پیارے آقاﷺ کا بچپن

رانا

محفلین
ایک کتاب جس کا نام ہے ’’ہمارا آقا‘‘، اس میں آنحضرتﷺ کی مختصر سیرت و سوانح کہانی کے رنگ میں درج کی گئی ہے۔ اس میں سے کچھ واقعات جو پیارے آقاﷺ کے انتہائی معصوم اور پاکیزہ بچپن سے متعلق ہیں وہ شئیر کررہا ہوں۔ آنحضور صلی اللہ و علیہ وسلم کی سیرت کے واقعات تو جس رنگ میں بھی لکھے جائیں وہ رنگ امر ہوجاتا ہے اور بار بار پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

یتیم کی دائی
عرب میں دستور تھا کہ دیہات سے ہر چھٹے مہینے عورتیں شہروں میں آتیں اور شرفاء کے شیر خوار بچوں کو دودھ پلانے اور پرورش کرنے کے لئے گاؤں میں لے جایا کرتی تھیں۔ اس سے ان عورتوں کو تو یہ فائدہ ہوتا کہ ان کی روزی کا معقول سامان ہوجاتا کیونکہ بچوں کے والدین ان کو اس خدمت کا بہت معقول معاوضہ دیتے تھے۔ ماں باپ کو یہ فائدہ ہوتا کہ ان کے ننھے بچے دیہات میں پرورش پاکر خوب مستعد اور چست و چالاک ہوجاتے۔
اسی دستور کے موافق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت بھی بنو سعد کی عورتیں مکہ کے شرفاء کے بچوں کو لینے آئیں اور ہر ایک عورت نے جلدی جلدی امیر امیر بچوں کو سنبھال لیا مگر آمنہ کے لعل کی طرف کسی نے توجہ بھی نہ کی۔ کیونکہ ایک تو یتیم بچہ تھا اور یتیم بچہ عربوں میں منحوس سمجھا جاتا تھا دوسرے غریب ماں کے پاس کھلائی کو دینے کے لئے کچھ نہ تھا اس لئے کس امید پر کوئی عورت یہاں آتی اور بچے کے لئے درخواست کرتی۔
جب آمنہ نے سنا کہ دیہات سے عورتیں بچوں کو لینے آئی ہیں تو وہ خیال کرنے لگی کہ اگر اس وقت بچے کا باپ زندہ ہوتا یا میں مالدار ہوتی تو کوئی عورت میرے بچے کو بھی لینے آتی لیکن یہاں دونوں چیزیں نہ تھیں۔ ناچار غریب بیوہ آہ کھینچ کر اور دل مسوس کر رہ گئی۔
انہی عورتوں میں حلیمہ نام کی ایک دائی بھی تھی بیچاری غریب بھی تھی اور کمزور بھی۔ اُس کو بہت دوڑ دھوپ کے باوجود کوئی بچہ نہ ملا۔ وہ بڑی حسرت کے ساتھ اپنی ساتھی عورتوں کو تک رہی تھی جن کے پاس بڑے بڑے امیروں کے بچے تھے۔ غریب حلیمہ بچہ نہ ملنے پر غمگین تھی مگر قسمت سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی اور فرشتے آسمان سے جھانک کر کہہ رہے تھے کہ ’’حلیمہ! تجھے بچہ نہیں بنی نوع انسان کا سردار اقلیم روحانیت کا تاجدار ملنے والا ہے ذرا صبر تو کر‘‘۔
جب حلیمہ کو باوجود سخت کوشش کے کوئی بچہ نہ ملا تو اس نے بہت مایوس ہو کر اپنے شوہر سے کہا کہ اگر تم کہو میں جاکر آمنہ کے بچے ہی کو لے آؤں؟ اگرچہ وہ یتیم ہے اور اس کی ماں کے پاس دینے دلانے کو بھی کچھ نہیں لیکن اگر میں کسی بچے کو نہ لے گئی تو میرے ساتھ کی دوسری عورتیں میرا مذاق اڑائیں گی اور مجھے طعنے دیں گی اس لئے ’بیکار سے بیگار بھلی‘۔ بولو! تمہاری کیا مرضی ہے؟
شوہر کا نام حارث تھا سن کر کہنے لگا ’’مجبوراً یہی کرنا پڑے گا۔ ’لاچاری پربت سے بھاری‘ قبیلے میں آخر عزت بھی تو رکھنی ہی ہے۔‘‘
میاں بیوی کی اس گفتگو کے بعد حلیمہ آمنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی ’’ میں آپ کے بچے کو لینے آئی ہوں۔ اگر آپ دے دیں تو لے جاؤں۔‘‘ آمنہ نے جواب دیا ’’ مگر میں تمہاری دادوست کا معاوضہ کہاں سے دوں گی کیونکہ نہ بچے کا باپ زندہ ہے اور نہ میں امیر ہوں‘‘۔ حلیمہ نے کہا ’’میں اس خیال سے نہیں آئی، صرف بچے کو لینے آئی ہوں۔‘‘
ماں بولی ’’ تمہارا شکریہ! لیکن! آخر ہر شخص بدلہ کی امید میں ہی دوسرے کا کام کیا کرتا ہے‘‘۔ حلیمہ نے جواب دیا ’’ نہیں مجھے بدلہ اور معاوضہ کی خواہش نہیں میں صرف بچہ چاہتی ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر نہایت اصرار سے بچہ کو لے گئی۔
حلیمہ تجھے کیا خبر تھی کہ جس غریب اور یتیم بچہ کو تُو لے جارہی ہے وہ تیرے لئے مکہ کے تمام امیر کبیر بچوں سے زیادہ خوش نصیب ثابت ہوگا۔ حلیمہ خود کہتی ہیں کہ محمدﷺ کو لے جاتے ہی ہماری تنگ دستی غربت اور مفلوک الحالی، آرام و راحت اور خوشحالی سے بدل گئی۔ ہماری کمزور اور سست رفتار اونٹنی قبیلے کی ساری اونٹنیوں سے زیادہ چاق و چوبند ہوگئی اور ہماری بکریاں خاندان کی سب بکریوں سے زیادہ دودھ دینے لگیں۔ اگرچہ شروع میں حلیمہ بہت ہی بے دلی کے ساتھ مجبوراً بچہ کو اس کی ماں سے لائی تھی مگر آج اپنے انتخاب پر پھولی نہیں سماتی تھی۔

