فارقلیط رحمانی
لائبریرین
بند پتلی گلی کے سامنے ماتھے والے مکان کی یہی حالت تھی، یہاں کوئی بھی پھول سا بچہ نہ تھا۔ اس گھر میں اپنی عمر کی نمازِ عشاء کی تیاریوں میں مصروف ایک صابر و شاکر اور زندگی کی شکر دوپہرمیں سوا نیزے پہ اُترے ہوئے سورج تلے کھڑی ہوئی ایک سوبھاگیہ سی عورت رہتے تھے۔اولاد کی نعمت سے محروم لیکن یہ میاں بیوی ابھی تک خدا کی ذات سے نا اُمید نہیں ہوئے تھے۔اِنہیں یقینِ کامل تھا کہ وہ قادرِ مطلق ضرور ایک دن ان کی آرزؤوں کے گلشن میں اَولادِ نرینہ کا پھول کھلائے گا۔۔۔۔۔۔ڈھول پیٹنے والا اب ان کی بند گلی میں کھڑازور زور سے ڈھول پیٹ رہا تھا۔خاتونِ خانہ تو بہت پہلے ہی سے جاگی ہوئی تھی۔باورچی خانے کی کھڑکی اور روشن دان سے لالٹین کی ملگجی سی روشنی اور توے پہ دیسی گھی سے ترترائے ہوئے پراٹھے سے اُٹھتا ہوا دھواں اور خوشبو باہر نکل رہی تھی۔اور قریب ہی اس کا بوڑھا شوہر ابھی تک چارپائی پہ ہی نیم نوم سا پڑا ہوا تھا۔ویسے بھی سحری میں اکثر مردوں سے پہلے عورتیں ہی جاگتی ہیں۔خاتونِ خانہ نے سوندھی سوندھی خوشبو اور سنہری رنگت والا پراٹھا توے سے اُتارا اور ساتھ ہی ایک چھوٹی سی پراٹھی توے پر پھیلا دی۔پراٹھی اس کے اپنے لیے اور پراٹھا خاوند کے لیے تھا۔ایسے میں باہر گلی کی سیالکوٹی چھوٹی اینٹوں والے فرش پر ٹک ٹک کی آوازیں اُبھریں۔جیسے کوئی نعل بند گھوڑا آہستہ آہستہ، ادھر چلا آ رہا ہو۔سنی ان سنی کرتے ہوئے وہ پراٹھی پہ گھی لگانے لگی۔انگیٹھی میں دست پناہ سے انگیخت کرتے ہوئےدو چار کوئلے بھی جھونک دِیے۔کیونکہ توا اُترتے ہی سبز چائے کی دیگچی دھرنی تھی۔بڑے لگے بندھے انداز میںوہ ساتھ ساتھ باورچی خانے کے دیگر کام بھی کر رہی تھی۔ابھی وہ کانسی کے برتن سے دہی نکال ہی رہی تھی کہ باہر دروازے سے ایک صدا آئی:
‘‘ہے کو ئی مُراد والاجو پیر مرادیے کے فقیرکی مراد پوری کرے، سحری کروائے۔’’
خاتون نے یہ الفاظ سنے تو اپنے اِردگرد نظر دوڑائی کہ اس وقت فقیر کو کیا دیا جاسکتا ہے۔چنگیر میں پڑے ہوئے پراٹھے پر نظر آٹکی۔ وہی پراٹھا اُٹھایا۔سر کا پلو درست کرتے ہوئے دروازہ کھولا۔ کالے شا گھوڑے پہ ایک نیم نانگا فقیر ، کندھوں پہ جھولتی ہوئی الجھی جٹیں،گھوڑے کی دونوں اطراف لٹکے ہوئے پوٹلے۔ وہ سواری پہ ایک ہی جانب دونوں ٹانگیں لٹکائے اس طرح بیٹھا تھا جیسے ابھی ابھی کود کر کہیں بھاگ لے گا۔ گلی کی مدّھم سی روشنی میں یہ سب کچھ کسی خواب کی مانند دکھائی دے رہا تھا۔کوئی اور عام سی گھریلو خاتون ہوی تو چیخ مار کر بے ہوش ہو جاتی۔یہ اللہ والی بڑے تحمل اور عاجزی سے بولی۔
‘‘لو بابا!یہ گرم گرم پراٹھا۔بسم اللہ! سحری کھا لو۔۔۔۔’’ وہ فقیر کو پراٹھا تھما کر مڑتے ہوئے بولی ،‘‘ اگر ضرورت ہو تو ایک اور لا دوں۔۔۔۔۔؟’’
‘‘پُتر ایک ہی بہت ہے۔۔۔۔!!’’فقیر نے کمال استغنا سے جواب دِیا۔
بن سوچے سمجھے خاتون کے منہ سے نکل گیا۔
‘‘ہاں ! بابا! ہمارے لیے ایک ہی پُتر بہت ہے۔۔۔!!!’’
فقیر نے ایک لمحہ خاتون کی جانب دیکھا پھر اسی پراٹھے سے دو لقمے توڑ کر خاتون کودیتے ہوئے کہا،
‘‘ایک لقمہ اپنے میاں کو کھلادو اور ایک خود کھا لو۔یہی رِزق تم دونوں میاں بیوی کے لیے آج کی سحری ہے۔آج انیسواں روزہ ہے۔ اگلے برس اکیسویں روزے تک پیر مرادیے کی خانقاہ پہ ہر جمعرات میٹھے پراٹھے لے جا کر بچوں میں تقسیم کر دیا کرنا۔’’خاتون ہاتھ میں پراٹھے کے لقمے لیے حیران وششدر کھڑی تھی اور فقیر جا چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( جا ر ی )