاز عبید صاحب
آپ جیسے اور محترم جناب سرور راز جیسے کہنہ مشق لکھنے والے جب آگے نہیں آئیں گے تو نو آموزوں کا کیا بنے گا اور وہ کہاں سے سیکھیں گے؟ ھاں البتہ جریدے کی اچھی ہے۔مگر ایک شرط کے ساتھ کے اس میں آپ جیسے لوگ مستقل جلوہ افروز رہ کر نو آموزوں کی تربیت کا سامان کریں۔
شکریہ
 

منہاجین

محفلین
ہر شخص کو ہر چوپال میں لکھنے کی ضر

Sarwar A. Raz نے کہا:
یہاں ہی نہیں بلکہ ہر چوپال میں ہر شخص کو لکھنے کی ضرورت ہے۔ نو آموز اپنی ترقی کی خاطر اور پختہ مشق لوگوں کی مدد کی خاطرلکھیں تو محفل کا کام اچھا چل سکتا ہے۔ امید ہے کہ آپ اس سے اتفاق کریں گے!

بڑے پتے کی بات کہی محترم سرور راز صاحب نے، جی خوش ہوا۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ اب اِس پر عمل بھی ہو گا۔
 

Sarwar A. Raz

محفلین
مکرم بندہ منہاجین صاحب: آداب
آپ کا خط باصرہ نواز ہوا: ذکر میرامجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے! حضت! میری تجویز پر عمل نہ ہونے کا سوال ہی کیا ہے؟ میں یہاں کثرت سے لکھنا چاہتا ہوں لیکن جیسا کہ اس سے قبل عرض کیا تھا میرا مسئلہ نستعلیق اور نسخ کاہے۔ میرا سارا ادبی سرمایہ نستعلیق میں ہے۔ جو طریقہ مجھ کو اسے نسخ میں تبدیل کرنے کا بتایا گیا تھا وہ کارآمد نہیں ہوا۔ شاید اس لئے کہ میں کمپیوٹر میں کورا ہوں۔ ایک مرتبہ اور تفصیل سے وہ طریقہ یا تو یہاں لکھ دیا جائے یا مجھ کو ای میل کر دیا جائے تو عنایت ہو گی۔ کام بن گیا تو یہاں اپنی تخلیقات پوسٹ کرنا بہت آسان ہو گا۔ شکریہ!
میرا ای میل یہ ہے: sarwarazi@yahoo.com
sarwarraz@sarwarraz.com
سرور عالم راز “سرور“
 

