پیا رنگ کالا از بابا محمد یحی خان

نیلم

محفلین
خواہش، مرضی، تمنّا، طلب اور حرص، اِن سب چیزوں سے ہٹ کر راہ پکڑنے کا نام فقیری اور درویشی ہے۔ جو حُُکم ہوتا ہے، بلا چُوں چَراں اُس پر عمل کیا جاتا ہے۔ اندیشہء سود و زیاں دُنیا کے بندوں کے دِلوں میں ہوتا ہے، فقیروں کے ہاں محض تسلیم و رضا کی بات ہوتی ہے۔ یوں جانو کہ تم "جاننے" والے ہو اور ہم "ماننے" والے ہیں۔"
میرے منہ سے خود بخود نکل گیا۔ "جاننا اور ماننا۔۔۔۔۔؟"
"جان کر مانا، تو صِرف مانا اور اگر ایمان سے مانا تو بہت خُوب مانا۔۔۔۔۔ مومن اُسے کہتے ہیں جو اللہ کریم کو بغیر دیکھے بغیر جانے، اُس پر ایمان لائے اور کافر کہتا ہے کہ پہلے میرے سامنے آؤ، مُجھے اپنا آپ دکھاؤ۔"

پیا رنگ کالا از بابا محمد یحی خان
 

نیلم

محفلین
میں اِس دِید تماشے میں مگن، سوچ رہا تھا کہ مالک! یہ کس ہستی کے وسنیک ہیں، یہ کیسے سلسلے اور منزلیں ہیں؟ تیرے اِن پُراسرار بندوں کے قول و فعل کی یہ حالتیں کم از کم میری سمجھ و عقل سے بالا ہیں۔ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے، وہ نہ سمجھ میں آتا ہے اور نہ نظر میں، جو ظاہر نماز پڑھتا ہے وہ پاؤں دَاب رہا ہے اور جو بظاہر غافل سویا ہوا ہے اور نماز پڑھتا نظر نہیں آتا وہ پاؤں دبوا رہا ہے۔ الہی! یہ کیسا تماشا، عقیدت اور یقین ہے۔
جاگنے والے کو محروم دو عالم رکھا
سونے والے سے کہا جا ساری خدائی تیری

پیا رنگ کالا، بابا محمد یحیی خان، صفحہ، 188
 

نیلم

محفلین
بابا جی نے فرمایا نور، اُجالے میں ہی نہیں تخریب میں بھی پایا جاتا ہے۔۔۔ فرمایا گیا کہ جسے تم شر سمجھتے ہو، تمہیں کیا خبر کہ اِس میں خیر کہاں چھپی ہوئی ہے اور جسے تم خیر گردانتے ہو اِس میں شر کہاں پوشیدہ ہے۔۔۔۔ بابا جی سرکارؒ اپنی دعاؤں میں خیر اور سلامتی کے طلبگار رہتے۔ ایک اور موقعہ پر ارشاد فرمایا۔۔۔ دعا مانگنے کا حکم ہے۔ خوب گڑگڑا کر، دِل کی گہرائیوں سے دُعا مانگا کرو، اپنے لئے نورِ عمل مانگا کرو مگر سلامتی کے ساتھ۔۔۔۔ صحت، دولت، علم،اولاد، عاقبت مانگو تو ساتھ سلامتی بھی چاہو۔
(محمد یحیٰی خان۔ کاجل کوٹھا۔ صفحہ نمبر 62
 

نیلم

محفلین
تدبیر بھی تقدیر کے آگے سرنگوں ہوتی ہے۔۔۔۔ مَشّیتِ ایزدی کے سامنے لبیک کہنا ہی بندگی کا اصل مفہوم ہے۔۔۔۔ ہمارے تمہارے چاہنے، سوچنے یا کرنے سے ہی اگر تمام مسئلے حل ہوسکتے تو پھر خدا کہاں ہے ؟ ہم منزل کی سمت قدم بڑھا کر سفر تو شروع کر سکتے ہیں لیکن منزل پا لینا ضروری نہیں ٹھہرتا۔ ہر حال میں راضی بہ رضا رہنا ہی منزل کا مفہوم ہے۔

(محمد یحیٰی خان۔ کاجل کوٹھا۔ صفحہ نمبر563 )
 

الشفاء

لائبریرین
اندیشہء سود و زیاں دُنیا کے بندوں کے دِلوں میں ہوتا ہے، فقیروں کے ہاں محض تسلیم و رضا کی بات ہوتی ہے۔ یوں جانو کہ تم "جاننے" والے ہو اور ہم "ماننے" والے ہیں۔"​

واہ۔ بہت خوب اقتباسات۔۔۔​
خوش رہیں۔۔۔​
 

نیلم

محفلین
اندیشہء سود و زیاں دُنیا کے بندوں کے دِلوں میں ہوتا ہے، فقیروں کے ہاں محض تسلیم و رضا کی بات ہوتی ہے۔ یوں جانو کہ تم "جاننے" والے ہو اور ہم "ماننے" والے ہیں۔"​

واہ۔ بہت خوب اقتباسات۔۔۔​
خوش رہیں۔۔۔​
بہت شکریہ
 
Top