برکت کی پوٹ
ننھا معصوم بچہ حلیمہ سعدیہ کی گود میں پرورش پاتا رہا اور حلیمہ اسے دیکھ دیکھ کر نہا ل ہوتی رہی کیونکہ محض اس کے دم سے اس کا گھر برکت کی پوٹ بن گیا تھا۔ دو برس آنکھ جھپکتے ہی گزرگئے اور حسب دستور وہ وقت آپہنچا جب عام طور پر بچوں کو عورتیں واپس مکہ لا کر ان کے ماں باپ کے سپرد کردیتی تھیں۔
اب تو میاں بیوی بڑے گھبرائے نہ بچے کو قاعدہ کے مطابق رکھ سکتے تھے نہ کسی طرح ان کا دل چاہتا تھا کہ ایسا بابرکت بچہ ان کے ہاں سے جائے کیونکہ انہیں صاف نظر آرہا تھا کہ بچہ ساری برکت بھی اپنے ساتھ ہی لے جائے گا۔ علاوہ ازیں بچے سے محبت بھی اتنی ہوگئی تھی کہ حلیمہ کا دل کسی بھی طرح اسے چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔ مگر دستور سے مجبور تھی ناچار بچے کو لے کر مکہ میں آئی اور آمنہ سے بڑی عاجزی سے کہنے لگی کہ ’’میں آپ کا بچہ تو لے آئی ہوں لیکن اتنی محبت ہوچکی ہے کہ کسی طرح بھی اس سے جدا ہونے کو جی نہیں چاہتا۔ اگر آپ اتنی مہربانی کریں کہ کچھ دن اور اسے میرے پاس رہنے دیں تو میں اس عنایت کے لئے آپ کی بہت ممنون ہوں گی، ویسے میرا کچھ زور نہیں بچہ آپ کا ہے اور آپ کو مبارک رہے۔‘‘
اتفاق سے ان دنوں مکہ کی آب و ہوا کچھ خراب تھی اور حلیمہ کا بے حد اصرار بھی تھا اس لئے دونوں باتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے آمنہ نے فرمایا: ’’تم نے اتنے دنوں محبت کے ساتھ اس کی پرورش کی ہے میں تمہارا دل میلا کرنا نہیں چاہتی اچھا تھوڑے دنوں کے لئے اور لے جاؤ۔ آج کل ویسے بھی مکہ کی آب و ہوا خراب ہورہی ہے میں نہیں چاہتی کہ بچہ اس وقت یہاں رہے‘‘۔
حلیمہ کو ایسا معلوم ہوا جیسے ایک عظیم الشان خزانہ آمنہ نے اسے بخش دیا۔ اور وہ بڑی خوش خوش اپنے گاؤں کو لوٹ گئی۔

