حسان خان
لائبریرین
آپ کیوں تسلیم کرتے بیعتِ دستِ یزید
آپ کی نظروں میں تھی روزِ سیہ باطل کی عید
گفتگوئے صلح کی پا کر نہ گنجائش مزید
ہو گئے اہلِ ستم کے تیر و خنجر سے شہید
آپ نے اسلام کے پرچم کو اونچا کر دیا
الغرض انسانیت کا بول بالا کر دیا
مسلکِ تسلیم اور حق کی رضا پر آپ نے
کر کے کوفے کا سفر راہِ وفا پر آپ نے
رکھ دیا سوکھا گلا تیغِ جفا پر آپ نے
ظلم سے ٹکرا کے ارضِ کربلا پر آپ نے
گو بظاہر مسلکِ اسلام تابندہ کیا
اصل میں انسانیت کا نام تابندہ کیا
اک طرف تھے ظلم کے تیر اک طرف مظلوم تن
اک طرف پانی پر قبضہ اک طرف پیاسا دہن
اک طرف عیش و مسرت اک طرف رنج و محن
تھا مقابل کفر کے ایمان کا جو بانکپن
راہِ عرفاں میں وہی تو بانکپن کام آ گیا
زندۂ جاوید ہو جانے کا پیغام آ گیا
آج بھی وہ سرخ ذرے ہیں نشانِ کربلا
آج بھی سچ بولتے ہیں بے زبانِ کربلا
دے چکے جب سے بہتر امتحانِ کربلا
حق و ایماں آج بھی ہیں ترجمانِ کربلا
آج دنیا کو ضرورت ہے حسینی آن کی
ورنہ پھر خطرے میں ہے اب زندگی ایمان کی
ان ستم گر رہبروں کی کج نگاہی کے لیے
منتخب کرتے ہیں جو رستے تباہی کے لیے
پرخطر تاریک راہوں اور 'راہی' کے لیے
آج پھر انسانیت کی خیرخواہی کے لیے
کاش پھر پیغامِ حق لے کر یہاں آئیں حسین
زندگی کو اک نیا پیغام دے جائیں حسین
('راہی' رگھوبیر سرن دواکر امروہوی)