الف عین

لائبریرین
ممکن ہے کہ آپ حضرات کو میری بات کچھ بری لگی ہو۔ مگر کم از کم مجھے یہی احساس ہے کہ اس قسم کی فورمس میں محض نئے شعرا ء اپنا کلام بھیجتے ہیں۔ یا یوں کہئے کہ جنھیں اپنا نام چھپوانے کا (یا انٹر نیٹ پر روشن کرنے کا) شوق ہوتا ہے۔ اب میں اپنے تجربات آپ کو بتاؤں کہ ادبی دنیا میں محض تعلقات اور نام چلتا ہے۔ کبھی کبھی تخلیق کی 'کوالٹی' بھی۔ جب میں نے پہلی بار اپنی دو غزلیں ۱۹۶۷ میں (جب میں علی گڑھ نہیں گیا تھا) عابد سہیل کے ماہنامے 'کتاب' لکھنؤ میں بھیجیں اور شائع بھی ہو گئیں (اور بعد میں ۱۹۶۹ میں شمس الرحمن فاروقی کے شبخون الہ آبادمیں بھی) تو اس وقت شاید یہ میری خوش قسمتی تھی۔ لیکن اس کے علاوہ دوسرے رسائل میں مایوسی ہی ہوئی۔ علی گڑھ میں۱۹۶۸ میں بشیر بدر سے تعلق ہوا اور صلاح الدین پرویز سے دوستی، تو پھر ان حضرات نے ہی مجھ سے لے لے کر مختلف رسائل میں تخلیقات چھپوائیں۔ انھیں دنوں کئی لوگوں سے خط و کتابت بھی رہی۔ پاکستان میں علامہ ماجد الباقری (راولپنڈی کے کوئی صاحب بتا سکتے ہیں کہ ماجد صاحب کہاں ہیں اور ان کا پتہ وغیرہ؟؟) نے پاکستان کے کئی رسائل میں تخلیقات چھپوائیں، اور تبھی یہ تجربہ بھی ہوا کہ میں نے ایک نظم بغیر سوچے سمجھے کچھ خوب صورت الفاظ کو جوڑ جاڑ کر 'بنائی' اور یہ نظم بھی ماجد الباقری کے وسیلے سے کسی پرچے میں چھپ گئی، تب مجھے یہی احساس ہوا کہ یہاں نام اور تعلقات چلتے ہیں۔ پھر میں ادبی منظر نامے سے تقریباً غائب ہو گیا۔ اور بعد میں ۱۹۹۸ وغیرہ میں جب پتہ چلا کہ میرے دفتر کے ساتھی عبد المغنی مصحف اقبال توصیفی ہیں اورانھیں یہ کہ میں ہی اعجاز عبید ہوں (اور ان کے دوست مغنی تبسم کے ذہن میں شعر و حکمت کے پہلے شمارے سے میرا نام تھا)تو ان کے توسط سے بلکہ مجبور کرنے پر میں۳۰ سال بعد پھر کچھ منظر عام پر آ گیا ہوں۔ مگر اس عرصے میں مغنی تبسم کے دونوں رسالوں 'سب رس' اور شعر و حکمت' کے علاوہ محض حیدر قریشی کے 'جدید ادب' میں ہی تخلیقات شائع ہوئی ہیں۔ (اور کچھ دوسرے رسالوں میں کچھ بھیجا بھی تو لوگ ہم کو بھول چکے تھے، اور انھوں نے رسید تک نہ دی)۔ یا پھر اردو رائٹر یاہو گروپ میں کچھ بھیجا تو مختلف ویب سائٹس نے وہاں سے کلام لے لیا۔ اب اسی نظم 'صاد' کو لیجئے۔ صلاح الدین پرویز جب علی گڑھ سے بی ایس سی کر کے الہ آباد ڈاکٹری کی تعلیم کے لئے (یا ان کے ہی الفاظ میں میڈیکل کالج کے مونہہ پر تھوکنے) جا رہے تھے، تب ہی انھوں نے اپنا 'گھریلو' مکتبہ عنکبوت بنایا تھا اور اپنی کتاب ژاژ چھاپی تھی، اور یہ طویل نظم صاد چھپوانے کے لئے مجھ سے میرا 'فئر' مسودہ لیا تھا، جو آج تک نہ مل سکا نہ وہ کتاب چھپی، پرویز الہ آباد سے واپس آ کر خلیج میں سرمایہ دار بن کر واپس آئے ہیں تو اب میرے ایک دو ای میل تک کا جواب نہیں دیا ہے۔ اب میں نے اپنے 'رف' کاغذات میں سے اس نظم کو پھر سے 'مرتب' کیا ہے اور پھر ٹائپ کیا ہے۔
حج ۱۹۹۷ کا اپنا سفر نامہ 'اللہ میاں کے مہمان 'بھی جو ۱۹۹۸ میں مکمل ہوئی، اب اردوستان ڈاٹ کام پر قسط وار شائع ہو رہی ہے۔
غرض بات مختصر یہ کہ میری خواہش ہے کہ انٹر نیٹ کے جریدوں پر ہی اپنا کلام /نثرچھپواؤں اور ہو سکے تو اسی ٹائپ کی ہوئی فائلوں سے کتابیں چھپوا دی جائیں۔ اب اس بڑھاپے میں ۳۸ سال کی تخلیقات نو سکھیوں کے ساتھ شائع ہوں تو تکلیف ہی ہوگی۔ چناں چہ یہ میری نفسیات کہیں یا کچھ اور۔ جس نے مجھ سے وہ سطریں لکھوا ئیں۔
 

