سید فصیح احمد
لائبریرین
افسوس زمرد دل میں خفا ہو گی کہ اب بھی اس کی وصیت نہ پوری کی، لیکن میں اپنے عذرات پیش کیے دیتا ہوں۔ جو فرشتے میری روز روز کی خبر اس تک پہنچاتے ہیں، میرا عذر بھی اس کے گوش گزار کر دیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس وقت وہ کھڑی مجھے دیکھ رہی ہو۔ میری باتیں اپنے کانوں سے سن رہی ہو۔ممکن کیا معنی بالکل قریں قیاس ہے، اب اپنے خط کا جواب سننے ا س کی روح ضرور یہاں آئی ہو گی؛ ہاں تو جو کچھ کہنا ہے اسی سے کیوں نہ کہہ دوں۔"
یہ خیال اس کے دل میں جم گیا اور زمرد کی قبر کی دیکھ دیکھ کے یوں کہنا شروع کیا:
"پیاری زمرد! نہ میں اس عالم نور میں ہوں جس میں تو ہے اور نہ میرے پاس وہ نورانی نامہ بر ہیں جو مجھ خاکی پیکر کا خط تجھ تک پہنچا دیں۔ اپنی نورانی اور نوری توجہ سے کام لے اور خود میری زبان سے میرا عذر سن۔ او حور وش اور خود مقبولِ الٰہی نازنیں! او غواص دریائے رموز وحدت و کثرت! کیا عجب کہ اپنے نور اور تجرد کی آنکھوں سے تو اس وقت میری ستم زدگی کا تماشا دیکھ رہی ہویا یہ میری آہ و زاری کی جگر دوز آواز تیرے روحانی کانوں تک پہنچ رہی ہو۔ زمرد! مجھے ان لوگوں کے پاس نہ بھیج جن کے فہم و ادراک سے تیری نورانیت اور تیری مقبولیت اور معصومیت کا قصہ بالا تر ہے۔ وہ میرے کہنے کو سچ نہ مانیں گے، لہٰذا اپنے عشق میں مجھے اس ذلت و رسوائی سے بچا اور اگر بارگاہ لم یزل میں تیری آواز کچھ بھی اثر رکھتی ہو تو مجھے کوشش کر کے اپنے پاس بلا۔ ان پریوں کو بھیج اور جلدی بھیج کہ اپنے تفریح گاہ کو مجھ سے خالی کر لیں۔ میری روح تیرے شوق میں ایک ذبح کیے ہوئے طائر کی طرح تڑپ رہی ہے اور اس مادی پنجرے سے نکلنے کے لیے پھڑکتی ہے۔ او محبت والی نازنین! مجھے کہیں اور نہ بھیج بلکہ اپنے پاس بلا۔"
یہ خیال اس کے دل میں جم گیا اور زمرد کی قبر کی دیکھ دیکھ کے یوں کہنا شروع کیا:
"پیاری زمرد! نہ میں اس عالم نور میں ہوں جس میں تو ہے اور نہ میرے پاس وہ نورانی نامہ بر ہیں جو مجھ خاکی پیکر کا خط تجھ تک پہنچا دیں۔ اپنی نورانی اور نوری توجہ سے کام لے اور خود میری زبان سے میرا عذر سن۔ او حور وش اور خود مقبولِ الٰہی نازنیں! او غواص دریائے رموز وحدت و کثرت! کیا عجب کہ اپنے نور اور تجرد کی آنکھوں سے تو اس وقت میری ستم زدگی کا تماشا دیکھ رہی ہویا یہ میری آہ و زاری کی جگر دوز آواز تیرے روحانی کانوں تک پہنچ رہی ہو۔ زمرد! مجھے ان لوگوں کے پاس نہ بھیج جن کے فہم و ادراک سے تیری نورانیت اور تیری مقبولیت اور معصومیت کا قصہ بالا تر ہے۔ وہ میرے کہنے کو سچ نہ مانیں گے، لہٰذا اپنے عشق میں مجھے اس ذلت و رسوائی سے بچا اور اگر بارگاہ لم یزل میں تیری آواز کچھ بھی اثر رکھتی ہو تو مجھے کوشش کر کے اپنے پاس بلا۔ ان پریوں کو بھیج اور جلدی بھیج کہ اپنے تفریح گاہ کو مجھ سے خالی کر لیں۔ میری روح تیرے شوق میں ایک ذبح کیے ہوئے طائر کی طرح تڑپ رہی ہے اور اس مادی پنجرے سے نکلنے کے لیے پھڑکتی ہے۔ او محبت والی نازنین! مجھے کہیں اور نہ بھیج بلکہ اپنے پاس بلا۔"