نیرنگ خیال
لائبریرین
اپنی ماں کے بہتے آنسو دیکھ کے اک معصوم سا لڑکا
اپنی ماں کو چوم کے بولا
پیاری ماں تو کیوں روتی ہے؟
ماں نے اس کا ماتھا چوما ،گلے لگایا،اس کے بالوں کو سہلایا
گہری سوچ میں کھو کر بولی
’’کیونکہ میں اک عورت ہوں‘‘
بیٹا بولا،میں تو کچھ بھی سمجھ نہ پایا
ماں مجھ کو کُھل کر سمجھاؤ
اس کو بھینچ کے ماں یہ بولی
’’بیٹا تم نہ سمجھ سکو گے‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شام ہوئی تو چھوٹا لڑکا،باپ کے پہلو میں جا بیٹھا
باپ سے پوچھا’’ماں اکثر کیوں رو دیتی ہے‘‘
باپ نے اس کو غور سے دیکھا ،کچھ چکرایا،پھر بیٹے کو یہ سمجھایا
’’یہ عادت ہے ہر عورت کی،دل کی بات کبھی نہ کہنا
فارغ بیٹھ کے روتے رہنا‘‘
باپ کا مبلغ علم تھا اتنا ،بیٹے کو بتلاتا کیا
اس کے سوا سمجھاتا کیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جب بچے نے ہوش سنبھالا
علم نے اس کے زہن و دل کو خوب اجالا
اس نے اپنے رب سے پوچھا
میرے مالک میرے خالق، آج مجھے اک بات بتا دے
الجھن سی ہے اک سلجھا دے
اتنی جلدی اتنی جھٹ پٹ ہر عورت کیوں رو دیتی ہے
دیکھ کے اس کی یہ حیرانی،بھولے سے من کی ویرانی
پیار خدا کو اس پر آیا،اس کو یہ نکتہ سمجھایا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عورت کی تخلیق کا لمحہ خاص بہت تھا
مرد کو سب کچھ دے بیٹھا تھا پھر بھی میرے پاس بہت تھا
میں نے چاہا عورت کو کچھ خاص کروں میں
چہرہ مقناطیسی رکھوںلیکن دل میں یاس بھروں میں
میں نے اس کے کاندھوں کو مضبوط بنایا
کیونکہ اس کو بوجھ بہت سے سہنے تھے
اور پھر ان کو نرم بھی رکھا
کیونکہ ان پر سر کو رکھ کر
بچوں اور شوہرنے دکھڑے کہنے تھے
اس کو ایسی طاقت بخشی ہر آندھی طوفان کے آگے وہ ڈٹ جائے
پر دل اتنا نازک رکھا تیکھے لفظ سے جو کٹ جائے
اس کے دل کو پیار سے بھر کر گہرائی اوروسعت دے دی
پھولوں جیسا نازک رکھا پھر بھی کافی قوت دے دی
تا وہ اپنے پیٹ جنوںکے سرد رویوں کو سہہ جائے
ان راہوں پر چلتی جائے جن پر کوئی چل نہ پائے
بچوں کی گستاخی جھیلے ،پیار کا امرت بانٹے
اپنی روح پہ جھیل سکے فقروں کے تپتے چانٹے
شوہر کی بے مہری بھول کے ہر پل اس کو چاہے
اس کی پردہ پوشی کر کے زخم پہ رکھے پھاہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اتنا بوجھل جیون اس کو دے کر میں نے سوچا
نازک سی یہ ڈالی اتنے بوجھ سے ٹوٹ نہ جائے
اس کے نازک کاندھوں پر جب رکھا اتنا بار
اس کی آنکھوں میں رکھ دی پھر اشکوں کی منجدھار
اس کو فیاضی سے میں نے بخشی یہ سوغات
تا وہ دیپ جلا کر کاٹے غم کی کالی رات
غم کی بھاپ بھرے جب دل میں یہ روزن کھل جائے
رو کر اس کے دل کی تلخی پل بھر میں دھل جائے جائے
اس کے سندر مکھڑے پھر روپ وہی لوٹ آئے
عرشی بے حس دنیا کو جو رب کی یاد دلائے