واسطی خٹک

محفلین
ممکن ہے کہ آپ حضرات کو میری بات کچھ بری لگی ہو۔ مگر کم از کم مجھے یہی احساس ہے کہ اس قسم کی فورمس میں محض نئے شعرا ء اپنا کلام بھیجتے ہیں۔ یا یوں کہئے کہ جنھیں اپنا نام چھپوانے کا (یا انٹر نیٹ پر روشن کرنے کا) شوق ہوتا ہے۔ اب میں اپنے تجربات آپ کو بتاؤں کہ ادبی دنیا میں محض تعلقات اور نام چلتا ہے۔ کبھی کبھی تخلیق کی 'کوالٹی' بھی۔ جب میں نے پہلی بار اپنی دو غزلیں ۱۹۶۷ میں (جب میں علی گڑھ نہیں گیا تھا) عابد سہیل کے ماہنامے 'کتاب' لکھنؤ میں بھیجیں اور شائع بھی ہو گئیں (اور بعد میں ۱۹۶۹ میں شمس الرحمن فاروقی کے شبخون الہ آبادمیں بھی) تو اس وقت شاید یہ میری خوش قسمتی تھی۔ لیکن اس کے علاوہ دوسرے رسائل میں مایوسی ہی ہوئی۔ علی گڑھ میں۱۹۶۸ میں بشیر بدر سے تعلق ہوا اور صلاح الدین پرویز سے دوستی، تو پھر ان حضرات نے ہی مجھ سے لے لے کر مختلف رسائل میں تخلیقات چھپوائیں۔ انھیں دنوں کئی لوگوں سے خط و کتابت بھی رہی۔ پاکستان میں علامہ ماجد الباقری (راولپنڈی کے کوئی صاحب بتا سکتے ہیں کہ ماجد صاحب کہاں ہیں اور ان کا پتہ وغیرہ؟؟) نے پاکستان کے کئی رسائل میں تخلیقات چھپوائیں، اور تبھی یہ تجربہ بھی ہوا کہ میں نے ایک نظم بغیر سوچے سمجھے کچھ خوب صورت الفاظ کو جوڑ جاڑ کر 'بنائی' اور یہ نظم بھی ماجد الباقری کے وسیلے سے کسی پرچے میں چھپ گئی، تب مجھے یہی احساس ہوا کہ یہاں نام اور تعلقات چلتے ہیں۔ پھر میں ادبی منظر نامے سے تقریباً غائب ہو گیا۔ اور بعد میں ۱۹۹۸ وغیرہ میں جب پتہ چلا کہ میرے دفتر کے ساتھی عبد المغنی مصحف اقبال توصیفی ہیں اورانھیں یہ کہ میں ہی اعجاز عبید ہوں (اور ان کے دوست مغنی تبسم کے ذہن میں شعر و حکمت کے پہلے شمارے سے میرا نام تھا)تو ان کے توسط سے بلکہ مجبور کرنے پر میں۳۰ سال بعد پھر کچھ منظر عام پر آ گیا ہوں۔ مگر اس عرصے میں مغنی تبسم کے دونوں رسالوں 'سب رس' اور شعر و حکمت' کے علاوہ محض حیدر قریشی کے 'جدید ادب' میں ہی تخلیقات شائع ہوئی ہیں۔ (اور کچھ دوسرے رسالوں میں کچھ بھیجا بھی تو لوگ ہم کو بھول چکے تھے، اور انھوں نے رسید تک نہ دی)۔ یا پھر اردو رائٹر یاہو گروپ میں کچھ بھیجا تو مختلف ویب سائٹس نے وہاں سے کلام لے لیا۔ اب اسی نظم 'صاد' کو لیجئے۔ صلاح الدین پرویز جب علی گڑھ سے بی ایس سی کر کے الہ آباد ڈاکٹری کی تعلیم کے لئے (یا ان کے ہی الفاظ میں میڈیکل کالج کے مونہہ پر تھوکنے) جا رہے تھے، تب ہی انھوں نے اپنا 'گھریلو' مکتبہ عنکبوت بنایا تھا اور اپنی کتاب ژاژ چھاپی تھی، اور یہ طویل نظم صاد چھپوانے کے لئے مجھ سے میرا 'فئر' مسودہ لیا تھا، جو آج تک نہ مل سکا نہ وہ کتاب چھپی، پرویز الہ آباد سے واپس آ کر خلیج میں سرمایہ دار بن کر واپس آئے ہیں تو اب میرے ایک دو ای میل تک کا جواب نہیں دیا ہے۔ اب میں نے اپنے 'رف' کاغذات میں سے اس نظم کو پھر سے 'مرتب' کیا ہے اور پھر ٹائپ کیا ہے۔
حج ۱۹۹۷ کا اپنا سفر نامہ 'اللہ میاں کے مہمان 'بھی جو ۱۹۹۸ میں مکمل ہوئی، اب اردوستان ڈاٹ کام پر قسط وار شائع ہو رہی ہے۔
غرض بات مختصر یہ کہ میری خواہش ہے کہ انٹر نیٹ کے جریدوں پر ہی اپنا کلام /نثرچھپواؤں اور ہو سکے تو اسی ٹائپ کی ہوئی فائلوں سے کتابیں چھپوا دی جائیں۔ اب اس بڑھاپے میں ۳۸ سال کی تخلیقات نو سکھیوں کے ساتھ شائع ہوں تو تکلیف ہی ہوگی۔ چناں چہ یہ میری نفسیات کہیں یا کچھ اور۔ جس نے مجھ سے وہ سطریں لکھوا ئیں۔
شاید پہلے پڑھ لیا ہوتا
 