ماں کی جدائی
ننھا معصوم اپنی ماں کے پاس رہنے لگا۔ شاید ہی کسی ماں کو اپنے بیٹے سے اتنی محبت ہوگی جتنی آمنہ کو اپنے یتیم بچے سے تھی۔ مگر مرحوم شوہر کی موت کا صدمہ بھی ایسا نہ تھا جو کسی وقت ان کے دل سے دور ہوتا ہو۔ جب بھی یتیم بچے پر نظر پڑتی۔ بے اختیار اُسکے والد یاد آجاتے اور طبیعت بے چین ہوجاتی۔ ایک دن جب شوہر کی یاد نے بہت ستایا تو حضرت آمنہ نے ارادہ کیا کہ لاؤ مدینہ چل کر ان کی قبر کی زیارت ہی کرآؤں شاید اسی سے دل کو کچھ ڈھارس ہو۔
چنانچہ وہ اپنے لخت جگر کو ساتھ لے کر مدینہ گئیں اور وہاں اپنے رشتہ داروں کے ہاں ایک مہینے تک رہیں۔ مدینہ کے قیام کے دوران ان کا یہ معمول تھا کہ شوہر کی قبر پر جاتیں اور دیر تک وہاں بیٹھی رہتیں۔ ایک مہینے تک مدینہ میں رہنے کے بعد انہوں نے واپس آنا چاہا۔ ان کو زیادہ دیر تک انتظار نہ کرنا پڑا ۔ ایک قافلہ مکہ آرہا تھا اس کے ساتھ حضرت آمنہ بھی اپنے بیٹے کو لے کر روانہ ہوگئیں۔
مدینہ سے روانہ ہو کر جس وقت یہ قافلہ مقام ابواء پر پہنچا تو دفعۃً آمنہ بیمار ہوئیں کہ ان کو اپنی زندگی کی آس نہ رہی۔ جب آمنہ کو محسوس ہوا کہ میرا آخری وقت آلگا تو بڑی حسرت کے ساتھ انہوں نے اپنے لخت جگر کی طرف دیکھا۔ چھوٹا معصوم بچہ غم کی تصویر بنا سامنے کھڑا تھا۔ ماں نے اشارے سے بلایا دوڑ کر چھاتی سے چمٹ گیا۔ ماں کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے۔
ذرا خیال تو کرو کس قدر درد انگیز نظارہ تھا ۔ ماں سینکڑوں امنگوں اور ہزاروں تمناؤں کو ساتھ لے کر دنیا سے جارہی ہے نہ معلوم کیا کیا خیالات اس کے دل میں گزر رہے ہیں۔ اپنے معصوم لال کو اس لق و دق صحرامیں بے یارو مددگار چھوڑے جانے کا صدمہ اس کی روح کو تڑپا رہا ہے، یہ دیکھ کر کہ اس ہولناک وادی میں چھ برس کی جان کس طرح زندہ رہے گی اور میرے بعد اس پر کیا بِیتے گی۔ اس کا دل پاش پاش ہورہا ہے مگر موت نہ کسی کی امنگوں کی پروا کرتی ہے نہ حسرتوں کی۔ وہ بادشاہوں کو چھوڑتی ہے نہ فقیروں کو۔ نہ امیروں سے رعایت کرتی ہے نہ غریبوں سے۔
تھوڑی دیر بعد آمنہ ہمیشہ کے لئے دنیا سے رخصت ہوگئیں اور اپنے لال کو اکیلا جنگل میں چھوڑگئیں۔ کتنا رقت خیز تھا یہ وقت کہ ماں کی نعش پر اس کا لاڈلا بچہ حیران پریشان کھڑا ہے آنکھوں سے آنسو نکل رہے ہیں اور دل غم و رنج سے بھرا ہوا ہے اور وہ سوچ رہا ہے کہ یہ کیا ہوگیا؟ اورمیں اب کہاں جاؤں؟
باپ پیدا ہونے سے پہلے ہی چلا گیا۔ ماں چھ سال کی عمر میں داغ مفارقت دے گئی۔ یہ تھا ہمارے آقاﷺ کا بچپن۔
قافلہ والوں نے غریب الوطن کو وہیں جنگل میں دفن کردیا اور یتیم بچہ کو مکہ لاکر اس کے دادا کے حوالے کردیا۔
 
Top