پیاس کا حل کوئی ایسا نکلے

نوید ناظم

محفلین
پیاس کا حل کوئی ایسا نکلے
کہ مِری آنکھ سے دریا نکلے

بات ظاہر پہ نہیں تھی موقوف
میرے اندر بھی تو صحرا نکلے

کیسے ڈھونڈوں میں جگہ اُس دل میں
کیسے دیوار سے رستہ نکلے

کیا کروں رنگ جو ہاتھوں میں ہیں
جس سے ملتا ہوں وہ اندھا نکلے

کس کا خط کس کو دکھاتا پھر میں
شہر جتنے بھی تھے کوفہ نکلے

ہوتا ہے غیر کا وہ ہو جائے
میرے دل سے یہ بھی کانٹا نکلے

صورتیں مجھ میں ہیں پنہاں اتنی
عکس میرا بھی نہ مجھ سا نکلے
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے غزل، بس اس مصرع میں ’یبی‘ اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ الفاظ الٹ پھیر سکتے ہو جیسے
یہ بھی دل سے مرے کانٹا نکلے
 
Top