فلک شیر

محفلین
[QUOTE="الف عین, post: 1052, member: 38" پاکستان میں علامہ ماجد الباقری (راولپنڈی کے کوئی صاحب بتا سکتے ہیں کہ ماجد صاحب کہاں ہیں اور ان کا پتہ وغیرہ؟؟) نے پاکستان کے کئی رسائل میں تخلیقات چھپوائیں، اور تبھی یہ تجربہ بھی ہوا کہ میں نے ایک نظم بغیر سوچے سمجھے کچھ خوب صورت الفاظ کو جوڑ جاڑ کر 'بنائی' اور یہ نظم بھی ماجد الباقری کے وسیلے سے کسی پرچے میں چھپ گئی[/QUOTE]
محترم الف عین صاحب!
ماجد الباقری صاحب کےنام اور چند انتہائی خوبصورت اشعار سے واقفیت مجھے اپنے عزیز دوست شناور اسحاق سے ہوئی ۔ شناور صاحب کو ماجدالباقری مرحوم سے شرف تلمذ حاصل ہے، وہ ان کا نام انتہائی عقیدت اور ادب سے لیتے ہیں ۔ میری معلومات کے مطابق ماجد صاحب اپنی عمر کے آخری برس پنجاب کے شہر گوجرانوالہ، جو ہمارا آبائی ضلعی صدرمقام بھی ہے ۔۔۔۔میں مقیم رہے ۔وہیں شناور صاحب بھی ان سے متعارف ہوئے ۔ان سے متعلق مزید معلومات اگر آپ کو درکار ہوں، تو اس ضمن میں شناور صاحب سے درخواست کی جا سکتی ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
صاد۔۔۔ یہ تو اب کئی جگہ ہے، برقی کتابوں، بزم اردو لائبریری اور یہاں محفل میں بھی۔ بس تلاش کرنے کی ضرورت ہے
 
Top